Baseerat Online News Portal

کہانی میرے میزبانوں کی !

امین افسر کیرانوی
ایک سال پہلے آپ کو یاد ہوگا سوشل میڈیا پر میں نے اپنے گھر میں موجود لال بیگ (کاکروچ، جُھنگُر) کی ایک مستقل جمعیت اور ان کی مچائی دہشت گردی کا شکوہ کیا تھا اور اہل خیر حضرات سے اس ظالم قوم کی سرکوبی کے لیے مشورے و رہنمائی طلب کی تھی!
اللہ بھلا کرے ان اہل خیر دوستوں کا جنہوں نے ان سے مقابلے کی ہر ممکن تدبیر سے مجھے آگاہ کیا بالآخر پانچ ماہ کی مسلسل خانہ جنگی کے بعد اب سے سات ماہ پیشتر ایک کامیاب علاج بشکلِ اسپرے (spray gel)ایک طوفان نوح برپا کیا گیا جس کے نتیجے ان کے لشکر کے لشکر نوالہ اجل بن گئے اور یکلخت کئی کئی نسلیں ان کی اجڑ گئیں اور پوری طرح یہ کاروان خانہ خراب تباہ و برباد ہوگیااور یوں ہم نے سکون کا سانس لیا اور گھر زندگی گذارنے کے قابل بن سکا!
لیکن خدا جانے ان کی کونسی پشت اپنی ایمانی قوت کے صدقے جان بچا لے گئی اور کائنات کے کس دور دراز علاقے میں میرے اور میرے گھر والوں کے خلاف مسلسل محو سازش رہی چنانچہ سات ماہ بعد میں نے محسوس کیا کہ ان کاکروچوں (جُھنگُروں) کی ایک مختصر سی جماعت رسوئی (کچن) کے جنگلے (دریچے) میں نظر آئی غالبا تین افراد تھے اور آپس میں کوئی نہ کوئی رشتداری ان کی ضرور تھی کہ وقفے وقفے سے وہ آپس میں کچھ مشورہ کرتے دکھائی دیے !
شاید یہ ان کا چور دروازے سے پہلا داخلہ تھا جو آثار طوفان نوح کے بقایا کا جائزہ لینے آئے تھے اور کچھ ہی ہفتوں میں پوری برادری کو گویا یہاں بسادینے کی ایک سوچی سمجھی تدبیر تیار کر لائے تھے !
میں نے ان پر کوئی خاص دھیان نہ دیا اور سمجھا کہ یہ بھٹک کر اس وادی میں آدھمکنے ہونگے؛ لیکن کسے معلوم تھا کہ پس پردہ ان کا ارادہ باقاعدہ ایک جنگ عظیم چھیڑنے کا بن چکا تھا لیکن اگر چہ کہ وہ دوسرے ہی لمحے اپنی سابقہ جگہ سے یک قلم غائب تھے اور مجھے اپنی موجودگی سے بے خط رکھنا چاہتے تھے۔
ابھی ایک ہفتہ گذرا ہوگا کہ رات دو بجے میں چائے بنانے کو رسوئی میں گیا اور کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی پندرہ بیس کی تعداد میں عین درمیان فرش باطمینان کسی اہم میٹنگ میں مصروف ہیں جونہی میں نے بتی جلائی پھر کیا تھا جسے جدھر رخ مل پایا ادھر بھاگنے میں عافیت سمجھی میں بھی ان کا ستایا ہوا تھا جذبہ انتقام میں پیر سے دو تین کو مسل ہی ڈالا اور ان کا کام تمام کردیا !
