Baseerat Online News Portal

ہاں میں امیر شریعت احمد ولی فیصل رحمانی ہوں۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

جی! مذہبی و روحانی پیشوا،مرشد، سید، سردار، رہنما، رہبر، سرپرست، نوجوان قائد، دینی و عصری علوم کا ماہر، دینی و دنیوی علوم کا حسین امتزاج، جدید علوم وٹکنالوجی اوررائج زبان کاماہر ، علم و عمل کا حسین سنگم، حق گو،حق شنو، صداقت شعار، صادق القول، خوش خصال، خوش اطوار، خوش چلن، خوش طبع، ہنس مکھ، زندہ دل، سنجیدہ ، متحمل ، بردباد، بذلہ سنج، خوش مزاج، ثابت قدم، پرعزم، باحوصلہ، باادب، بارعب، صاحب استقامت، صاحب علم وعرفاں، صاحب نسبت، عہد وقول کا پکا، راسخ العقیدہ، بہترین منتظم، عالم باعمل، دانا ودانشور، سجادہ نشیں، عکس ِولی، فکرمنت اللہ کا پرتو، فاتح قادیانیت محمد علی مونگیری کا وارث ،سعادت مند، سلیقہ شعار، پاکیزہ سیرت، خدا شناس و خدا ترس، عالی نسب ، ولی کامل، ولی ابن ولی ، سید احمد ولی فیصل رحمانی امیر شریعت ثامن بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ ہوں۔ میری پیدائش خانوادہ علم وعرفاں مفکر ملت، امیر شریعت سابع و سابق جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ مولانا سید ولی رحمانی کے ہاں21مئی1975 کو خانقاہ مونگیر میں ہوئی۔ میرا خاندان محتاج تعارف نہیں، میرے خاندان کی دینی ، علمی و سیاسی خدمات جگ ظاہر ہیں، جد امجد مولانا محمد علی مونگیری بانی ندوۃ العلماء وجامعہ رحمانی، فاتح عیسائیت و قادنیت تھے۔ جنہوں نے اپنے شیخ کے حکم پر آبائی وطن کانپور سے ہجرت کرکے بہار کی سرزمین کو اپنی دعوت و خدمات کا گہوارہ بنایا۔ دادا امیر شریعت رابع ، عالم ربانی مولانا منت اللہ رحمانی بانی مسلم پرسنل لا بورڈ تھے اور والد بزرگوار ولی رحمانی مفکر ملت، بانی رحمانی تھرٹی جس سے مسلم نوجوان طالب علموں کی ایک بڑی جماعت استفادہ کررہی ہے۔

میری ابتدائی تعلیم و تربیت جامعہ رحمانی مونگیر میں ہوئی، یہاں میرے اساتذہ میں قاری مشتاق، مولاناابراہیم، مولانامعین الدین ، مولاناحکیم حبیب الرحمن، مولانا محمدنعیم رحمانی دامت برکاتہم شامل ہیں۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے دیار غیر امریکہ کا رخت سفر باندھا اور علمی تشنگی بجھائی، شرعی علوم اور عربی ادب پر مزید دسترس حاصل کرنے کے لیے جامعہ ازہر مصر میں داخلہ لیا اور وہاں سے پیاس بجھائی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد۲۰۰۶ء میں ماموں کی دختر نیک اختر کے ہمراہ سنت نبوی پر عمل کرتے ہوئے ازدواجی زندگی سے منسلک ہوا جس سے خدا نے مجھے ایک بیٹا اور دو بیٹیوں کی دولت سے سرفراز فرمایا۔

