Baseerat Online News Portal

گراں خوابیٔ شب کے بعد

ڈاکٹر سید ابوذر کمال الدین
سابق وائس چیئرمین، بہار انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن کونسل
میرے لیے یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے نتیجے آنے کے بعد مسلمانوں میں خوف و ہراس، بے یقینی، مایوسی اور بے چینی کیوں دیکھنے کو مل رہی ہے؟ اس الیکشن میں اس کے سوا کیا ہوا ہے کہ 2014میں جو سرکار بنی تھی وہ دوبارہ برسرِ اقتدار آگئی ہے اور اس بار اس کاتناسب زیادہ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بہت سارے لوگوں کی یہ رائے تھی کہ شاید یہ سرکار اپنی ناکامیوں کے سبب دوبارہ برسرِ اقتدار نہ آئے یا ہنگ پارلیامنٹ ہو، مگر ایسا نہیں ہوا۔ ملک کے عوام نے ایک بار پھر نریندر مودی کی قیادت پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں پوری مضبوطی سے اقتدار کی کرسی پر براجمان کردیا اور تمام پول پنڈت منہ دیکھتے رہ گئے۔
اس الیکشن میں برسراقتدار طبقہ جیتا ہے اور حزبِ اختلاف کی ہار ہوئی ہے۔ اگر مایوسی کی بات ہے تو ان کے لیے جو ہار گئے ہیں۔ مسلمان تو اس الیکشن میں نہ کھڑے تھے اور نہ ان کا کوئی مسئلہ زیرِ بحث تھا۔ ان کی غربت، ان کی بے روزگاری، ان کی ناطاقتی، ان کی پس ماندگی، یہاں تک کہ ان کے جان و مال کا تحفظ اور ان کی زبان و تہذیب کی حفاظت اور ان کی سیاسی اور معاشی حصہ داری غرض کوئی مسئلہ پورے الیکشن میں نہ حکمراں جماعت کی طرف سے اور نہ کسی اپوزیشن پارٹی کی طرف سے زیرِ بحث آیا تو انتخاب میں آنے والے نتیجہ سے نہ مسلمانوں کی ہار ہوئی ہے نہ جیت بلکہ جو صورتحال تھی وہ جوں کی توں برقرار رہی۔ اگر اس کے برعکس کوئی نتیجہ آتا تو اس کے سوا اور کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دور سے شہنائی کی آواز سن کر آپ خوش ہونا چاہتے تو خوش ہولیتے۔ بہرحال اس سے آپ کے گھر آنگن میں کوئی خوشی نہیں آتی۔ رہا سنگھ پریوار کی جارحیت کا خوف تو یہ اندیشہ حقیقی ہے اور اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مسلمان پچھلی دو صدیوں سے حالات کی مار سہتے آرہے ہیں، ان کی محرومی، پس ماندگی، خوف، عدم تحفظ اور استحصال آج اور ابھی شروع نہیں ہوئی ہے۔ اس کاسلسلہ انگریزوں کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جس وقت آزادی کی لڑائی لڑی جارہی تھی اس وقت کچھ غالی فرقہ پرستوں نے یہ سمجھا کہ ملک تقسیم ہوجائے گا تو یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ ان فرقہ پرستوں میں مسلمان اور ہندو دونوں طرف کے انتہا پسند لوگ تھے۔ ان کی لاجک یہ تھی کہ اس طرح ہندو ہندوستان میں رہیں گے اور مسلمان پاکستان میں۔ دو قوم دو الگ الگ ملکوں میں رہیں گے۔ دراصل یہ حضرات ہندوستان کی تاریخ، اس کا جغرافیہ، اس کی سماجی بناوٹ اور تہذیب و ثقافت سے ناواقف تھے یا جان بوجھ کر انھوںنے اس کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ انھوںنے ایک اناڑی ڈاکٹر کی طرح ایک چھوٹے سے زخم سے نجات پانے کے لیے ہاتھ پاؤں کاٹنے کا احمقانہ فیصلہ لے لیا۔ تقسیم ملک کے نتیجے میں جو خالص خانگی معاملہ تھا وہ بین الاقوامی معاملہ بن گیا جس نے پورے خطہ کے امن کے لیے ایسے خطرات پیدا کردیے ہیں جس سے باہر آنا مشکل ہورہا ہے۔