میں اس خوش فہمی میں تھا کہ اب ان کی ہمت نہ ہوسکے گی کہ دوبارہ اس حویلی میں قدم رکھیں ؛لیکن اس مخلوق خداوندی کی پامردی اور مقابلے کی جرأت مندی دیکھیے کہ وہ بجائے باہر نکلنے کے کچن کے ان مقامات میں پناہ گزیں ہوئے جہاں تک کسی آدم زاد کی رسائی ناممکن ہوتی ہے کچھ اس میں گیس سلنڈرکی سرنگوں میں چھپ گئے کچھ نے گیس اسٹو کے تاریک و باریک راستوں کو اپنا ملجا بنایا اور کچھ قد آدم سے بلند ہوکر دیواروں پر چڑھ بیٹھے۔
خیر اللہ اللہ کرکے وہ رات گذر گئی شاید اگلے تین دن انہیں اپنے مرحوم شہیدوں کا سوگ منانا تھا وہ نظر نہ آئے اور میں اس خوش فہمی میں ہوں کہ ان پر میرا زور چل گیا اور وہ ڈر گئے۔
غرض یہ کہ تین دن میں اس خوش فہمی میں کہ اب کاکروچی لشکر اپنی شکست تسلیم کرچکا ہے اپنے اہل وعیال کے ساتھ زندگانی کے پرلطف ایام گذارر ہاتھا ، مجھے کیا معلوم تھا کہ چوتھے دن سے مجھے ایک لشکر جرّار کے مقابلے کے لیے کمر بستہ ہونا پڑیگا!چوتھے روز کی صبح محترمہ نے مجھے اچانک اطلاع دی کہ گھر کی بجلی طعام مشین (Electric oven) ناکارہ ہوگیا ہے ! میں نے کہا بیگم ! ابھی تو چھ ماہ قبل نیا خریدا تھا اتنی جلد کیسے خراب ہوگیا؟ ؛لیکن کچن میں جاکر سوئچ دبایا تو واقعی اَوَن ناکارہ ہوچکا تھا! سمجھ سے بالاتر تھا کہ خرابی کہاں پیش آئی ہے؟اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ اَوَن مشین کے دائیں جانب نمبرنگ سسٹم کے اندر آئینے کے اُس پار دو کاکروچ گشت کرتے نظر آئے۔
حقیقت میں انہوں نے مشین کے موٹر کے تار کا کنکشن مشین سے جدا کردیا تھا یقیناً اس خیال سے کہ دشمن ہمارے نام کی غذا اسٹور کرکے اس پرگرم کرکے استعمال کیوں کرے ؟لاؤ اس کے غذائی سسٹم کو تباہ کیے دیتے ہیں !!
اب کیا تھا اَوَن کی خرابی کے بعد ہم کسی کھانے کی شئے کو گرم کرنے اور استعمال میں لانے سے مکمل عاجز ہوگئے! کاکروچ قوم کا یہ پہلا جنگی حربہ تھا جس کا کامیاب تجربہ انہوں نے ہمارے خلاف کیا، اب کاکروچ قوم کا دوسرا حملہ بھی ملاحظہ کیجیے۔
انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ بچی ہوئی غذا کو محفوظ کرنے کے لیے ہم فریج اور فریزر کا سہارا لیں گے ؛چنانچہ انہوں نے اس کام کے لیے پہلے ہی سے اپنے فوجی دستے تیار کر رکھے تھے !
پانچویں دن پان نکالنے کو فریج جو کھولا تو ششدر رہ گیا ،کیا دیکھتا ہوں کہ فریج کے دروازے کے جو کنارے ربڑ سے کَوَر ہوتے ہیں ان کی تہ میں تین تین چار چار افراد پر مشتمل تازہ دم جوان کاکروچ پہرہ دیے بیٹھے ہیں جن میں کچھ بچے بھی شامل ہیں جن کو شاید ان کے ٹالینٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر شامل لشکر کرلیا گیا تھا !اب میں اس لشکر جرّار کے آگے بالکل بے بس تھا ان کی ایک بڑی تعداد مذکورہ دونوں جگہوں کے علاوہ تین مقامات پر اور ڈیرہ ڈالے ہوئے تھی اس بار یہ قافلہ پوری جنگی تیاری اور مکمل پلاننگ کے ساتھ جذبہ انتقام لیے ہوئے ہر طرح سے مرتب ہوکر میدان جنگ میں آپڑا تھا مجھے ان کے دستوں کی تعداد کا صحیح علم تک کوئی دس بارہ روز میں ہوسکا تھا!!