Baseerat Online News Portal

ہاں میں رنجن گوگوئی ہوں۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
 جی ۶۵؍سالہ ہندو مذہب کا پیروکار ، سابق چیف جسٹس آف انڈیا، موجودہ ممبر راجیہ سبھا، بابری مسجد کا فیصلہ سنانے والا، عصمت دری کا ملزم، سابق چیف جسٹس دیپک مشرا اور عدالتی کارروائی کے خلاف ’جمہوریت خطرے میں ہے‘ کے عنوان سے تین ججوں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرنے والا، جسٹس مارکنڈے کاٹجو کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرنے والا، جسٹس سی ایس کنن کو جیل پہنچانے والا، سبری مالا مندر میں خاتون کے داخلے پر روک سے انکار کرنے والا، سرکاری اشتہار میں لیڈران کی تصاویر پر پابندی عائد کرنے والا، پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس، شمال مشرقی ہندوستان کا پہلا آسامی چیف جسٹس، کبھی آر ایس ایس تو کبھی کانگریس کے نشانہ پر رہنے والا رنجن گوگوئی ہوں۔ میری پیدائش ۱۸؍نومبر ۱۹۵۴ کو آسام کے ڈبڑوگڑھ ضلع میں ہوئی، والد کا نام کیشب چندر گوگوئی ہے جو کانگریسی لیڈر اور ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ والدہ کا نام شانتی پریا گوگوئی، اہلیہ روپانجلی گوگوئی، بیٹی رشمی اور بیٹا رکتم گوگوئی ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم ڈان باسکو اسکول گوہاٹی میں ہوئی اس کے بعد کوٹن یونیورسٹی گواہاٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، پھر مزید تعلیم کےلیے دہلی آگیا جہاں دہلی یونیورسٹی کے سیٹ اسٹیفنس کالج میں داخل ہوا اور پڑھائی مکمل کی۔ والد محترم سماجی کارکن تھے؛ لیکن بعد میں انہوں نے سیاست  میں رخ کیا اور ۱۹۷۸  میں ممبر اسمبلی منتخب ہوئے پھر ۱۹۸۲ میں دو ماہ کے لیے ریاست کے وزیر اعلیٰ بنے۔ میرا اس وقت سیاست سے کوئی رشتہ نہیں تھا میں اپنی پڑھائی کے بعد ۱۹۷۸ میں وکالت کےلیے رجسٹریشن کروایا اور گوہاٹی ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے لگا جہاں مجھے ۲۸؍فروری ۲۰۰۱ کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں جج مقرر کردیاگیا، وہاں میں تقریباً اس عہدے پر دس سال تک فائز رہا پھر ۹؍ستمبر ۲۰۱۰ کو میرا ٹرانسفر پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ میں کردیاگیا ۔ ۱۲؍فروری ۲۰۱۱ کو مجھے پنجاب اور ہریانہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنادیاگیا تقریباً ایک سال بعد ۲۳؍اپریل ۲۰۱۲ کو مجھے میری خدمات کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کی عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) کا جج مقرر کیاگیا۔ ۳؍اکتوبر۲۰۱۸ کو مجھے سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنایاگیا اور میں سابق چیف جسٹس دیپک مشرا کی جگہ لی۔
ہاں میں وہی رنجن گوگوئی ہوں جو اپنے پیش رو چیف جسٹس دیپک مشرا پر الزام عائد کیا تھا اور ہندوستان کی تاریخ میں سپریم کورٹ کے ججوں نے پہلی بار چیف جسٹس کے خلاف حکومت کے دباؤ میں کام کرنے کا الزام لگایا اس الزام کو ہم ججوں نے جمہوریت خطرے میں ہے کا عنوان دیا تھا جس سے ایک ہنگامہ برپا ہوگیا، ملک میں عدالت اور چیف جسٹس اورحکومت کے تئیں عوام میں ناراضگی تھی، عوام میرے اس اقدام سے خوش تھے؛ لیکن اس کے بعد مجھ پر عصمت دری کا الزام عائد کیاگیا جسے میں نے یہ کہتے ہوئے خارج کردیا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ ان الزامات کا جواب دینے کےلیے اتنا نیچے اترناچاہیے‘ ۔ خیر جو الزام میں نے اپنے پیش رو پر لگایا تھا اسی میں میں ملوث ہوا، لوگوں نے مجھے بھی دباؤ میں کام کرنے والا بتایا، سیاسی مفاد کےلیے عدالت اور اپنے عہدے کا استعمال کرنے والا قرار دیا خیر اب صدرجمہوریہ ہند نے مجھے راجیہ سبھا کا رکن مقرر کیا اور میں راجیہ سبھا کا ممبر بن چکا ہوں یہاں سے میرا سیاسی کیریئر شروع ہورہا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے سے ریٹائر ہونے کے چار ماہ بعد ۱۹؍مارچ ۲۰۲۰ کو میری حلف برداری تقریب میں ایک ہنگامہ تھا، شور تھا، وہاں موجود افراد شیم شیم ( شرم کرو، شرم کرو) کا نعرہ لگا رہے تھے یہ نعرہ اور شور شاید میرا ضمیر جگانے کےلیے تھا، لیکن میرا ضمیر تو اسی وقت سوگیا تھا جب میں نے بابری مسجد کا فیصلہ سنایاتھا، مسلمانوں کے تمام ثبوت ودلائل کے باوجود انہیں ان کے حق سے محروم کردیا اور متنازعہ جگہ بھگوان رام جی کےلیے دے کر برسوں سے چلے آرہے قضیے کا تصفیہ کردیا۔ میرے راجیہ سبھا رکن منتخب ہوتے ہی ملک کےعوام سمجھ گئے ہیں کہ مجھے میرا انعام مل گیا ہے، کانگریس سمیت اپوزیشن پارٹیاں ناراض ہیں اور میرے منتخب ہونے کو عدلیہ کی آزادی پر حملہ قرار دے رہی ہیں، جسٹس کورین جوسف بھی مجھ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’ہندوستان کے ایک سابق چیف جسٹس کے ذریعے بطور راجیہ سبھا رکن نامزدگی کی منظوری نے یقینی طور پر عدلیہ کی آزادی پر عام آدمی کے اعتماد کو ہلا دیا ہے‘‘ ۔مسلم لیگ نے اسے ’قوم کے لیے شرم کا مقام ہے‘ کہا ہے۔ پی کے کنہالیکتی نے کہا ہے کہ ’’لوگوں میں یہ شک پیدا ہونا قدرتی ہے کہ کیا یہ سابق چیف جسٹس پر حکومتی انعام تو نہیں‘ کانگریس نے تو میرے رکن منتخب ہونے کو ’آئین کے بنیادی ڈھانچے کی ایک سنگین، بے مثال، اور ناقابل معافی توہین ‘ قراردیا ہے۔ خیر جسے جو تبصرہ کرنا ہو کرے مجھے فرق نہیں پڑتا میرا تو یہی نظریہ ہے کہ ’’پارلیمنٹ میں میری موجودگی سے عدلیہ کے مسائل قانون ساز ادارے کے سامنے پیش کرنے میں مدد ملے گی‘‘ اور عوام بھی دیکھیں گے کہ میں بطور سیاست داں بھی ان کی امیدوں پر پورا اترتا ہوں یا نہیں۔

Comments are closed.