Baseerat Online News Portal

کھسیانی بلی کھمبا نوچے!!! 

 

 

نور اللہ نور

 

تبدیلی ہوئی ہے افغانستان میں ، طالبان نے قبضہ افغانستان پر کیا ہے مگر پیٹ میں مڑرو بھارتی میڈیا کے ہو رہا ہے ، ان سے ہضم نہیں ہو رہا ہے اور اس طرح سے واویلا مچا رکھا ہے گویا انہوں نے افغانستان نہیں بلکہ ہندوستان پر دھاوا بول دیا ہے

اب یہ بیچارے لاچار ہیں صرف ایر کنڈیشن اسٹوڈیو میں بیٹھ کر نفرت ہی پھیلا سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کے بس میں کچھ ہے بھی نہیں، تو وہ اب "کھسیانی بلی کھمبا نوچے” اس مثل کے مطابق خواہ مخواہ کے لئے پریشان بنے ہوئے ہیں۔

 

اس کا اندازہ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ انہوں نے ملک سارے مسائل کو پس پشت ڈال کر مولانا سجاد نعمانی صاحب کے اس بیان کو مہرہ بنالیا ہے جس میں انہوں نے طالبان کو نیک خواہشات پیش کی ہے اور اس میں بھی انہوں نے چالاکی سے پوری ویڈیو نہیں دکھائی ہے بلکہ اس کے بیشتر حصے کو حذف کر کے پیش کیا ہے اور نفرت کی آگ میں گھی ڈالنے کا کام کر رہے ہیں.

یہاں پر چند بات قابل غور ہے ایک یہ ہیکہ میڈیا کا مسلمانوں کے تئیں یہ دہرا رویہ کب تک روا رہے گا؟ اور کب تک یہ معصوم ذہنوں کو متنفر اور طبیعت کو آلودہ کریں گے؟ اگر حقیقت نمائی کا اتنا ہی شوق ہے تو آپ تصویر کے دونوں پہلو پر بات کرو! صرف ایک جہت دکھلا کر لوگوں کو متنفر کیوں کر رہے ہو؟ تمہیں مولانا کا بیان دیش کے خلاف اور آئین کے خلاف لگا اور میڈیا ٹرائل شروع ہوگیا ، اور ادھر دوسری طرف ایوان کے احاطے میں آئین کے خلاف اور دستور کے خلاف نعرے بازی ہورہی تھی وہ تمہیں دکھائی نہیں دیا اگر مولانا کا بیان دیش کے امن کے مخالف ہے تو وہ جو ” ملے کاٹے جائیں گے ……” کا نعرہ لگا رہے تھے وہ عین دستور کے مطابق تھا؟

دوسری بات یہ ہیکہ یہ جو میڈیا میں بات پھیلائی جارہی ہے کہ ” کہ بھارت نے طالبان کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے ” یہ بالکل غلط ہے اگر ایسا ہوتا تو گزشتہ دو یا تین روز قبل دوحہ میں انڈیا کے ذمہ داروں کی طالبان کے ساتھ بیٹھک چہ معنی دارد ، اگر حکومت ہند اس کو تسلیم نہیں کرتی تو ہندوستانی سفیر دوحہ میں کیوں ملاقات کرتے؟ اور اگر مولانا پیشگی مبارک بادی دی ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟ بلکہ یہ کسی بھی جہت سے غلط نہیں ہے کیونکہ آج نہ تو کل آپ کو بھی ان سے مذاکرات کرنے ہی پڑیں گے جب امریکہ ؛ چین ، روس یہ سارے ملک بات کرنے کو تیار ہیں تو پھر آپ کس کھیت کی مولی ہیں؟ آج نہ تو کل مودی جی بھی ان کے ساتھ بیٹھک کریں گے تو پھر ان کے بارے میں کیا کہیں گے؟

اور تیسری بات یہ ہیکہ اپنے ملک میں ہی اتنے مسائل در پیش ہیں کہ ان کا حل نہیں نکل نہیں رہا ہے ، یہاں روز آبرو ریزی ، دھوکہ دہی اپنے شباب پر ہے ان مسائل پر تو آپ کی نظر ہی نہیں جاتی ہے ، میگھالیہ میں وزیر اعلیٰ کے مکان پر سنگ باری ہو رہی ہے پورا میگھالیہ جنگ کا میدان بنا ہوا ہے اس کو تو آپ لوگ کور کرنے اور دکھانے سے رہے مگر افغانستان میں طالبان کی پل پل کی خبر ہے،

یہاں روزگار نہیں ہیں ، معاش کے لیے نوجوان نسل در در کی ٹھوکریں کھارہی ہیں ، اسکول کالج کے بند ہونے سے تعلیمی نقصان کے ساتھ ساتھ تعلیمی بحران کا بھی ملک شکار ہے ، کسان آٹھ یا نو ماہ سے احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں ان پر ایک مرتبہ ڈبیٹ نہیں اور کوئی تبصرہ نہیں ایسا کب تک چلے گا ؟

حقیقت یہ ہیکہ یہ میڈیا مسلم دشمنی اور سماج دشمنی میں اس قدر غرق ہوگیا ہے کہ انہیں نفرت کے سوا کچھ دکھائی ہی نہیں دیتا ہے ہر معاملے کو مسلمان اور اسلام سے جوڑنا ضروری ہے اس لئے دقت ان کو گھریلو مسائل سے نہیں بلکہ افغانستان میں طالبان کے قبضے سے ہے اس لئے وہ” گھسیانی بلی کھمبا نوچے ” مثل اوٹ پٹانگ جو زبان پر آرہا ہے بک رہی ہے اور اصل مدوں سے عوام کا ذہن بھٹکا رہی ہے ان کا حال کچھ یوں ہوگیا ہے کہ اپنے گھر میں خود کھانے کا نہیں ہے مگر دوسرے کے گھر تانکا جھانکی کرتے پھریں گے

حد ہے یار!!!

Comments are closed.