Baseerat Online News Portal

کیا آپ رمضان کے لیے تیار ہیں؟

مولانا ندیم الواجدی
اللہ تعالیٰ کا کرم اور اس کا احسان ہے کہ اس نے ایک بار پھر ہمیں رمضان کی سعادتوں سے بہرہ ور ہونے کا موقع عطا فرمایا ہے، اللہ کے ہزاروں لاکھوں بندے جو گذشتہ برس رمضان میں روئے زمین پر چل پھر رہے تھے اس سال اپنے اپنے اعمال ناموں کے ساتھ اپنی اپنی قبروں میں جاسوئے ہیں، اللہ چاہتا تو ہمیں بھی اس دائمی نیند کے حوالے کردیتا جو شور محشر سے پہلے نہ ٹوٹتی لیکن اس نے ہمارا انتخاب زندہ بچ جانے والوں میں کیا اور اپنے فضل وکرم سے ہمیں اس رمضان تک پہنچایا تاکہ ہم اس مقدس مہینے کی برکتوں سے ایک بار پھر اپنا دامن مراد بھر لیں اور اس مبارک ومسعود مہینے کی عبادتوں کے اجر ثواب سے اپنے اعمال ناموں کو زیادہ سے زیادہ وزن دار بنالیں، حدیث شریف میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرامؓ کو رمضان کی آمد پر مبارک باد دیا کرتے تھے، حضرت ابوہریرہؓ روایت فرماتے ہیں کہ رمضان شروع ہونے پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحابؓ کو ان الفاظ میں مبارک باد سے نواز تے: ’’رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے، اللہ تعالیٰ نے تم پر اس مہینے کے روزے فرض کئے ہیں، اس مہینے میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، دوزخ کے دروازے بند کردئیے جاتے ہیں، اور شیاطین کو پابہ زنجیر کردیا جاتا ہے، اس مہینے میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے، جو اس مہینے کی برکتوں سے محروم رہا وہ حقیقی معنوں میں محروم کہلانے کا مستحق ہے‘‘(مسند احمد بن حنبلؒ: ۱۴/۳۹۲، رقم الحدیث: ۶۸۵۱، سنن النسائی:۷/۲۵۶، رقم الحدیث: ۲۰۷۹) حافظ ابن رجب حنبلیؒ نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ حدیث رمضان کی آمد پر ایک دوسرے کو ہدیۂ تبریک وتہنیت پیش کرنے کے باب میں اصل ہے، ہمیں بھی چاہئے کہ جب رمضان کا چاند مغربی افق پر نمودار ہوجائے تو ہم اپنے عزیز واقارب، دوست واحباب، پاس پڑوس میں رہنے والے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کو مبارک باد دیں کہ اللہ نے ایک بار پھر ہمیں اس عظیم سعادت سے نوازا ہے، ہمیں اس حقیقت کا بھی احساس رہنا چاہئے کہ محض مبارک باد دینا اور مبارک باد وصول کرنا کافی نہیں ہے بلکہ اس ماہ مبارک کی عظمتوں کو اپنے دل کی دنیا میں بسا لینا بھی ضروری ہے، اس مہینے تک ہمیں مہلتِ نفَس یونہی نہیں ملی کہ ہم محض لفظوں سے اس کا استقبال کرکے بیٹھ رہیں اور یہ سوچتے رہیں کہ ہم نے اس مہینے کا حق ادا کردیا ہے بلکہ ہمیں یہ موقع اس لیے دیا گیا ہے کہ گذرے ہوئے ماہ وسال میں جو گناہ ہم سے سرزد ہوئے ہیں ان پر معافی مانگ لیں کہ اللہ نے مغفرت کے دروازے کھول رکھے ہیں، سچے دل سے توبہ کرنے والا کوئی شخص ناکام ونامراد واپس نہیں کیا جائے گا، آنے والی زندگی میں نیکیوں کا رنگ بھرنے کے لیے بھی ہمیں پُر عزم ہونا چاہئے، یہی اس مہینے کا حق ہے، اس مہینے کی سعادتوں کاکیا ٹھکانہ، اللہ نے اپنی آخری کتاب قرآن کریم بلکہ اپنی تمام آسمانی کتابوں کے نزول کے لیے اس ماہ مبارک کا انتخاب فرمایا، نزول قرآن کا ذکر تو خود قرآن کریم میں ہے: ’’رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ذریعۂ ہدایت ہے‘‘۔ (البقرہ: ۱۸۵)یوں تو قرآن کریم کی آیات حسب موقع اور حسب ضرورت مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مسلسل تئیس برس تک نازل ہوتی رہیںلیکن رمضان کے مہینے کی شب قدر میں یہ کتابِ عظیم مجموعی طور پر بہ یک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: ’’بیشک ہم نے قرآن کو شب قدر میں اتا را ہے‘‘۔ (القدر:۱) ’’ہم نے اس کتاب کو ایک برکت والی رات (یعنی شب قدر )میں اتارا ہے ہم اس کے ذریعے آگاہ کرنے والے تھے‘‘۔ (الدخان: ۳)کیا عجب ہے کہ نزول قرآن کی رات کو ہزار مہینوں کی تیس ہزار راتوں سے افضل قرار دینے کی منجملہ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ اس رات میں انسانیت کی رہ نمائی کے لیے کتاب ہدایت اتاری گئی، جس طرح یہ کتاب تمام کتابوں میں افضل ترین کتاب ہے اسی طرح یہ رات بھی تمام راتوں کے مقابلے میں افضل قرار دے دی گئی۔
