Baseerat Online News Portal

ہاں میں مزدور ہوں۔۔۔!

نازش ہماقاسمی
جی مزدور، لیبر، آبلہ پا، محنت کش، خوددار، غریب انسان، پریشان حال ، صاحب حیثیت افراد کے یہاں صنعتی وکاروباری ادارے میں، کھیت اور کھلیانوں میں، شہرودیہات میں اپنے بال بچوں کی کفالت کی خاطر آبائی وطن سے دور کام کرنے والا،دوسروں کے آرام کی خاطر اپنے سکون کو تج کر انہیں آشائش فراہم کرنے والا، بلڈنگ کا گاڑا بنانے والا، اینٹ اٹھانے والا، سبزی ڈھونے والا، یومیہ اجرت پر کام کرنے والا، زری کا کام کرنے والا، مٹی میں لت پت، پسینے سے تربتر، بچوں کو گود میں لیے ہوئے ٹیکسی چلانے والا، بسوں میں سامان چڑھانے والا، ریلوے اسٹیشنوں پر سامان ڈھونے والا، پیٹ کی آگ بجھانے کےلیے کمزوری و لاغری خاطر میں نہ لانے والا، صنفی برتری سے آزادمرد،بوڑھا، عورت،بچے اوربچیوں کی شکل میں آپ کے ارد گرد نظر آنے والا آپ کے روز مرہ کی ضرورتوں کو آپ تک پہنچانے والا مزدور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے سہولت پہنچانے کےلیے لیڈران قسمیں کھاتے ہیں، وعدے کرتے ہیں،دوران الیکشن پائوں دھوتے ہیں لیکن الیکشن ختم ہوتے ہی ہمیں بھلا دیاجاتا ہے، دھتکار دیاجاتا ہے، ہماری ضرورتوں کو بالائے طاق رکھ دیاجاتا ہے اور پھر ہماری کسمپرسی کا حال وہی ہوجاتا ہے جو پہلے تھا۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دنیا کے ہر خطے میں امیروں کے ذریعے ستایا جاتا ہوں، پریشان کیاجاتا ہے، برباد ہوتا ہوں، ان کے ذریعے اپنے عزت نفس کو کچلوادیتا ہوں لیکن پھر بھی ہمیں وہ مقام نہیں ملتا ، ہمیں گری ہوئی نظروں سے ہر ملک میں دنیا کے ہر کونے میں دیکھا جاتا ہے اس کے باوجود بھی ہم ہر جگہ سماجی ڈھانچے کے تانے بانے کو برقرار رکھتے ہیں ۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے ہندوستان جیسے ملک میں بھی خاطر میں نہیں لایاجاتا ، کہنے کو تو یہ ملک غریب پرور ہے لیکن ہم غریب مزدوروں کی وجہ سے ہی امیر یہاں پلتے ہیں ہم تو ان کے پائوں کی جوتیوں کے برابر بھی نہیں ، کم اجرت پر پورے دن پسینہ بہاکر، آفسوںمیں ڈیوٹی کرکے، دکانوں پر کھڑے رہ کر ، بازاروں میں گھوم گھوم کر، گھروں میں جاجاکر کام کرتے ہیں اگر کبھی اپنے سیٹھ سے، ساہوکار سے، صاحب سے اجرت بڑھانے کو کہتے ہیں تو وہ ہمیں اس نظر سے دیکھتے ہیں گویا ہم نے ان کی پوری جائیداد مانگ لی ہو۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کے بارے میں نبی پاک ﷺ نے سیٹھوں کو، ساہو کاروں کو، صاحب حیثیت لوگوں کو کہا تھا کہ ان کا پسینہ خشک ہونے سے قبل ہی ان کی مزدوری دے دو لیکن دنیا میں اب یہ رواج نہیں رہا اکثر مزدوروں کا پسینہ خشک ہونے کے مہینوں بعد بھی انہیں ان کی اجرت نہیں مل پاتی۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دوسروں کے لیے تو گھر بناتا ہے لیکن ہمارا کوئی گھر نہیں ہوتا، بڑے بڑے شہروں میں آپ نے فٹ پاتھ پر جسے سوتا دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں، جسے بانس کی ڈلیوں میں سکڑا ہوا لیٹا دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں، جسے ٹھیلے گاڑی پر سخت دھوپ میں تھوڑا سستاتے ہوئے دیکھتے ہیں میں وہی مزدور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو دھوپ کی تپش، ٹھنڈ کی برودت کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں مسلسل لگا رہتا ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کے تلخ اوقات کو علامہ اقبال نے بیان کیا، جس کی کالی دنیا کو جمیل مظہری نے اجاگر کیا، جس کی مسکراہٹ کو مجروح سلطان پوری نے بیان کیا، جس کے ماتھے سے پھوٹتی کرن کو علی