Baseerat Online News Portal

ہاں میں غلام نبی آزاد ہوں۔۔۔۔!

نازش ہما قاسمی
جی! کانگریس کا مسلم چہرہ، کانگریس کا مخلص ساتھی، کانگریس اعلیٰ کمان کا رکن، کانگریس کا پکا وفادار، ۴۸؍ سالوں سے گاندھی خاندان کا قریبی، قائدانہ صلاحیتوں کا مالک، تیز طرار، متوازن شخصیت کا حامل،ہنرمند ، دور اندیش سیاست داں، سابق وزیر اعلیٰ جموں وکشمیر، سابق مرکزی وزیر صحت ، ایوان بالا کا سابق اپوزیشن لیڈر، شستہ اور مہذب لہجے میں ایوان میں گرجنے والا سینئر کانگریسی لیڈر، کانگریس کا اسٹارک پرچارک، اہم معاملوں میں کانگریس کی نیا پارلگانے والا، کانگریس کا مشیر ، ایوان میں حکومت کے ذریعے پیش کیے جانے والے بل پر مضبوط دلائل سے بحث کرنے والا، مہذب انداز میں اس کی خامیاں گنوانے والا ،کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے پر اسے یوم سیاہ قرار دینے والا، مرکزی حکومت کے ذریعے پاس کئے گئے قوانین این آر سی اور سی اے اے کو آئین ہند کے خلاف بتانے والا، ۷۱؍سالہ وادی کشمیر کا رہائشی غلام نبی آزاد ہوں۔ میری پیدائش ۷؍مارچ ۱۹۴۹ کو جموں کشمیر کے ڈوڈا ضلع کے تحصیل گنڈوہ (بھلونا) کے سوتی نامی گائوں میں والد رحمت اللہ بٹ اور والدہ باسا بیگم کے ہاں ہوئی۔ میری ابتدائی تعلیم و تربیت گائوں کے ہی اسکول میں ہوئی اعلیٰ تعلیم کےلیے جموں گیا ، جی جے ایم کالج سے بیچلر کی ڈگری حاصل کی اس کے علاوہ کشمیر یونیورسٹی، سری نگر سے ۱۹۷۲ میں حیوانیات میں ایم ایس سی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد ۱۹۸۰ میں کشمیر کی مشہور زمانہ گلوکارہ شمین دیو آزاد سے شادی کی جس سے میرے بیٹے صدام نبی آزاد اور بیٹی صوفیہ نبی آزاد ہیں۔ میں نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز تعلیم سے فراغت کے فوراً بعد ہی کردیا تھا۔ ۱۹۷۲ میں تعلیم مکمل کی اور ۱۹۷۳ میں بھلا بلاک کانگریس کمیٹی کا جنرل سکریٹری منتخب ہوا۔ دوسال کی کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے ۱۹۷۵ میں جموں وکشمیر کا یوتھ صدر بنادیاگیا۔ ۱۹۸۰ میں مجھے آل انڈیا یوتھ کانگریس کا صدر منتخب کیاگیا۔ ۱۹۸۰ میں ہی میں مہاراشٹر کے واشم ضلع سے لوک سبھا کا ممبر منتخب ہوا ۔ ۱۹۸۲ میں قانون، انصاف اور دیگر امور کے انچارج کے طورپر کام کیا۔ ۱۹۸۵ میں پھر لوک سبھا کے لیے منتخب ہوا۔ اس دوران کئی اہم حکومتی وزارتوں سے منسلک رہا۔ ۱۹۹۰ میں ایوان بالا راجیہ سبھا کے لیے منتخب ہوا۔ ۲؍اپریل ۲۰۰۵ کو وزیراعلیٰ جموں کشمیر چنا گیا جس کے بعد ۲۹؍اپریل ۲۰۰۶ کو راجیہ سبھا کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ دو سال وزیراعلیٰ جموں کشمیر رہا لیکن معاون پارٹیوں کی حمایت واپسی کی وجہ سے مجبوراً ۷؍جولائی ۲۰۰۸ وزیر اعلیٰ کے عہدے سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔ ۲۰۰۱۴ میں ایوان بالا میں اپوزیشن لیڈر منتخب ہوا جس پر اب تک براجمان تھا۔
ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جس کے بھائی غلام علی آزاد نے بی جے پی کا دامن تھام لیا، جس نے بابری مسجد کے تعلق سے مفتی بن کر کہا تھا کہ اسلام کسی متنازعہ جگہ پر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے ایودھیا میں نہ کبھی مسجد تھی نہ ہے او رنہ رہے گی۔ میرے بھائی نے کہا تھا اورنگ زیب نے تلوار کی زور پر ہندوستان میں اسلام کو پھیلایاجس کا خمیازہ آج مسلمان بھگت رہے ہیں۔ ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جس نے کشمیر کے خصوصی درجہ کو ختم کئے جانے کے خلاف احتجاج کیا تھا، میں نے ایوان بالا میں بی جے پی کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا تھا کہ اس نے ووٹ کے چکر میں کشمیر کے ٹکڑے کردیے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ ۳۷۰ ہٹایاجانا ہندوستانی تاریخ کا سیاہ دن ہے۔ میں نے ۳۷۰ کو ہٹائے جانےکی تجویز کی شدت سے مخالفت کی تھی اور اسے ملک سے غداری قرار دیتے ہوئے جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ بتایا تھا۔ میں امیت شاہ کے ذریعے پیش کردہ تجویز پر بحث کے دوران کہا تھا کہ ہم ہندوستان کے آئین کے ساتھ ہیں، ہم آئین ہند کی حفاظت کےلیے اپنی جان کی بازی بھی لگادیں گے، لیکن آج بی جے پی نے آئین کا قتل کیا ہے میں نے ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ جمہوریت کےساتھ کھلواڑ ہے، یہ ملک کے ساتھ غداری کے مترادف ہے۔ ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جس نے وادی کشمیر کی ۹۹ ایکڑ اراضی امرناتھ یاترا کا نظم ونسق کرنے والے بورڈ کو منتقل کردی تھی جس پر وادی کے مسلمانوں کے ذریعے خوب واویلا مچایاگیا تھا۔ ہاں میں وہی آزاد ہوں جس نے سال گزشتہ سونیا گاندھی کو خط لکھا تھا اور پارٹی کے تنظیمی ڈھانچوں میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا جس کے بعد مجھے اور کپل سبل کو بی جے پی کا ایجنٹ قرار دیاگیا۔ہاں میں وہی ہوں جس نے اقلیتوں کی لنچنگ کے خلاف آواز اُٹھائی اورمرکزی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ قیادت کے آشیرواد کے بغیر ایسے سانحے کا رونما ہونا ناممکن ہے۔ ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جس نے رافیل طیارہ سودا کو صدی کا سب سے بڑا گھپلہ قرار دیا تھا۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے کمل ناتھ حکومت کی برقراری کےلیے ہر ممکن کوشش کی لیکن بچا نہیں سکا، جس نے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ کمارا سوامی کے اقتدار کو بچانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکا۔ ہماری پارٹی کے دل بدلو اور ضمیر فروش ایم ایل ایز نے عوامی رائے کا خون کیا اور جمہوریت سے کھلواڑ کرتے ہوئے کرناٹک، اور مدھیہ پردیش دونوں کو دوبارہ بی جے پی کی جھولی میں دیا ۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے شہریت ترمیمی قوانین کے خلاف آواز اُٹھائی اور اس کی مخالفت میں آسام ، تری پورہ، اترپردیش وغیرہ جلنے پر مرکز کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ میں نے اس ترمیمی بل کے پاس ہونے کے بعد کہا تھا کہ بی جے پی اس طرح کے بل اس لیے لاتی ہے کہ عوام اسی میں الجھے رہیں میں نے بی جے پی پر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنانے کا الزام عائد کیا تھا۔ ہاں میں وہی ہوں جس نے زرعی قوانین کی مخالفت میں آواز اُٹھائی اورکسانوں کی حمایت میں پیش پیش رہا۔ ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جو آج ۱۵؍ فروری بروز پیر کو راجیہ سبھا کی رکنیت سے ریٹائرڈ ہورہا ہوں ۔ اس سے قبل ۱۰؍ فروری کو ایوان کی کارروائی کے دوران میں نے راجیہ سبھا سے الوداعی تقریر کی تھی تقریر اتنی اثر انگیز تھی کہ اس پر وزیر اعظم مودی بھی روہانسے ہوگئے تھے اور میری رفاقت کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے تھے۔ وزیر اعظم کے اس تاثر کے بعد میرے خلاف اٹکلوں اور افواہوں کا کا بازار گرم ہے ۔ کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ وزیر اعظم اور میرا رونا دونوں پری پلاننگ ہے، یا میں بی جے پی جوائن کرنے والا ہوں، میں بی جے پی کےلیے نرم رویہ اپنارہا ہوں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے میں شروع سے کانگریسی تھا، ہوں اور رہوں گا۔ کانگریسی مہر ہی میری پیٹھ پر ثبت ہے میں نے ان سب کے جواب میں یہی کہا ہے کہ میں چاہوں گا کہ وزیر اعظم مودی ان لوگوں کی بھی تعریف کریں، کانگریس بچوں کی پارٹی نہیں ہے جہاں کوئی میری تعریف کرے، خاص طور پر وزیر اعظم تو برا نہ مانا جائے، یہ تو فخر کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کے رکن کی کوئی تعریف کررہا ہے، مجھے اس بات کی بالکل بھی امید نہیں تھی کہ وزیر اعظم مودی رونے لگ جائیں گے ۔ اور لوگ اس رونے کو اچک کر میرے خلاف استعمال کریں گے۔ہاں میں وہی غلام نبی آزاد ہوں جس نے راجیہ سبھا میں اپنے الوداعی تقریر میں کہا کہ میں خوش قسمت ہوں کہ کبھی پاکستان نہیں گیا کیونکہ وہاں کے حالات دیکھ کر مجھے ہمیشہ اپنے ہندوستانی مسلمان ہونے پر فخر ہوتا ہے۔ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ دنیا میں اگر کسی مسلمان کو فخر ہونا چاہیے تو وہ ہندوستانی مسلمان ہے۔

Comments are closed.