مسلمان 1857اور 1947کے آگ اور خون کے دریا کو پار کرکے یہاں تک پہنچے ہیں۔ جب اس وقت وہ ختم نہیں ہوئے تو اس وقت کے حالات اس سے بہتر ہیں۔ مگر ان دونوں حالات میں ایک جوہری فرق ہے۔ 1857میں ایک غیر ملکی طاقت برسرپیکار تھی اور اس مصیبت میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔ یہ اور بات ہے کہ اس کا قائد مسلمانوں کو مانا گیا اس لیے انہیں ہی جان و مال کی زیادہ قربانی دینی پڑی۔1947میں تقسیم کے غلط فیصلہ کا خمیازہ ہندو، مسلمان اور سکھ تینوں کو بھگتنا پڑا اس میں بھی مسلمان کے جان و مال کا زیادہ نقصان ہوا۔ مگر موجودہ چیلنج زیاہ سنگین ہے اور دور رس نتائج کا حامل ہے۔ سنگینی اس معاملے میں کہ اس کے شکار صرف مسلمان ہیں۔ اور یہ خطرہ جمہوری طریقے سے اور ایک پرامن انقلاب کے طور پر آرہا ہے جب کہ اکثریت کے ذہن کو مسموم کرکے اسے فسطائی عزائم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کے دیرپا اور ہمہ گیر اثرات ہوں گے۔ لہٰذا اس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش چیلنج کوئی نیا نہیں ہے۔ اس کی تاریخ کم و بیش دو سو سال پر محیط ہے۔ تعجب یہ نہیں ہے کہ وہ ایک سنگین صورتحال سے دوچار رہے ہیں۔ تعجب یہ ہے کہ اتنے طویل عرصے تک بحرانی حالات میں مبتلا رہنے کے باوجود ابھی تک وہ ان حالات سے باہر نکلنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوئے؟ بات یہ نہیں ہے کہ ان کے قویٰ شل ہوگئے ہیں۔ نہیں ان کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت معدوم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سالم جسم رکھنے کے باوجود وہ اپاہجوں کی طرح لڑکھڑاتے چل رہے ہیں اور کسی سہارے کے محتاج ہیں۔ جب آپ اندر سے کمزور اور ٹوٹے ہوئے ہوں گے اور آپ کے اندر ہمت اور حوصلہ نہیں ہوگا تو ایک کمزور آدمی بھی آپ کو پٹخ دے گا۔ تاتاریوں نے جب بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی اس وقت مسلمان اس قدر ہمت ہار چکے تھے کہ ایک تاتاری سپاہی نے بازار میں ایک مسلمان کو جو اس سے زیادہ موٹا تگڑا تھا پٹخ دیا اور جب اسے قتل کرنا چاہا تو اس کے پاس گیتی نہیں تھی۔ اس نے اس شخص سے کہا کہ یہیں پڑے رہو، ہم خیمہ سے تلوار لے کر آتے ہیں، تب تم کو قتل کریں گے۔ اور وہ شخص وہاں اسی حال میں پڑا رہا اور تاتاری اپنے خیمے سے تلوار لے کر آیا اور اس کا کام تمام کردیا۔ اس تاتاری نے کسی زندہ انسان کا قتل نہیں کیا تھا بلکہ ایک آدمی جو اندر سے مرچکا تھا اس کا قتل کیا تھا۔ ہمیں اس واقعہ سے سبق ملتا ہے کہ اگر ہم نے ہمت چھوڑ دی ہے تو پھر موت بہتر ہے۔ لیکن اگر ہم جینا چاہتے ہیں تو اپنے اندر زندگی، حوصلہ اور امید پیدا کرنی ہوگی۔
اس کالم میں اتنی گنجائش نہیں ہے کہ میں آپ کے سامنے تعمیر ملت کا بلوپرنٹ پیش کروں۔ انشاء اللہ آئندہ اشاعتوں میں تمام نکات پر ایک ایک کرکے تفصیلی گفتگو کی جائے گی۔ اس وقت مختصراً عرض ہے کہ اپنی نسلوں کی حفاظت کے لیے تعلیم اور حفظانِ صحت کا خیال رکھیں۔ آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اکثریت کے ساتھ خدمت، محبت اورانسانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے مثبت پہل کریں۔ اچھے اخلاق، بے لوث خدمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کے ذریعے دشمن کو دوست بنانے کے قرآنی فارمولے کو اپنی زندگی کا عملی وظیفہ بنائیں۔ امید ہے اس سے حالات میں بہتری پیدا ہوگی۔
Website: abuzarkamaluddin.com
کالم نگار ’زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد‘ کے مصنف ہیں۔

Comments are closed.