ان ظالموں نے میدان جنگ کے ایسے مقامات پر قبضہ جمایا تھا جہاں پر انسانی پہنچ ناممکن ہوتی ہے۔ چنانچہ ان کا ایک دستہ گیس اسٹو کے برنر(Burner) کے نیچے پائپ لائن کے بالکل منہ پر متعین تھا جو اس کام پر مامور تھا کہ وہ لشکر کو اطلاع دے سکے کہ آج کھانے میں کونسا ڈِش تیار ہورہا ہے؟ان کا چوتھا دستہ اسٹو کے عین نیچے گیس سلنڈر کی ان جگہوں پر متعین تھا جہاں کوئی انگلی تک نہیں جاسکتی اس دستے کو شاید یہ کام سونپا گیا تھا کہ وہ گیس کے آف آن ہونے کی اطلاع اوپر کے دستے کو پہنچا تا رہے تاکہ اوپر والا دستہ آگ کے خطرے سے اپنے آپ کو بچا سکے اور برنر کی گرمی سے بچ کر پائن لائن میں بروقت پناہ لے سکے !ان کا پانچواں دستہ راشن پر قبضے کے لیے مامور تھا نسبتاً یہ لوگ تعداد میں زیادہ تھے!چاول ،آٹا ،دال ،چینی ،مصالحے اور سبزی ترکاری سب پر ان کا قبضہ ہوچکا تھا جہاں سے یہ دستہ حسب ضرورت اپنے بچوں کے لیے راشن منتقل کررہاتھا اور خود دیگر دستوں کا کھانا بھی غالباً یہی دستہ ایک مکمل نظام کے تحت پہنچاتا اس طرح گھر کی رسوئی (کچن) پر دو دن میں انہوں نے گویا اپنی حکومت کا اعلان کردیا تھا میں اور محترمہ کچن میں اپنے آپ کو ایسے غیر محفوظ محسوس کرنے لگے تھے جیسے پاکستان بن جانے کے بعد مسلمان اپنے آپ کو ہندوستان میں لاچارمحسوس کرتے تھے!!
حیرت ہیکہ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا ؛بلکہ اس بار وہ دشمن کو مکمل زیر کرلینے کا عزم مصمم کرچکے تھے یہی وجہ ہیکہ انہوں نے پہلے سے دگنی تعداد کو اس جنگ میں شریک میدان کر رکھا تھا !ان کی پلاننگ سے اس وقت میرے ہوش اڑگئے جب مجھے پتہ چلا کہ ان کا ایک مخصوص فوجی دستہ “کمانڈوز” جوانوں پر مشتمل تھا جن کا قبضہ دستر ہو یا بستر کتاب ہو یا کمپیوٹر الماری ہو یاتپائی کرسی ہو یا چار پائی سب پر یکساں تھا ان کے ذمہ یہ کام دیا گیا تھا کہ وہ دشمن کے اندر اپنے وجود کا احساس جگاتے رہیں اور اپنی دہشت بٹھاتے رہیں جو انہوں پوری ذمہ داری کے ساتھ نبھایا!چنانچہ یہ لشکر کوئی پچاس ٹرینڈ فوجیوں پر مشتمل تھا ان “کمانڈوز” کی رفتار بھی زبردست تھی اور دیگر کاکروچوں کی بنسبت طاقت وقوت میں بھی زیادہ تھے نیز دشمن سے بچ نکلنے کے گُر بھی یہ زیادہ جانتے تھے حتا کہ ان کے اندراڑنے اور چھلانگ لگانے کی صلاحیت بھی کمال درجہ کی تھی ظاہر ہیکہ یہ لوگ “کمانڈوز” تھے اس لیے ان سے ٹکرانا اپنی ہی ہلاکت کو دعوت دینا تھا!!
غرض گھر کے سارے علاقوں میں ان کی حکومت پہلے ہی قائم ہوچکی تھی ادھر “کمانڈوز” کی جواں مردی نے حکومت کو مزید پختہ کردیا تھا اب سارے گھر پر کاکروچ قوم مکمل قابض ہوچکی تھی! میری حیثیت اس جابر قوم کے یہاں ایک مجبور بیڑیوں میں جکڑے ہوئے شکست خوردہ بادشاہ سے زیادہ نہ تھی!! خدا نخواستہ اگر وہ میری زبان سمجھ سکتے تو قریب تھا کہ میں ان سے اپنی بے بسی کا شکوہ کر بیٹھتا اور مدد کی بھیک مانگ کر رسوا ہوجاتا !!!{جاری}

Comments are closed.