Baseerat Online News Portal

کیسا مہتاب مرے آئینہ خانے سے اٹھا!(علامہ عثمان غنی رحمتہ اللہ علیہ). @luqman_usmani

کیسا مہتاب مرے آئینہ خانے سے اٹھا!

 

لقمان عثمانی

 

ہائے وہ شخص کہ جس نےجہالت کی تاریکی میں اپنی آنکھیں کھولیں اور خدائے واحد کی توفیقِ ارزانی اور اپنی مسلسل جاں کاہی و جاں فشانی سے اپنے سینے کو گنجینۂ علم میں تبدیل کرلیا، ہاں وہی شخص کہ جس نے اپنا بچپن افلاس و تنگ دستی میں گزار دیا، اپنی جوانی غربت میں کاٹ دی، اپنی آرزوؤں اور حسرتوں کو پیدا ہونے سے پہلے ہی دفن کردیا؛ لیکن جب عملی زندگی میں قدم رکھا تو نہ صرف یہ کہ علمِ حدیث کا بے تاج بادشاہ بن کر ابھرا بلکہ ہزاروں طلبہ کو علم کی دولت سے مالا مال کردیا، لاکھوں علما کو اپنی تصنیفات و تالیفات کا علمی خزینہ عطا کردیا، کتنے ہی جبالِ علم کو سر کرکے اپنی پابوسی پر مجبور کردیا کہ بچپن بھی اسی مقصد سے مفلسی میں گزار دیا تھا، جوانی بھی اسی غرض سے کاٹ دی تھی اور اپنی حسرتوں کو بھی اسی ابدی کامیابی کیلیے دفن کر دیا تھا ـ ہائے اس شخص کی زندگی بھی کیا ہی قابلِ رشک تھی کہ جس کی کتابِ حیات کے اوراق اپنے اندر کتنے ہی داستانِ عزیمت سموئے ہوئے تھے، جو بغیر تھکے اور بنا رکے علمی مشغلوں میں محو رہتا تھا، جو چڑھتے دن سے لے کر ڈھلتی شام تک قال اللہ و قال الرسول کے پر کیف حصار میں رہتا تھا ـ ہائے وہ شخص علم کا کس قدر رسیا تھا کہ والد نے شادی کرادی تو بیوی کا زیور بیچ پر اپنی تعلیم مکمل کرنے دارالعلوم دیوبند پہنچ گیا، اگر تلاشِ معاش کیلیے کپڑے کی دکان پہ بٹھا دیا تو ساتھ میں تصنیف و تالیف کا سلسلہ شروع کردیا، ہاں وہی شخص کہ جو بہ یک وقت کتنے ہی کمالات کا مرقع تھا، ہاں وہی جو مدرس بھی تھا اور مصنف بھی، فقیہ بھی تھا اور محدث بھی، مناظر بھی تھا اور مفسر بھی، جو مبلغ بھی تھا اور مدبر بھی ـ ہائے اس شخص کی حیاتِ مستعار کی ساعتیں کس قدر قیمتی تھیں کہ ایک منٹ بھی ضائع کرنا گوارہ نہ تھا، نہ بیماری کی پروا تھی نہ آرام کی طلب؛ تا آں کہ طلوعِ صبح کی پہلی گھڑی ہو کہ پاؤں پسارتی رات کا پچھلا پہر، ہمہ وقت کتابیں کھلی ہوتیں اور قلم رواں رہتا، ہاں وہی شخص کہ جس کی کل زندگی نو دہائیوں پر مشتمل تھی اور عملی زنگی ساٹھ پینسٹھ سالوں کو محیط تھی؛ جس میں پچاس سال تک درسِ حدیث کا فریضہ انجام دینا اور ان میں بھی چالیس سالوں تک مسند شیوخت پر جلوہ افروز رہنا شامل ہے ـ ہائے اس شخص کی محبوبیت بھی کیا خوب تھی کہ جب شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رح کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے بیٹھا تو خود حضرت مدنی نے ”علامہ“ کہہ کر مخاطب فرمایا، جب فقیہ الاسلام مفتی مظفر حسین رح کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو خرقۂ خلافت سے نواز دیا گیا اور مظاہر علوم وقف کی مسندِ حدیث پہ بھی بٹھا دیا گیا اور جب کبھی اپنے گاؤں پہنچتا تو مرجع الخلائق بن جاتا ـ ہائے اس شخص نے کتنے ہی مصائب جھیلے، کتنی ہی پریشانیوں سے دوچار ہوا؛ در حقیقت وہ شخص نہیں ایک عہد ساز شخصیت تھا جو حالات کی بھٹی سے کندن بن کر نکلا اور کائناتِ علم کے افق پہ جا چمکا، جو جہالت کی تاریکی میں آنکھیں کھول کر شب تاب کرنوں کی طرح روشن ہوا اور دنیائے علم کے ہر گوشے پہ چھا گیا، ہاں وہی عظیم شخصیت جسے دنیا شارحِ بخاری و صاحبِ نصرالباری کے مصنف کے طور پر جانتی ہے، جسے مظاہر علوم وقف کے شیخ الحدیث کی حیثیت سے پہچانتی ہے اور جسے حضرت علامہ عثمان غنی رح (2011-1922) کے نام سے یاد کرتی ہے ـ

پھر کوئی عکس شعاعوں سے نہ بننے پایا

کیسا مہتاب مرے آئینہ خانے سے اٹھا

 

یومِ وفات (13 جنوری 2011)

Comments are closed.