Baseerat Online News Portal

کھیل کو کھیل تک ہی محدود رکھیں!

 

نور اللہ نور

کھیل کود تفریح طبع کے لئے ہے، ذہنی و جسمانی ورزش میں معاون و ممد ہے اس کی ایک حد ہے اور ایک دائرہ ہے جہاں تک یہ مفید اور نفع بخش ہے.
کھیل کود کے مختلف انواع ہیں بہت ساری قسمیں ہیں جس کو انسان اپنے کو توانا رکھنے کے لیے کھیلتا ہے مگر شہرت چند کھیلوں کو زیادہ حاصل ہے جس میں کرکٹ دوسرے نمبر پر آتا ہے جس کا جنون ایشین ممالک خصوصاً اور دیگر ممالک پر عموماً سوار ہے اس کھیلنے نے اپنی ایک الگ شناخت بنائی ہے جس کی دلیل یہ ہے کہ ہر ایک گلی میں کوئی نہ کوئی "تیندولکر” مل ہی جائے گا.
کھیل کو اگر تفریح تک ہی محدود رکھا جائے تو اس کے نتائج مثبت اور قابل انتفاع ہوتے ہیں مگر جب اس میں "جوے بازی ” کی آمیزش ہو جائے ، "گلیمر ” سے اسے رنگا رنگ بنادیا جائے، مذہب ذات پات، نسلی تعصب گھر کر جائے تو وہ کھیل کود نہیں کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ انسانی اقدار کے منافی عمل ہے.
کر کٹ جب شروع میں متعارف ہوا تو اس کے بابت کہا گیا کہ یہ شرفاء کا کھیل ہے اور اس وقت کے کھلاڑی سے لیکر شائقین تک نے اس کو ثابت کر کے دکھایا مگر مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس کے فارمیٹ بدلے ، قواعد بدلے اور دیکھتے ہی دیکھتے کھیل کے نام پر وہ ساری چیزیں ہونے لگی جس سے اس کھیل کے وقار کو ٹھیس پہنچا ہے …
"جینٹلمین ” کا کہا جانے والا یہ کھیل سٹہ بازی کے ہتھ چڑھ گیا اور اس سٹہ بازی نے ایسے شرفاء کو ذلیل کیا جس سے انسانیت بھی شرمندہ ہوگئی.
شائقین جن کا کام اپنی ٹیم اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کرنا تھا جن کو صرف فتح و شکشت کے مابین دلچسپی کا تلاش کرنا تھا اب وہ اپنی پسند اور نا پسند کھلاڑی پر تھوپنا شروع کردیا ہے ان کے مطابق ہر مقابلے میں ان کی پسندیدہ ٹیم اور فیوریٹ کھلاڑی ہی فاتح ہو اور اگر اس کے برعکس ہوا تو وہ دشنام طرازی اور لعن طعن پر اتر آتے ہیں اور اس کا ایک سلسلہ سا چل پڑا ہے جس کی بہت ساری مثالیں ہیں مگر ابھی ہم گزشتہ کل کے میچ کی شکشت پر انسانیت منافی عمل پر ایک نظر ڈالتے ہیں.
گزشتہ شب پاکستان اور بھارت کے مابین ایک میچ کھیلا گیا یہ میچ شروع سے تنازع کا شکار رہا اور اس کے انعقاد پر ہی سوالیہ نشان اٹھنے لگا خیر وہ کسی طرح سے ہوکر رہا.
میچ میں ہندوستان کو پاکستان کے ہاتھوں ذلت آمیز شکشت ملتی ہے اس کے بعد وہی شائقین جو اپنے آپ کو فین بھی کہتے نہیں تھکتے اس قدر مشتعل ہوئے کہ انہوں نے انسانیت کی سطح سے بھی نیچے اتر آئے اور کل تک جنہیں وہ ہیرو سمجھتے تھے ایک میچ ہارنے پر شب و شتم کی بارش کرنے لگے.
میچ کے اختتام کے بعد ” محمد شمی” کو سب سے زیادہ ٹارگیٹ کیا گیا اور انتہائی بے شرمی کے ساتھ ان پر گالیوں کی بوچھاڑ کردی گئی غدار وطن ، نمک حرام تک کہ دیا گیا ، یاد رہے کہ یہ وہی "شمی” ہیں جنہوں نے بے شمار موقع پر ٹیم انڈیا کی ڈوبتی کو نیا کو ساحل پر لایا، چاہے وہ دوہزار انیس میں افغانستان کے ساتھ سنسنی خیز مقابلہ ہو جہاں انہوں نے ہیٹرک لیکر بھارت کو میچ میں واپسی نہیں بلکہ جیت کی دہلیز تک پہونچا دیا تھا ، یا پھر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف سیریز میں جب سارے گیند باز وکٹ کے لئے جدو جہد کر رہے تھے اس وقت انہوں نے بھارت کی فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا.
مگر ان سارے ریکارڈ پر اس ایک شکشت نے پانی پھیر دیا اور ہار کے بعد ایک طرف سے پوری ٹیم کو ریمانڈ پر لے لیا گیا اور طعن و تشنیع کے نشتر کی بارش کر دی گئی یہاں تک کہ کچھ غلیظ طبیعت لوگوں نے گالم گلوج کو بھی روا رکھا.
دیکھئیے فتح و شکشت کھیل کا ایک حصہ ہے ضروری نہیں ہے کہ ہمیشہ آپ ہی کی پسندیدہ ٹیم فاتح ہو اور آپ کا پسندیدہ کھلاڑی ہی فاتح بلکہ دوسرے لوگ اور دوسری ٹیمیں بھی فاتح ہو سکتی ہیں کیونکہ وہ بھی تو تیاری کرتے ہیں اور ان کی بھی تو تمنا ہوتی ہے کہ وہ جیتیں.
اگر اسی طرح جذبات میں آکر کھیل کود کو گالم گلوج کا میدان بنادیا جائے ، نسلی تعصب اور ذاتی تبصروں سے پراگندہ کردیا جائے تو پھر کھیل کھیل نہیں رہ جائے گا بلکہ گالم گلوج کا اکھاڑہ بن جائے گا جو ہماری آنے والی نسلوں کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہوگا اور وہ کھیل کود سے گریزاں و متنفر ہوکر منشیات اور دیگر مہلک عادتوں کے شکار ہوسکتے ہیں.
اس لئے کھیل کو کھیل ہی رہنا دیا جائے تو بہتر ہے اگر آپ شکشت پر صبر نہیں کر سکتے تو فتح کے وقت جشن بھی آپ کا حق نہیں ہے صبر رکھیے، جذبات پر قابو رکھیے! کیونکہ کہ آج انہوں نے بازی ماری ہے کل ہم بھی پلٹ وار کریں گے اگر آپ کھیل سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں تو اس کو اس مغلظات اور مہلک چیز سے پاک رکھئے!
اور کھیل کو میدان تک ہی محدود رکھیں اس کے باہر کسی کھلاڑی کے ناقص کارکردگی پر اس کے بچوں اور اہل خانہ کو اپنے اشتعال کا نشانہ نہ بنائیں کیونکہ وہ بھی آپ ہی طرح ایک انسان ہے اور اس کے بھی فیملی ہے اس کے عزت ہے وہ کوئی سپر مین نہیں جو ہر میچ جیت ہی جائے.

Comments are closed.