Baseerat Online News Portal

ہاں میں سونو سود ہوں۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
جی سونو سود، تعلیمی اعتبار سے انجینیر، بالی ووڈ ، ٹالی ووڈ، کالی ووڈ اور کنڑ فلموں میں کام کرنے والا اداکار، فلم پروڈیوسر، ماڈل، فلموں میں عموماً منفی کردار ادا کرنے والا؛ لیکن حقیقی زندگی میں مزدوروں کے مسیحا کے طور پر سامنے آنے والا ’ہیرو‘ ہوں۔ میری پیدائش پنجاب کے لدھیانہ شہر موگا علاقے میں ۳۰ جولائی ۱۹۷۳ بروز پیر شکتی ساگر سود کے گھر ہوئی ۔ میرا بیک گراؤنڈ فلمی نہیں تھا والد شکتی سود کاروباری تھے اور والدہ سروج سود استانی؛ لیکن پھر بھی میں فلموں کی طرف آیا اور یہاں اپنی محنت ولگن سے اپنی شناخت قائم کی، میں نے تمل، تیلگو، ملیالم، کنڑ اور ہندی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے، شکل کے اعتبار سے خوبصورت اور جسم کے متعدل اور باڈی بلڈر ہونے کے باوجود بھی مجھے اکثر ’ویلن‘ کا رول دیا گیا اور میں نے اس رول کو انتہائی خوش اسلوبی سے نبھایا جس کی وجہ سے مجھے شہرت ملی۔ میری ابتدائی تعلیم سیکرٹ ہیرٹ اسکول موگا میں ہوئی اس کے بعد حیدرآباد پبلک اسکول میں داخل ہوا اور پھر یشونت راؤ چوہان کالج ناگپور سے انجینئرنگ کی تعلیم مکمل کی۔ میری شادی ۲۵؍ستمبر ۱۹۹۶ کو سونالی سود سے ہوئی جس سے میرے دو بچے ایان سود اور اسہان سود ہیں۔ میں نے اپنے کیریئر کی شروعات ۱۹۹۹ میں تمل فلم سے کی اس کے بعد میں نے بہت ساری انگلش، ہندی، تمل، تیلگو، پنجابی فلموں میں کام کیا جس میں سرفہرست کلّاجھاگر (تمل)، ہینڈزاپ (تیلگو)، شہید اعظم (ہندی)، مشن ممبئی(ہندی)، جودھا اکبر (ہندی)، اروندھتی (تیلگو)، دبنگ (ہندی)، تین مار (تیلگو) برہما(کنڑ)، جولائی (تیلگو)، سٹی آف لائف (انگلش) وغیرہ ہیں۔ ان فلموں میں میں نے بہترین اداکاری کے جوہر دکھائے۔ میں نے سلمان خان کی مشہور فلم ’دبنگ‘ میں ’چھیدی سنگھ‘ کا رول ادا کیا جسے مداحوں نے خوب سراہا، وہیں شوٹ آؤٹ وڈالا میں ڈی کمپنی کے سربراہ داؤد ابراہیم کا کردار ادا کیا تھا، فلم شہید اعظم میں عظیم مجاہدآزادی ’بھگت سنگھ‘ کا کردار ادا کیا تھا۔ مجھے ۲۰۰۹ میں تیلگو کی بلاک بسٹر فلم ’اروندھتی‘ کے لیے بیسٹ ویلن کا ایوارڈ دیا گیا اور بہترین شریک اداکار کا فلم فیئر تیلگو ایوارڈ سے بھی نوازا گیا، ۲۰۱۰ میں مجھے فلم دبنگ میں نگیٹو کردار ادا کرنے پر بیسٹ ایکٹر کا ’اپسرا‘ ایوارڈ اور بہترین کارکردگی پر ’آئفا‘ ایوارڈ دیاگیا۔ اس کے علاوہ بھی دیگر ایوارڈ سے سرفراز کیا جاچکا ہوں۔ خیر یہ تو ’ریل لائف‘ کی باتیں تھیں جہاں میں نے ’غنڈے‘ کا رول ادا کیا جس میں میں نے لڑکیوں کا اغوا، تاوان، مرڈر، مجبوروں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھاکر قہقہہ لگایا؛ لیکن ’ریئل لائف‘ میں کورونا مہاماری کے دوران جو کام کر رہا ہوں وہ ایک ’حقیقی ہیرو‘ کا کام ہے۔ بلاتفریق مذہب وملت میں فی الحال انسانیت کے لیے کام کر رہا ہوں۔ پورے ملک میں مزدور پریشان ہیں کوئی ان کا پرسان حال نہیں؛ لیکن میں ان کے حال احوال پوچھ کر انہیں ان کی منزل مقصود تک پہنچانے میں معاون بن رہا ہوں۔ ان مزدوروں کے لیے کھانے کا انتظام کر رہا ہوں، انہیں ان کے گھروں تک پہنچانے کےلیے بسوں اور دیگر ذرائع کا انتظام کرکے ان کی دعائیں لے رہا ہوں، جو کام ہندوستان کے وزیر ٹرانسپورٹ کا تھا وہ میں کررہا ہوں اپنے ذاتی خرچ سے دوستوں کی مدد سے ان غریب مزدوروں کا تعاون کرکے ان کا مسیحا بن کر ابھرا ہوں، اس مہاماری میں جہاں جس وقت جس غریب پریشان حال مزدور نے مجھے آواز دی میں اپنے سارے کام چھوڑ کر اس کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اس کی مدد میں لگ گیا، اپنا سکون و آرام تج کر کے انہیں سکون پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں، مئی و جون کی شدید گرمی اور دھوپ کی تپش کو خاطر میں نہ لاکر سڑکوں پر گھنٹوں کھڑے رہ کر غریب مزدوروں کے چہروں پر سکون واطمینان لانے کی کوشش کر رہا ہوں، انہیں گاڑیوں میں بٹھا کر الوداع کرکے ان کے چہروں سے ظاہر ہو رہے سکون کو دیکھ کر حقیقی خوشی کو محسوس کررہا ہوں جس سے مجھے بھی سکون مل رہا ہے۔ ۱۹۹۷ میں ماہانہ پاس بناکر روزی وروزگار کے لیے ممبئی کی لوکل میں دھکا کھانے والا سونو سود آج بنا کسی سودومنافع کے مزدوروں کو دھکاکھانے سے بچانے کی کوشش کررہا ہے۔
ہاں میں وہی سونو سود ہوں جسے ہندوستان بھر کی زبانوں میں، بھانت بھانت کی بولیوں میں پورے ملک سے شکریے موصول ہورہے ہیں، دعائیں مل رہی ہیں۔ میں تڑپتی ماؤں کو ان کا لعل ان کے یہاں پہنچا کر خوش ہورہا ہوں، مجھے اس خوشی سے آتما کو شانتی مل رہی ہے کوئی حاملہ ماں زچگی کے بعد اپنے نومولود بچے کا میری خدمت سے متاثر ہوکر میرا نام دے رہی ہے اس سے بڑی خوشی کی بات میرے لیے کیا ہوسکتی ہے، یہی میری زندگی کا سب سے بڑا ایوارڈ ہے اس ایوارڈ کے آگے میرے فلمی ایوارڈ ہیچ ہیں۔ ہاں میں وہی سونو سود ہوں جسے ایک غریب فیملی نے جو کئی دنوں سے بھوک سے پریشان تھی پُل میں استعمال ہونے والے پائپ میں زندگی گزارنے کو مجبور تھی مجھے پکارا ’’کہ میں پانچ دنوں سے یہاں ہوں، میرے دو بچے، ہیں ایک ہمراہی ہے جو معذور ہے، ہمارے پاس کھانے کو نہیں ہے، ہم پریشان ہیں، ہمیں گھر بھیج دو، اپنے بچوں کی زندگی اپنے ساتھ گزارنا چاہتی ہوں‘‘ ۔ میں نے ان کی آواز سنی درد سے کانپ اُٹھا، میں نے تمام اسباب و سائل بروئے کار لاتے ہوئے انہیں یقین دلایا کہ جلد ہی میں آپ کو آپ کی منزل تک پہنچا دوں گا اور میں نے ویڈیو دیکھنے کے بعد پہلی فرصت میں صبح ہوکر ان کے جانے کا انتظام کیا۔ ہاں میں وہی سونو سود ہوں جسے لوگ مزدوروں کا مسیحا کہہ رہے ہیں؛ لیکن میرا کہنایہ ہے کہ ’’مزدور ہمارے ملک کے مسیحا ہیں، ان کا کوئی مسیحا نہیں ہوسکتا‘‘۔
ہاں میں وہی سونو سود ہوں جس سے ملک کے طلبہ، معذور افراد، مجبور اشخاص، کراہتی مائیں، تڑپتی بیٹیاں، سسکتے باپ اس امید پر مدد مانگ رہے ہیں کہ ملک میں کوئی بھی ان کی مدد کرنے والا نہیں میں (سونو سود) ہی ان کی مدد کرسکتا ہوں اور واقعی مجھے ان کے اس طرح پکارے جانے پر ملکی سسٹم، سیاسی کھینچا تانی، مزدوروں کی لاشوں پر روٹی سینکنے کے فعل پر افسوس ہورہا ہے؛ لیکن خوشی ہے کہ ’خدا‘ (بھگوان) نے مجھے یہ سنہرا موقع دیا ہے انسانیت کی خدمت کا، جبھی تو لوگ مجھ سے آس و امید لگائے ہوئے ہیں۔ خیر جہاں تک ممکن ہوا میں انسانیت کی خدمت کے لیے خود کو وقف کرتا ہوں؛ کیوں کہ مخلوق کی خدمت سے ہی خالق خوش ہوگا۔ ہاں میں وہی سونو سود ہوں جو ان دنوں صرف دو سے تین گھنٹے ہی سو پارہا ہے، مجھے مزدوروں کی پریشانیاں سونے نہیں دیتی، صبح چھ بجے سے لوگوں کو بسوں میں بٹھاکر انہیں کھانا دےکر روانہ کرنے کا سلسلہ دیر رات تک جاری رہتا ہے؛ لیکن مجھے اس سے ذرہ برابر بھی تھکاوٹ نہیں ہوتی انہیں منزل مقصود تک بھیجنے کا عزم اور پریشان حال لوگوں کے چہروں پر گھر جانے، اپنے اہل خانہ سے ملنے کی خوشی ساری تھکاوٹ دور کردیتی ہے۔ بڑی ناقدری ہوگی اس موقع پر جو مزدوروں کی خدمت کرنے پر اپنی معاون نیتی گوئل اور دیگر دوستوں کا تذکرہ نہ کروں۔ میں ملک بھر میں پیدل چل رہے مزدوروں کی حالت زار اور ان کی اموات پر شکستہ دل تھا مجھے ان کی حالت پر ترس آرہا تھا پھر میں نے اپنے دوستوں سے باہم مشورہ کیا کہ کس طرح ان کی مدد کی جائے؟ باہمی مشورے سے میں، نیتی گوئل، دیگر دوست اور میری ٹیم کے دس سے بارہ افراد نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے مزدوروں کی تفصیل نکالی، نمبر جاری کیے اور ان کی فائل بناکر انہیں گھروں تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا۔ جس کی معاشی واقتصادی مدد میرے دوست بھی کر رہے ہیں، کوئی بسوں کا خرچ اٹھا رہا ہے کوئی کھانے پینے کا نظم کر رہا ہے، کوئی دیگر خدمات کا ذمہ اپنے سر لیے ہوا ہے۔ سبھی کی مدد سے ہی میں مزدوروں کے چہروں پر خوشی لانے کے قابل ہوا ہوں۔ مجھے آج محسوس ہوا کہ ان مزدوروں اور غریبوں کی خوشی میں ہی سچی اور حقیقی خوشی پوشیدہ ہے۔

Comments are closed.