کوئی تو وجہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بے تابی کے ساتھ اس ماہ مبارک کا انتظار فرمایا کرتے تھے، اور جب رجب کا مہینہ شروع ہوجاتا تو وفور شوق میں آپ کی زبان مبارک سے یہ دعائیہ الفاظ ادا ہونے لگتے: ’’اے اللہ ہمیں رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا دے‘‘ ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی: ۹/ ۱۳۹، رقم الحدیث: ۴۰۸۶) جیسے ہی رمضان شروع ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا عالم دیدنی ہوتا، خوشی اور مسرت کی اس کیفیت کا اندازہ ان الفاظ سے ہوتا ہے جو آپ صحابۂ کرامؓ کو مخاطب کرتے ہوئے ادا فرماتے :’’مہینوں کا سردار رمضان تمہارے پاس آچکا ہے ہم اسے خوش آمدید کہتے ہیں‘‘ یہ بھی ارشاد فرماتے: ’’تمہارے پاس برکتوں کا مہینہ رمضان آچکا ہے، اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے دامان رحمت میں ڈھانپ لے گا، غلطیوں سے در گزر فرمائے گا اور دعائیں قبول کرے گا، اللہ اس مہینے میں عبادتوں میں تمہاری مقابلہ آرائی پر نظر رکھے گا، اور جب (تم ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرو گے تو) ملائکہ کے سامنے تم پر فخر کرے گا، اس لیے تم اللہ کو اپنی نیکیاں دکھلانے کی کوشش کرو، حقیقی معنی میں بد بخت وہ شخص ہے جو اللہ کی رحمت سے محروم رہ گیا‘‘۔ (مسند الشامیین للطبرانی:۶/۴۲۹، رقم الحدیث: ۲۱۸۸)
بزرگان دین کی نظر میں رمضان کے مہینے کی اس قدر اہمیت تھی کہ وہ رمضان کے گزرنے کے بعد چھ مہینے تک تویہ دعائیں مانگتے رہتے کہ اے اللہ جو ٹوٹی پھوٹی عبادتیں ہم نے رمضان میں کی ہیں انہیں اپنے فضل وکرم سے قبول فرمالے، اور باقی چھ مہینے یہ دعا کرتے رہتے کہ اے اللہ ہمیں آنے والے رمضان تک زندہ رکھئے تاکہ جو گناہ ہم سے دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوچکے ہیں ہم ان کی معافی چاہ لیں اور تیرے ذکر کے نور اور تیری عبادت کے اُجالے سے اپنے دل کے نہاں خانوں کی تاریکیاں دور کرلیں۔
اس کے برعکس ہمارا حال یہ ہے کہ جب رمضان رخصت ہوجاتا ہے تو ہم دوبارہ اسی زندگی کی طرف لوٹ جاتے ہیں جو ہم جی رہے تھے، ایک لمحے کے لیے بھی ہمیں یہ خیال نہیں آتا کہ ہم جانے والے رمضان پر افسردہ ہوں اور آنے والے رمضان تک زندہ رہنے کی دعا مانگیں، پھر جب خوش قسمتی سے رمضان ہمارے دروازے پر دستک دیتا ہے تو ہم اس کے استقبال کے لیے تیار نہیں ملتے، اور اگر تیار ہوتے بھی ہیں تو ہماری تیاری کا نہج بالکل دوسرا ہوتا ہے، گھروں کو سجاتے سنوارتے ہیں، نئے نئے کپڑے سلواتے ہیں، کھانے پینے کے لوازمات کے حصول کے لیے بازاروں کے چکر لگاتے ہیں، اور اسے ہی رمضان کی تیاری سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ رمضان کی تیاری نہیں ہے، نہ یہ اس کا استقبال ہے اور نہ اس کو خوش آمدید کہنا ہے۔
