Baseerat Online News Portal

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

از: محمد اللہ قیصر قاسمی
علامہ اقبال کے جواب شکوہ کا آخری بند ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں۔
اپنے رب سے شکوہ کناں مایوس قوم مسلم کو نصیحت کرتے ہوئے اور خدائی فیصلہ سناتے ہوئے علامہ نے یہ کہا تھا۔
اس کی تشریح مختلف طریقوں سے کی گئی ہے، ہم وہی بات ایک دوسرے زاویہ سے کہنے کی کوشش کرتے ہیں،
اللہ المعین
محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا یعنی ان کی اتباع کروگے تو دنیا کیا لوح و قلم تمہاری دسترس میں ہوں گے۔
وہ جو نظام حیات لے کر آئے ، اور اس پر عمل کرکے دکھایا، اسی میں ایک کامیاب زندگی کے ساتھ اخروی کامیابی کا راز ہے، بلندی و سرفرازی اور استخلاف کا خدائی وعدہ وفاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے مشروط ہے.
وَلَا تَهِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَاَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ‏ ۞
ترجمہ:
اور نہ کمزور پڑو اور نہ غم کھاؤ اور تم ہی سربلند رہو گے اگر تم مؤمن ہوئے.(آل عمران 139)
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ ؕ
ترجمہ:
اللہ کا وعدہ ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ضرور انہیں زمین میں خلافت (غلبہ) عطا کرے گا جیسے اس نے ان سے پہلے والوں کو خلافت عطا کی تھی اور وہ ضرور ان کے اس دین کو غلبہ عطا کرے گا جو ان کے لیے اس نے پسند کیا ہے اور وہ ان کی (موجودہ) خوف کی حالت کے بعد اس کو لازماً امن سے بدل دے گا۔(النور،55)

ایمان اور عمل صالح ہی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کا تقاضا ہے۔ حبیب کبریا سے وفا کا تقاضا ہے کہ عقائد عبادات، اخلاقیات ،معاملات و معاشرت میں وہ جو بھی احکامات و ہدایات خدا کی طرف سے لے کر آئے انہیں مان لیں اور انہیں کو چراغ راہ بنائیں، پھر دنیا جہان اور لوح و قلم سب تمہارے، نبی کی وفاداری تبھی ممکن ہے جب ان کی محبت دل میں ہوگی، نبی کی محبت ہوگی تو اتباع کا جذبہ ہوگا اور نبی کی پیروی کرنے والے، خدا کی محبت سے سرفراز کئے جاتے ہیں، پھر جس کا دل خدا کی محبت سے معمور ہوگیا، اسے بلندی تک پہونچنے سے کون روک سکتا ہے، لہذا نبی سے وفا حب الہی کا زینہ ہے، جو ہر کامیابی کی کنجی ہے۔القرآن –
قُلۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ وَيَغۡفِرۡ لَـكُمۡ ذُنُوۡبَكُمۡؕ‌ وَاللّٰهُ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞

ترجمہ:
(اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ) کہہ دیجیے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا رحم فرمانے والا ہے(آل عمران
آیت نمبر31 ).
انسانی زندگی کی سدھار کیلئے، اس کی تحسین و تطویر کیلئے بے شمار فلسفے، اور نظام زندگی وجود میں آئے، ہر ایک کا مقصد یہی تھا کہ انسان کی بے سمت زندگی کو ایک رخ مل جائے، سب کی تلاش کا ہدف ایک تھا، انسانی زندگی کیلئے ایک جامع نظام کی تشکیل ہو، جو انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگی میں انسان کو جینے کا ایسا سلیقہ فراہم کرے جو نہ تو اس کی طبیعت سے متصادم ہو اور نہ اس کے مصالح و مفادات کیلئے ضرر رساں، وہ خوشگوار اور آلائش سے پاک زندگی گذارنے کے، ساتھ اپنے مابعد والوں کیلئے بھی مفید ثابت ہوسکے، اس مقصد کی تکمیل کیلئے انسانوں نے اپنے لئے لاتعداد نظام بنائے، چوں کہ کوئی نظام عالم انسانیت کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنایا گیا لہذا ہر ایک کی کوشش یہی رہی کہ ان کا وضع کردہ نظام ان کی اقدار و روایات کا محافظ ہو، طرز زنگی، بو دو باش، مزاج و مذاق اور طبیعت سے ہم آہنگ ہو، اور ان کی بے ہنگم زندگی کو منظم کرنے میں معاون ہو، عام طور سے بادشاہ وقت کے ایماء پر، رعایا میں موجود اصحاب عقل و دانش، اور فکر و نظر اپنے تجربات و مشاہدات اور علم و مطالعہ کی روشنی میں کچھ اصول و ضوابط مقرر کرتے، وہی ملک کا دستور قرار دیا جاتا، کچھ مفکرین انسانی طبیعت، ان کے باہمی میل جول، آپسی تعامل کی مختلف شکلوں میں غور وفکر کرکے اخلاقیات و معاشرت کے اصول متعین کرتے وہی اخلاقی تعلیمات سمجھ کر قابل عمل قرار دئے جاتے، نیز انہیں اصولوں کی روشنی میں نسل نو اور عوام کی تربیت کی جاتی، جن کے دائرے محدود تھے یا مرور ایام کے ساتھ پتہ چلا کہ وہ نا قابل عمل ہیں، وہ ناپید ہوگئے، مشہور حکماء و فلاسفہ کے وضع کردہ قوانین اور اخلاقیات و معاشرت سے متعلق اصول محفوظ رہے، ارسطو، افلاطون، کونفیوشش، کی تعلیمات ہوں یا منو سمرتی سب اسی قبیل سے ہیں۔
انسانوں کے بنائے ہوئے نظام انسانی ذہن کی پرداخت ہیں لہذا ان میں جا بجا نقائص ہیں، ان میں جامعیت نہیں، ایک ہی معاملہ کی ایک صورت میں مبنی بر انصاف اور معقول نظر آتا ہے تو دوسری شق میں ظالمانہ اور عقل سے متصادم نظرآتاہے، جگہ جگہ پر ان میں ترمیم کی ضرورت پڑتی ہے، کیوں کہ انسانی ذہن محدود، اس کی معلومات محدود، مستقبل کے قطعی علم سے نا آشنا، تو وہ آس پاس یا مستقبل میں رونما ہونے والے کن کن واقعات کا احاطہ کرسکتا ہے؟ اور جن امور سے عقل آشنا نہیں ان کے متعلق ہدایات و قوانین وضع کرنا بھی محال ہے، اس کے برعکس خدائی قانون میں جامعیت اسلئے ہے کہ خدا خالق کون و مکاں ہے وہ اس کائنات کے ذرہ ذرہ سے واقف ہے، کائنات کے کسی گوشے میں پتے کی سر سراہٹ ہو یا سمندر کی تہوں میں پانی کا مد و جزر، پہاڑ کی چوٹیوں پر ہوا کی سنسناہٹ ہو یا کسی غار میں چھوٹے سے چھوٹے کیڑے کے رینگنے کی آہٹ، حیوانات کے جسم میں فشار خون اور جسم کے خلیوں میں تغیرات ہوں یا نباتات کے تنوں کے ریشوں میں نامیاتی تبدیلی ان سب سے ہر آن باخبر ہے، ذہن انسانی کے ارادے بھی وہ جانتا ہے،انسانی اعمال و افعال، اس کے جسم کے ہر عضو کی حرکات و سکنات، اس پر کچھ بھی مخفی نہیں، وہ علیم و خبیر ہے، اسے ازل سے ابد تک کے ہر ہر واقعہ کی تفصیلات کا علم ہے، اس سے کون و مکاں کا کوئی حادثہ کوئی واقعہ، کسی کی موت، کسی کی حیات کچھ بھی پوشیدہ نہیں، اس لئے اس کا بنایا نظام زندگی کے ہر گوشے اور شوشے کو محیط ہے، وہ کامل و اکمل اور جامع ہے، اس کے بنائے ہوئے نظام کی ہر شق ایک دوسرے سے اس قدر مربوط ہے کہ اس میں ترمیم کی ادنی کوشش سے بھی سارا نظام دربرہم ہوسکتا ہے، اور اس کی افادیت ختم ہو سکتی ہے۔