ہاں میں وہی احمد ولی فیصل رحمانی ہوں جس نے امریکہ میں ’’نیو کلیئر پاورپلانٹ اور آئل وگیس محکموں کی ذمے داری نبھائی، 2001سے 2005تک وہاں کی مختلف اہم اور بڑی کمپنیوں میں خدمات انجام دیتا رہا۔میری اعلیٰ وارفع صلاحیتوں کے پیش نظر ۲۰۰۵ میں مجھے ایکسچنجر کمپنی نے بطور فیکلٹی مقرر کیا، یہاں میں نے پروجیکٹ مینجمنٹ، ورک پلاننگ اینڈ مانیٹرنگ، سولوشن ڈیلیوری فنڈامنٹل کا لکچر دیا۔ معروف عالمی سافٹ ویئر کمپنی Adobe کے ایم ڈی ایم کے عہدہ پربھی فائز رہا۔ 2012میں بی پی کمپنی میں ٹرمینل اینڈ ٹرانسپورٹ میں منیجر بنایا گیا،2013میں میری ماس میڈیا اینڈ انٹرٹینمنٹ کی ملٹی نیشنل کمپنیDisnney میں بطور سروس منیجر تقرری ہوئی۔2015میں کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ڈائریکٹر آف اسٹرٹیجک پروجیکٹ مینجمنٹ کے طور پر منسلک ہوا‘‘۔

ہاں میں وہی احمد ولی فیصل رحمانی ہوں جسے والد بزرگوار نے 2015میں اپنی زندگی میں ہی روحانی صلاحیتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے عظیم خانقاہ رحمانی کا سجادہ نشیں منتخب کیا۔ ہاں میں وہی احمد ولی فیصل رحمانی ہوں جسے والد محترم کے سانحہ ارتحال کے چھ ماہ بعد 9اکتوبر 2021کو امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ کی رہبرو رہنمائی کا موقع ملا۔ ان شاء اللہ میں اپنے جد امجد، دادا محترم اور والد بزرگوار کے حسیں نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے علم وہنر کی روشنی میں امارت کو نئی بلندیوں پر لے جائوں گا، میرے امیر شریعت منتخب ہونے پر کہیں خوشیاں ہیں تو کہیں سازش کا جال ، بہار کے مسلمانوں کی بڑی تعداد نے مجھ سے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اور سازش کے شکار و بد ظن افراد کے ذہن میں میرے تئیں کچھ خدشات ہیں، ان شاء اللہ میں حسن تدبیر کے ساتھ ان کے خدشات کو دور کروں گا، میری خواہش ہے کہ جو مجھ سے بدظن ہیں یا سازش کے شکار ہیں، انتخاب امیر کے بعد غیر ضروری چیزوں کا شوشہ چھوڑ کر بدگمانی پھیلا رہے ہیں وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میرا تعاون کریں، ان شاء اللہ ان کے تمام شکوک وشبہات اور بدگمانیوں کو دور کردوں گا، جو چیزیں میرے خلاف چلائی جارہی ہیں ان سے میں ذرہ برابر خوفزدہ نہیں، اچھے لوگوں کی برائیاں کی جاتی ہیں، دنیا کی یہی ریت رہی ہے لوگ اعلیٰ ظرفوں کی اعلیٰ ظرفی کو اپنی کم نگاہی سے دیکھتے ہیں۔مجھے اس پرحیرت ہے کہ جولوگ انتخابی عمل میں شریک رہے اور جن لوگوں نے تائید کی، انتخاب کے بعد وہی غیر دستوری کی رٹ کیسے لگارہے ہیں۔اگرانھیں ا س وقت غیرشرعی لگ رہاتھا توان بزرگوں نے انتخابی عمل کابائیکاٹ کیوں نہیں کیا؛ جبکہ یہ مکمل اجلاس اور انتخابی عمل اس گیارہ رکنی کمیٹی کی نگرانی میں ہوا جن میں سارے فریق کے نمائندے موجودتھے۔کیا امیرشریعت کا فرزند ہونا میرے لیے جرم ہے؟ کہاں لکھاہے کہ امیرکا فرزند امیرنہیں بن سکتا۔دستور میں نے کھنگال لیا،امارت اورامت کی روایت بھی پڑھ لی، ہرجگہ موروثیت کا وہ مطلب نہیں ہے جوبیان کیاجاتاہے۔موروثیت اس وقت ہوتی جب والد مجھے امیربناتے ۔تاریخ امارت اورتاریخ امت دیکھ کراندازہ ہوجائے گاکہ صلاحیت کی بنیادپرعوام والدکے بعد فرزند کومنتخب کرلیں تویہ موروثیت نہیں ہوتی۔ میں نے یہ بھی دیکھاکہ حضرت علیؓ کے بعد حضرت حسنؓ کی خلافت بھی خلافت راشدہ ہی ہے۔میں نے امارت کی تاریخ بھی الٹی اورپایاکہ امیرشریعت اول،امیرشریعت ثانی اورامیرشریعت ثالث تینوں والد،بیٹے اوربھائی تھے۔کچھ لوگ اوصاف امیر پر ہنگامہ کر رہے ہیں؛ جبکہ دستورمیں کہیں بھی درج نہیں ہے کہ روایتی طورپرکسی مدرسہ کافارغ ہونا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ خودامیرشریعت اول اورامیرشریعت ثانی کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل نہیں تھے۔پھربھی اوصاف امیر پرمقتدر علماء کی کمیٹی بناکرانتخاب سے ایک دن قبل پوری بحث کرلی گئی اورفیصلہ کیا گیا کہ عالم کہلانے کے لیے مدرسہ کافارغ ہوناضروری نہیں ہے۔مجھے بہت حیرت ہوئی کہ جولوگ نوجوان قیادت کاراگ الاپتے رہتے ہیں، آج نئے خون اور نوجوان کوجب ذمے داری دی گئی توروایتی طبقہ مضطرب ہوگیا۔ہاں میں وہی احمد ولی فیصل رحمانی ہوں جس کے بارے میں نوجوان عالم دین، معروف صحافی، بصیرت کے منیجنگ ڈائریکٹر مولانا خان افسر قاسمی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ اس "روایت شکن” کے قدم سے قدم ملاکر چلیں؛ تاکہ ایسا نہ ہو کہ آنے والی نسل آپ کے معاندانہ رویہ پر آپ کو کوستی رہے۔۔۔!