رمضان کی تیاری اور اس کا استقبال تو یہ ہے کہ رمضان کی آمد سے بہت پہلے سے ہم اس کی آمد کی دُعا کرنے لگیں، جس طرح ہم اپنے کسی عزیز ترین شخص کی آمد کے لیے بے قرار رہتے ہیں، اور اس سے ملنے کو بے تاب اور مشتاق رہتے ہیں اسی طرح اس مہینے کے لیے بھی بے قرار رہیں اور اس کا بھی انتہائی شوق کے ساتھ انتظار کریں، بلکہ اس کی آمد کا ایک ایک لمحہ گن گن کر گزاریں، اور یہ سوچ سوچ کر پریشان رہیں کہ ایسا نہ ہو کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی ہماری آنکھیں بند ہوجائیں اور ہمیں رمضان کی پہلی رات بھی نصیب نہ ہو، جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ’’جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو جنت کے تمام دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، جہنم کے تمام دروازے بند کردئے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا، شیاطین کو بیڑیاں پہنادی جاتی ہیں اور ایک اعلان کرنے والا (فرشتہ) یہ اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے متلاشی آگے بڑھ، اے شر کے طلب گار پیچھے ہٹ، اللہ تعالیٰ ہر رات جہنم سے لوگوں کو آزاد کرتا ہے‘‘ ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۲/۶۴)رمضان پانے کی یہ تمنا اس لیے بھی ہونی چاہئے ہوسکتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں جہنم سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے والوں میں اس کا نام بھی شامل ہوجائے۔
رمضان شروع ہورہا ہے، ہوسکتا ہے اللہ اپنے فضل وکرم سے آج کی رات کو رمضان کی پہلی رات بنا دے ، جب رمضان کا چاند نمودار ہو تو ہماری زبانوں پر یہ الفاظ ہونے چاہئے: ’’اے اللہ اس چاند کو ہماری زندگی کے افق پر خیر وبرکت، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما، میرا اور تمہارا رب اللہ ہے‘‘ ۔ (سنن الترمذی: ۱۱/۳۴۷، رقم الحدیث:۳۳۷۳) پھر جب ہم رمضان کے مہینے میں قدم رکھیں تو اللہ کے حضور شکر گزاری کے جذبات کے اظہار کے لیے سجدہ ریز ہوجائیں کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے ہمیں یہ دولتِ بے بہا بخشی ہے ، امام نوویؒ فرماتے ہیں کہ: جسے کوئی ظاہری نعمت عطا ہو، یا اس کی زندگی سے کوئی مصیبت دور ہوجائے تو اسے اظہار تشکر کے لیے سجدہ ریز ہوجانا چاہئے یا اللہ کے شایان شان تعریفی کلمات ادا کرنے چاہئیں(کتاب الاذکار) ہم صرف دعا مانگنے اور سجدۂ شکر ادا کرنے پر ہی قناعت نہ کریں بلکہ اپنی حرکات وسکنات، اپنے اعمال وافعال اور اپنے الفاظ وکلمات سے بھی اس خوشی کا اظہار کریں جو رمضان کی صورت میں میسر ہوئی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرامؓ رمضان کی آمد پر بے پناہ خوش ہوا کرتے تھے، اور ایک دوسرے کو تہنیت پیش کرکے اس خوشی کا اظہار کیا کرتے تھے، اس کے بعد یہ عزم کریں کہ اللہ نے اپنی مہربانی سے ہمیں جو موقع عطا کیا ہے ہم اسے غنیمت تصور کریں گے، اور اس مہینے کے ایک ایک لمحے کو خدا کی رضا اور اس کی خوشنودی کی طلب میں گزارنے کی کوشش کریں گے، اللہ کے بندے جب صدق دلی کے ساتھ کسی بات کا عزم کرلیتے ہیں تو اللہ بھی اس عزم کے مطابق آسانیاں پیدا فرمادیتا ہے، قرآن کریم میں ایسے ہی پُر عزم اور صادق الوعد اور صادق القول بندوں کے متعلق ارشاد فرمایا گیا: ’’پس اگر یہ لوگ اللہ سے سچے رہیں تو یہ ان کے لیے بہت ہی بہترہے‘‘۔ (محمد: ۲۱) اس عزم کے ساتھ ہی ہم نئی زندگی میں قدم رکھتے ہیں جس کے اپنے مخصوص تقاضے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم ان تقاضوں کی تکمیل کریں، اگر ان تقاضوں سے واقفیت نہیں تو کچھ وقت اس کے لیے نکالیں اس مہینے کی خاص عبادت روزے رکھنا ہے، ہمیں روزے کے تمام ضروری احکام کا علم ہونا چاہئے، قیامت کے روز لاعلمی کا عذر قابل قبول نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ کے بے شمار اہل علم بندے موجود ہیں جن سے پوچھ کر ہم اپنی لا علمی دور کرسکتے ہیں، قرآن کریم میں ہے: ’’اگر تم کو یہ بات معلوم نہ ہو تو اہل علم سے دریافت کرلو‘‘۔(الانبیائ: ۷)