سردار جعفری نے بیان کیا، جس کے معاوضے کو عاصم واسطی نے بیان کیا، جس کے پیلے چہرے کو تنویر سپرا نے بیان کیا، جس کی بنائی ہوئی راہ کو حفیظ جالندی نے اپنے شعر میں پیش کیا۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو فٹ پاتھ پر اخبار بچھا کر سوجاتا ہوں تھکاوٹ کی وجہ سے جلد نیند آجاتی ہے ہم مزدوروں کو کبھی نیند کی گولی نہیں کھانی پڑتی ۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو اپنے پسینوں میں اپنے خواب کی خوشی لیے ہوئے پھرتا ہوں، ہاں میں وہی مزدور ہوں اگر نہ ہوتا تو یہ بڑے بڑے محلات، بڑی بڑی فیکٹریاں، بڑی بڑی کوٹھریاں دنیا کی رونق نہ ہوتی۔
ہاں میں وہی مزدور ہوں جو کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیا میں پریشان ہوں، ہاں میں وہی مزدور ہوں جسے شہر میں بھوک لائی تھی اور اب بھوک لے جارہی ہے، ہندوستان میں تو ہماری ہجرت کی وجہ سے ۱۹۴۷ کا منظر نظر آرہا ہے، ایک ماہ تو ہم نے کسی طرح بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کرکے گزار کرلیا لیکن جب ہمارے سیٹھوں نے ، ساہوکاروں نے، حکمرانوں نے ہم سے ہاتھ اُٹھالیا، ہمارے مالکوں نے ہمیں کھانا پینا دینا چھوڑ دیا ، ہم پر کوئی توجہ نہیں دی، ہمارے وطن جانے کےلیے گاڑیوں کا انتظام نہیں کیا تو ہم پریشانی کے عالم میں پیدل ہی طویل مسافت کےلیے نکل پڑے، کہیں ریل کی پٹریوں پر مال گاڑی سے کچلے گئے، کہیں بس ٹرک اور دیگر بڑی لاریوں کی زد میں آکر مارے گئے، کہیں مئی کے گرمی کی سخت تپش کی تاب نہ لاتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کردیں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو ان دنوں ملک کی سڑکوں پر بے یاردومددگار اپنے آبائی وطن کی طرف ننگے پائوں، چھوٹے ومعصوم بچوں کو کاندھوں پر لیے ہوئے، حاملہ بیویوں کو اس کے درد وکرب کے باوجود پیدل چلنے پر مجبور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو بیل گاڑی میں ایک طرف بیل اور دوسری طرف خود کھڑا ہوکر اپنے اہل وعیال کو گائوں لے جارہا ہوں، ہاں میں وہی مزدور ہوں جو بھوک سے بلبلاتے بچوں کو اپنی گود میں مرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، ہاں میں وہی مزدور ہوں جو اپنے ضعیف والدین کو اپنے کاندھوں پر لیے ہوئے محوسفر ہوں۔ ہاں میں اسی مزدور کی اہلیہ ہوں جو اپنے بچے کو سوٹ کیس پر لٹا کر گھسٹنے پر مجبور ہوں، ہاں میں اسے مزدور کا بیٹا ہوں جو اپنی والدہ کی ٹانگوں سے چپکا ہوا ہوں اور مزید نہ چلنے کی طاقت نہ ہونے کی شکایت کررہا ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہو جو تپتی سڑک پر اپنے بچوں کو پائوں میں چھالے سے بچانے کےلیے پلاسٹک کی بوتل پہنانے پر مجبور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جو ٹرک پرچڑھانے کےلیے اپنے شیر خوار بچے کو ہوا میں اچھالنے پر مجبور ہوں، ہاں میں وہی ہوں چھوٹی گاڑیوں میں جانوروں کی طرح گھس کر جانے پر مجبور ہوں۔ ہاں میں وہی مزدور ہوں جس کی لاشوں کی تعداد نہیں بتائی جارہی حالانکہ ہم بھوک سے مرنے والوں مزدوروں کی تعداد کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے لیکن ہماری لاشوں پر کوئی آنسو نہیں، کوئی غم نہیں بس صرف اور صرف سیاست ہورہی ہے۔ پتہ نہیں ہم کب تک سیاست کی نذر ہوتے رہیں گے، ہماری حالت شاید کبھی سدھرے بھی نہیں ، اکثروبیشتر ہم اپنی اس حالت کے خود بھی ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اور جہاں انسانوں کو انسانوں پر برتری حاصل ہو ، جہاں اونچ نیچ کا رواج ہو وہاں اس طرح کے حالات سے کبیدہ خاطر نہیں ہواجاتا ۔

Comments are closed.