خالق کون و مکاں نے اپنے بندوں کی رہنمائی کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو ایک جامع نظام دیکر مبعوث کیا، اس سلسلے کی آخری کڑی محبوب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو نظام دیا گیا وہ چونکہ قیامت تک کیلئے تھا اسلئے وہ مزید پختہ کرکے عطا کیا گیا، انسانی تعداد میں اضافہ ہونا ہی تھا، آپسی احتکاک، اور تعامل کا بڑھنا لازمی تھا اسلئے عقائد، عبادات، کے ساتھ اخلاقیات، معاملاتِ اور معاشرت سے متعلق ایسی ہدایات دی گئیں، کہ وہ قیامت تک آنے والی نسل انسانی کی زندگی کو حسین بنانے کے ساتھ آخرت کو سنوارنے میں معین ہو سکے،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی خدائی ہدایات لے کر مبعوث کئے گئے، اور مبعوث بھی کئے گئے انسانوں کی ایسی جماعت میں جو اب تک کسی نظام کی پابند نہیں رہی، تمدن سے نا آشنا، ہمجیت، تفکک و انحلال جن کی زندگی کی خصوصیات تھیں، کبر و نخوت، اور عصبیت رگ و ریشے میں سرایت تھی، اپنے اوپر کسی کی بالادستی قبول کرنے کا سوال ہی نہیں تھا، ایسی بد نظمی کی زندگی گذارنے والوں پر جب رحمت للعالمین کے ابر رحمت کے چھینٹے پڑے، تو ان کے قلوب کی کھیتیاں لالہ زار ہوئیں، انوار نبی سے ان کی اندھیری دنیا ایسے جگمگ ہوئی کہ تھوڑے ہی دنوں میں تمدن کے دعویدار قیصر و کسریٰ کی آنکھیں بھی چندھیا گئیں، پھر دنیا نے دیکھا کہ جس نے اس دین کو اپنی زندگی کا رہبر بنایا وہ اوروں کے ہادی بنتے چلے گئے، ظلم و تعدی سے اٹی پڑی دنیا انصاف کے گلشن میں بدلنے لگی، اس دین متین کے حاملین جہاں پہونچنے استقبال ہوا، اور واپس جانے لگے تو آہ و بکا سے آسمان گونج اٹھا کہ ہمیں دوبارہ اس جہنم میں مت دھکیلو، جہاں سے تم نے ہمیں نکالا ہے، خدائی نور سے ظلم و بربریت کا اندھیرا دور کرنے کے بعد ہمیں دوبارہ اسی اندھیرے میں جینے کیلئے مت چھوڑو، غرض کہ اس نظام نے دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کی کایا پلٹ دی، مشرق و مغرب اور جنوب و شمال روشن ہوگیا، یہ ہے اس نظام کی خوبی۔
شاعر مشرق رحمۃ اللہ علیہ مسلمانوں سے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں اپنی بربادی و تنگ حالی کا شکوہ ہے، بدحالی پر بے چین ہو، اپنی تاریخ کے طویل ترین قومی تنزلی کے دورانیہ نے تمہیں اس رنج و الم سے دوچار کیا کہ اپنے مالک سے شکوہ پر اترآئے، اس کرب و بلا سے نجات چاہتے ہو؟ اگر ہاں! تو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم جو نسخہ کیمیا عطا کیا گیا تھا، اور جس نے کفر و شرک کی پستی میں دھنسے انسانوں کو دنیا کا امام بنادیا تھا، اسی کی پیروی کرو، یہی شرط ہے، چودہ سو سال پہلے جس نظام نے بے نظیر انقلاب پیدا کردیا تھا، ایسا انقلاب جس کی عقلی توجیہ تفسیر سے آج تک دنیا عاجز و قاصر ہے، کہ ایک طرف وسائل حکومت و سلطنت سے مالا مال دنیا دوسری طرف وادی غیر ذی زرع کے نہتے باسیوں کی مٹھی بھر جماعت، عقل کہتی ہے، وسائل جس کی مٹھی میں ہوں، غلبہ ان کے گھر کی لونڈی ہوتی ہے، تو پھر نہتے کیوں کر غالب ہوگئے، نتیجہ الٹا کیوں ظاہر ہوا؟ یہ کمال تھا اسی نظام حیات کا جو نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے تھے، اس دین متین پر اٹل یقین کا، اور ان کی لائی ہوئی تعلیمات و ہدایات پر حرف بہ حرف عمل کرنے کا، ان احکامات و ارشادات کی حقانیت پر پختہ ایمان کا، اگر آج چودہ سو سال بعد بھی وہی انقلاب چاہتے ہو تو اس کے لئے شرط بھی وہی ہے، جو پہلے تھی، کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے وفا کرو، ان کی پیروی کرو، بخدا وہی انقلاب آئے گا، دنیا و آخرت کی سر بلندی اتباع رسول سے مشروط ہے،تم شرط پوری کرو، مشروط خدا پوری کرے گا۔
فضائے بدر پیدا کر‘ فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی۔

Comments are closed.