ہم رمضان کا استقبال اس عزم وارادے سے کریں کہ گذری ہوئی زندگی کی لغزشوں اور گناہوں کی معافی اور توبہ واستغفار کے یہ چند دن اور چند راتیں جو خوش قسمتی سے ہمیں حاصل ہوئی ہیں ان کو اسی مقصد میں صرف کریں گے، یہ توبہ کی قبولیت کا مہینہ ہے، امید ہی نہیں یقین ہے کہ ہماری آنکھوں سے ٹپکنے والے ندامت کے قطرے گناہوں کی گندگی اس طرح دھو ڈالیں گے جس طرح پانی کپڑوں کا میل کچیل دور کرکے انہیں صاف شفاف بنا دیتا ہے، اگر ہم نے اس مہینے میں بھی توبہ کے لیے اپنے ہاتھ نہیں پھیلائے، اور ندامت کے آنسوؤں سے اپنا دامن تر نہ کیا تو کب کریں گے، ارشاد ربانی ہے: ’’اے مؤمنو! تم سب کے سب اللہ کی بارگاہ میں تو بہ کرو تاکہ تم فلاح یاب ہوجاؤ‘‘ ۔ (النور: ۳۱)گویا ہماری فلاح کا راز تو بہ کے الفاظ میں مضمر ہے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس راز سے کون واقف ہوتا، روایات میں ہے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے تھے: ’’میں دن بھر میں اللہ سے ستر مرتبہ توبہ واستغفار کرتا ہوں‘‘ ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۹/۲۶۹)جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ اٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے استغفار فرمایا کرتے تھے، ہماراتو کوئی لمحہ بھی توبہ واستغفار سے خالی نہ ہونا چاہئے خاص طور پر رمضان کی مبارک ساعتوں میں تو ہمیں زیادہ سے زیادہ توبہ کرنی چاہئے کیوں کہ اس مہینے میں قبولیت کے دروازے چوپٹ کھلے ہوتے ہیں۔
اعمال کی قبولیت کا مدار اخلاص پر ہے، یہ پہلو ہماری نگاہوں سے اوجھل نہ ہوجائے، اخلاص عبادات کی روح اور اعمال صالحہ کے لیے قبولیت کی کنجی ہے، اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا ہر عمل صرف اللہ کے لیے ہو، غیر کے تصور سے پاک، ہر طرح کی ریا کاری اور نام ونمود کی خواہش سے دور، اس آیت میں ایسا ہی عمل مطلوب ہے اور اسی کو لقاء رب کی شرط قرار دیا گیا ہے: ’’ سو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی آرزو رکھے وہ نیک کام کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔ (الکہف: ۱۱۰)
رمضان میں فرائض کے ساتھ ساتھ واجبات اور سنن ومستحبات کا اہتمام بھی ہونا چاہئے، یہ مہینہ اجر وثواب کی زیادتی کا مہینہ ہے، اس مہینے میں ہمارا ایک عمل دوسرے مہینوں کے اعمال کے مقابلے میں ستر گنا اجر وثواب لے کر آتا ہے، کوشش یہ ہونی چاہئے کہ کم از کم اس ایک مہینے کے لیے تو ہم اپنی زندگی کو اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ڈھال لیں، ہوسکتا ہے اس کی برکت سے ہماری باقی زندگی بھی سنت کے سانچے میں ڈھل جائے، مسجد میں با جماعت نمازوں کا اہتمام ، تہجد کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم، زبان، کان، آنکھ اور دوسرے تمام اعضاء کو گناہوں سے روکنے کی بھر پور کوشش، صدقہ وخیرات کے ذریعے غریبوں اور ناداروں کی مدد، یہ وہ نیکیاں ہیں جو ہم آسانی کے ساتھ اس مہینے میں انجام دے سکتے ہیں، حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ:’’ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں سب سے زیادہ جود وسخا والے تھے اور رمضان میں جب آپ جبرئیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر قرآن کریم کا دور فرماتے تو آپ کی یہ سخاوت اور بڑھ جاتی اور آپ ہوا کے تیز جھونکوں سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ صدقہ وخیرات فرماتے‘‘(صحیح البخاری:۶/۴۷۰،رقم الحدیث: ۱۷۶۹)۔
رمضان کا یہ بابرکت مہینہ بس شروع ہوا ہی چاہتا ہے آئیے ہم جائزہ لیں کہ ہم نے اس کے استقبال کے لیے خود کو کس حد تک تیار کیا ہے، یہ تیس دن اور تیس راتیں ہم کس نظام کے تحت اور کس لائحۂ عمل کے ساتھ گزارنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اس احتساب کے ذر یعے ہی ہم رمضان کا بہتر استقبال کرسکتے ہیں، اور اس مہینے کے فیوض وبرکات سے کما حقہ مستفید ہوسکتے ہیں۔

Comments are closed.