Baseerat Online News Portal

ہاں میں پی چدمبرم ہوں۔۔۔!

نازش ہما قاسمی 
جی سینئر کانگریسی لیڈر،سفید پوش، لنگی اور شرٹ میں پوری زندگی گزاردینے والا، قد آور سیاست داں، بہترین بزنس مین ، اربوں کی پراپرٹی کا مالک، اعلیٰ تعلیم یافتہ، سابق وزیر داخلہ و وزیر مالیات، راجیہ سبھا کا موجودہ ممبر، بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کو درست قرار دینے والا، دس سال پہلے موجودہ وزیر داخلہ کوسہراب الدین شیخ فرضی انکائونٹر معاملے میں گجرات بدر کرنے والا، انا ہزارے کو گرفتار کرکے تہاڑ بھیجنے والا، رام لیلا میدان میں رام دیو پر لاٹھی چارج کرانے والا، پلانی اپن چدمبرم ہوں۔ میری پیدائش آزادی ہند سے دو سال قبل ریاست تملناڈو کے شیو گنگا ضلع کے کناڈوکتھن گائوں میں ہوئی۔ میرے والد کا نام پلانی اپن اور والدہ کا نام لکشمی اچھی ہے۔ میری شادی ۱۱؍دسمبر ۱۹۶۸ کو نیلنی چدمبرم سے ہوئی جس سے میرا ایک بیٹا کارتی چدمبرم ہے جو فی الحال لوک سبھا کا ممبر ہے۔ میری ابتدائی تعلیم ایس ٹی تھامس کانوینٹ چنئی، مدراس کانوینٹ ہائر سکینڈری اسکول چنئی سے ہوئی ۔ پریسینڈنسی کالج سے اسٹیٹس ٹکس میں بیچلر آف سائنس (بی ایس سی) کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد مدراس لاء کالج سے بیچلر آف لاء(ایل ایل بی) کیا پھر بین الاقوامی طور پر مشہور ہارورڈ بزنس اسکول یو ایس اے سے بزنس ایڈمنسٹریشن (ایم بی اے) کی تعلیم حاصل کی ۔ تعلیم سے فراغت کے بعد بطور وکیل چنئی ہائی کورٹ سے منسلک ہواپھر سپریم کورٹ اور ملک کی دیگر ہائی کورٹوں میں بھی پریکٹس کیا۔ ۱۹۷۲ میں سیاست میں قدم رکھا اور انڈین نیشنل کانگریس کا دامن تھاما۔ ۱۹۷۳ سے ۱۹۷۶ تک تمل ناڈو یوتھ کانگریس کا صدر رہا۔ ۱۹۷۶ سے ۱۹۷۷ تک ریاستی جنرل سکریٹری کے طور پر کام کیا۔ ۱۹۸۴ میں لوک سبھا کےلیے شیوگنگا حلقہ انتخاب سے ممبر آف لوک سبھا منتخب ہوا۔ پھر ۱۹۹۱، ۱۹۹۸، ۲۰۰۴ اور ۲۰۰۹ تک اسی حلقہ سے جیت درج کراتا رہا۔ سال ۱۹۹۱ میں مجھے وزیر مملکت برائے تجارت بنایاگیا، لیکن ایک سال بعد ہنگاموں کی وجہ سے مجھے استعفیٰ دینا پڑا ۔ ۱۹۹۵ میں پھر میں اسی عہدے کےلیے چنا گیا ۔ ۱۹۹۶ میں میں کانگریس پارٹی سے استعفیٰ دے دیا، پھر جی کے موپنار کے ہمراہ تمل منیلا کانگریس (ٹی ایم سی) کی بنیاد ڈالی ۔ اس پارٹی کا انضمام ۲۰۰۲ میں کانگریس میں ہوگیا تھا۔ ۱۹۹۶ کے عام انتخابات میں ترنمول کانگریس پارٹی نے قومی و علاقائی پارٹیوں کے ساتھ گٹھ بندھن کرکے حکومت سازی کی اور میں اس حکومت میں وزیر مالیات کا حلف لیا۔ ۱۹۹۸ میں حکومت گرنے کے بعد بھی اس عہدے پر متمکن رہا۔ ۲۰۰۱ میں ترنمول پارٹی سے الگ ہوکر اپنی ’کانگریس جنا نایک پیروائی پارٹی ‘کی بنیاد ڈالی پھر اسے ۲۰۰۴ میں کانگریس پارٹی میں ضم کردیا۔ سال ۲۰۰۴ میں منموہن سنگھ کے دور اقتدار میں وزیر مالیات منتخب ہوا، سال ۲۰۰۸ تک اسی عہدے پر برقرار رہا پھر شیوراج پاٹل کے استعفیٰ کے بعد وزیر داخلہ بنا اور ۲۰۱۲تک وزیر داخلہ کے طو رپر کام کیا اس دوران ملک کے مسلم نوجوانوں کا وہ حال کیا کہ اب تک سینکڑوں جیلوں کی سلاخوں میں بند ہیں۔ دہشت گردی کے مختلف نام ایجاد کیے، اس وقت ایجنسیاں میرے ہاتھوں میں تھیں ، سی بی آئی، این آئی اے کا سرکاری استعمال مسلمانوں کے خلاف کیا۔ مسلم نوجوان جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے انہیں انکائونٹر میں مار گروایا، جیلوں میں ٹھونس دیا، انڈین مجاہدین کے ناموں پر ان کی گرفتاریاں کروائیں،اعظم گڑھ کے سنجر پور سے لے کر کرناٹک کے بھٹکل تک مسلمانوں کو پریشان کیا ۔ ۲۰۱۲ میں جب پرنب مکھرجی صدرجمہوریہ منتخب ہوئے تو میں نے پھر وزیر مالیات کا عہدہ سنبھالا، وزیر مالیات رہتے ہوئے میں نے ملک کی معیشت کو سدھارنے کے لیے بہت کام کیے، کسانوں کے قرض معاف کرنے کی پہل کی۔ ہاں میں وہی پی چدمبرم ہوں جس نے بٹلہ ہائوس فرضی انکائونٹر کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حادثہ ۲۰۰۸ میں میرے وزارت داخلہ کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے ہوا تھا؛ لیکن جب میرے معاون میں سے ایک نے مشورہ دیا کہ یہ مڈبھیڑ فرضی ہوسکتا ہے تو میں نے اس معاملے کو نجی طورپر دیکھا اور ایجنسیوں سے بات چیت کی جس میں مجھے کافی وقت لگا اور اخیر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ انکائونٹر درست تھا مجھے اس انکائونٹر میں مارے گئے پولس افسر پر بہت افسوس بھی ہوا ۔ مجھے خوشی ہوئی تھی کہ پولس اس معاملے کو حقیقت ثابت کرنے میں کامیاب ہوئی ۔ ہاں میں وہی پی چدمبرم ہوں جس نے ۲۰۱۰ سہراب الدین فرضی انکائونٹر معاملے میں موجودہ وزیر داخلہ امیت شاہ کو گرفتار کیا تھا انہیں گجرات سے دربدر کیا تھا۔ لیکن اب حالات نے کروٹ لی۔ میں ایک مجرم کی طرح سی بی آئی کے شکنجے میں آیا اور امیت شاہ وزیر داخلہ ہیں۔ راحت اندوری کا شعر سچ ثابت ہوا کہ
جو آج صاحبِ مسند ہیں، کل نہیں ہوں گے
کرائے دار ہیں، ذاتی مکان تھوڑی ہے
میں اس وقت کرایے دار تھا لیکن ذاتی مکان سمجھ بیٹھا تھا کہ یہ کرسی ہمیشہ میرے ہاتھوں میں رہے گی، ہمیشہ میں ہی اقتدار پر قابض رہو نگا؛ لیکن نہیں ایسا نہیں ہوتا حالات پلٹتے رہتے ہیں کبھی میں تو کبھی وہ تو کبھی کوئی اور اس کرسی پر بیٹھتا ہے۔ میری سوچ غلط تھی، میرا تصور وہم تھا۔ اب میرا احتساب شروع ہوچکا ہے ۔ ۲۰ اگست کو دہلی ہائی کورٹ نےمیری پیشگی درخواست ضمانت کو مسترد کردی اور میرے دور اقتدار میں رہتے ہوئے تین ہزار کروڑ روپے کے ایئرسیل میکسس سودے اور آئی این ایکس میڈیا کے 305 کروڑ روپئے والے معاملے میں مجھے ۳۰ گھنٹہ چھپ چھپا کر رہنے کے بعد ۲۱؍اگست کی شب دس بجے سی بی آئی نے میرے گھر کی دیوار پھلانگ کر مجھے اندر سے باہر نکالا اور گرفتار کرلیا۔ میں نے اپنی گرفتاری سے قبل کانگریس آفس میں پریس کانفرنس بھی کی اور اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا میں نے او رمیرے خاندان کے کسی رکن نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور میرے خلاف جو بھی کارروائی ہورہی ہے وہ غلط ذہنیت کے تحت کی جارہی ہے۔ میری پارٹی کے لوگ ا سے بدلے کی کارروائی قرار دے رہے ہیں ، پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے میری حمایت کرتے ہوئے کہا کہ ’’چدمبرم کا گناہ صرف یہ ہے کہ انہوں نے ملک کی گرتی معیشت پر اپنی آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا کہ اس حقیقت سے سب واقف ہیں کہ مودی حکومت کی دوسری پاری میں معیشت کا برا حال ہے، ہرشعبہ کی صنعتوں میں تالا بندی کی تلوار لٹک رہی ہے، روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلہ گر رہی ہے اور ڈالر وزیر اعظم کی عمر کو بھی پار کر گیا ہے، ملک کو درپیش ان سنگین مسائل سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے ایسے شخص کو گرفتار کیا جو نہ صرف اقتصادیات کی اچھی سمجھ رکھتا ہے بلکہ ملک کے معروف وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے 40 سال عوام کو دیئے ہیں‘‘ انہوں نے تو اسے جمہوریت کا قتل تک قرار دیا ہے۔ کچھ تو میرے کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کیے جانے کے بعد بیان جس میں کہا تھا کہ آرٹیکل ۳۷۰ کو ختم کرنا گناہ عظیم ہے اس کی بنیاد پر مجھے گرفتار کیا گیا ہے لیکن حقیقت تو یہی ہے کہ جو میں نے اقتدار میں رہتے ہوئے کیا اس کا صلہ مجھے مل رہا ہے اور اب مجھے اس شعر کی صداقت میں کوئی شک وشبہ نہیں رہا کہ
عدل و انصاف فقط حشر پہ موقوف نہیں
زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے

(بصیرت فیچرس)

Comments are closed.