ہاں میں وہی احمد ولی فیصل رحمانی ہوں جسے جنون کے ساتھ کام کرنے کی عادت ہے اور امت کوجنون کے ساتھ کام کرنے والے فردکی ضرورت ہے اوریہ کام نوجوان نسل کرسکتی ہے۔ہاں میری یہ بھی ذمے داری ہے کہ بڑوں کی دعاؤں اوران کے تجربہ سے فائدہ اٹھاؤں؛ اسی لیے میں نے اپنے سخت مخالفین سے بھی ملاقات کی اوران سے دعائیں لیں، جس کے بعدان کی غلط فہمیاں دورہوگئیں۔ ’’میں ایک صاف وشفاف شبیہ کا مالک ہوں، میری کردار کشی کی جارہی ہے؛ جبکہ میں بے داغ ہوں، میرے نزدیک عہدہ تاج نہیں، امانت ہے جس کے تقاضوں کو پورا کرنا میرا فرض ہے۔میں اسے ذمے داری سمجھتاہوں اور امت نے جو ذمہ داری مجھے دی ہے ان شاء اللہ میں اپنے علم وعمل ، حکمت ودانائی اوروسیع تجربے کی روشنی میں اسے بخوبی ادا کروں گا، میری تین نسلوں پر جس طرح بہار کے مسلمانوں کو فخر ہے ان شاء اللہ مجھ پر بھی فخر ہوگا، میری تین نسل بے داغ رہی ہے، ہماری خاندانی تاریخ رہی ہے کہ ہم نے امت کودیاہے، امت سے لیا کچھ بھی نہیں۔ مخالفین وموافقین سارے ہمارے ہیں، مجھے بس کام کرناہے۔ وقت گزرنے دیں، ارباب حل وعقدکو اپنے فیصلے پر ذرہ برابر بھی پشیمانی نہیں ہوگی؛ بلکہ وہ بزبانِ حال کہیں گے کہ حق بحق دار رسید، امارت کو امارت کا حق مل گیا۔

Comments are closed.