Baseerat Online News Portal

ہاں! میں کسان ہوں۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

ہاں میں کسان ہوں ۔۔۔جی ہاں وہی کسان جس کا مشغلہ کھیتوں میں فصلیں اگاکر ملک کے شہری کو رسد وخوراک پہنچانا ہے ۔۔۔ جی ہاں میں وہی کسان ہوں جسے آپ نے چلچلاتی دھوپ میں بیلوں کو "ہَل،، میں ناتھ کر کھیتوں کر جوتتے ہوئے دیکھا ہوگا۔۔۔ہاں میں وہی کسان ہوں جو صبح تڑکے اٹھ کر فصلوں کی بوائی کرتا ہے ۔۔۔کبھی دوپہر کی دھوپ میں فصلوں کی کٹائی کرتا ہے ۔۔۔تو کبھی رات کی تاریکی میں فصلوں کی حفاظت کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ ہاں! میں وہی کسان ہوں جو ملک کے ہر گوشے میں موجود ہے ۔۔۔اگر میں نہ ہوتا تو ملک کے لوگ دانے دانے کو ترس جاتے ۔۔۔لوگ بھوکے مرتے ۔۔۔شہری اناج کو ترستے ۔۔۔بچے بلبلا اُٹھتے ۔۔۔بڑے ترپ کر رہ جاتے ۔۔۔بوڑھے نقاہت سے ٹوٹ جاتے ۔۔۔جواں عمر نوجوانوں کے چہروں پر پژمردگی چھا جاتی۔ ہاں! میں وہی کسان ہوں جو تیز بارش میں بھی اپنے کھیتوں میں نظر آتا ہے۔ جو آندھی و طوفان میں بھی اپنے فصلوں کی حفاظت کرتا ہے؛ تاکہ ملک کے شہری بھوک سے نہ تڑپیں ۔۔انہیں دانے کی کمی نہ ہو۔۔۔انہیں پریشانی نہ ہو۔۔۔؛ لیکن اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود ہماری خدمات کا یہ بدلہ دیا جاتا ہے کہ ہماری زمینیوں کو مالدار ہڑپ رہے ہیں ۔۔۔۔پہلے تو ہم زمین داروں کی تانا شاہی سے تنگ تھے اب اقتصادی لٹیروں سے پریشان ہیں۔۔۔آئے دن ہماری زمینوں پر قبصہ کرکے فنکس مال ،ڈی مارٹ ، اور دیگر چائنا بازار قائم کیے جارہے ہیں ۔۔۔۔اگر اسی طرح چلتا رہا ، ہندوستان میں کسانوں کی زمینیں اسی طرح برباد کی جاتی رہیں تو ہوسکتا ہے ہندوستان غذائی قلت کا شکار ہوکر بھکمری کے کگار پر پہنچ جائے گا۔

ہاں! میں وہی کسان ہوں جو ملک کے طول و عرض میں چاول اگاتا ہے، گیہوں کی فصل لگاتا ہے ، مکئی و باجرہ اگاتا بوتا ہے ، آلو کی زراعت کرتا ہے ، پیاز پیدا کرتا ہے ، طرح طرح کی سبزیاں اگاتا ہے ، کپاس اگاتا ہے؛ لیکن ان سب کی مناسب قیمتیں ہمیں فراہم نہیں ہوتیں۔ ہمیں مناسب معاوضہ نہیں دیاجاتا ۔۔۔ہماری محنتوں کا بہترین ثمرہ نہیں دیاجاتا ۔۔۔ حکومت کی سرپرستی میں ہماری فصلوں کا فائدہ بڑی بڑی کمپنیوں کو پہنچایا جاتا ہے۔ آج ملک کا کسان سماوی آفت اور حکمرانوں کی بدنیتی کے سبب پریشان ہے، ہم وہ جو دوسروں کو زندگی کے وسائل فراہم کرتے ہیں، حکمرانوں کی بدنیتی کی وجہ سے ہماری زندگی کی شام ہوتی جارہی ہے۔۔۔کہیں ہم قرض سے پریشان ہوکر اپنے اہل خانہ کو روتا بلکتا چھوڑ کر کھیتوں میں بنے کنوؤں میں جان دینے پر مجبور ہیں، وہ کنوئیں جن سے کھیت کو زندگی ملتی ہے وہاں ہم اپنی زندگی کی شام کرلینے پر مجبور ہیں ۔۔۔۔کہیں ہم زمینوں کے ہڑپ کرلیے جانے سے دلبرداشتہ ہوکر اپنے اہل خانہ سمیت درختوں پر جھولنے کو مجبور ہیں ۔۔۔تو کبھی مناسب قیمتیں نہ ملنے کے سبب زہر کا پیالہ پینے پر مجبور۔۔۔صرف اتنا ہی نہیں کبھی کبھی ظالم بدمعاش لٹیرے ہماری فصلوں کو آگ کے حوالے کردیتے ہیں، جس سے دلبرداشتہ ہوکر ہمیں موت کو گلے لگانا پڑ جاتا ہے ۔۔۔کبھی سیلاب کی زد میں آکر ہماری فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں تو کبھی حکمراں ٹولے کے لیڈران ہماری فصلوں کو اپنی گاڑیوں سے روند دیتے ہیں۔ہاں! میں وہی کسان ہوں جس کے بارے میں نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے رپورٹ پیش کی ہے کہ ہندوستان میں گذشتہ 20 برسوں میں تین لاکھ کسان خودکشی کر چکے ہیں۔ ہاں میں وہی کسان ہوں جس نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے جنتر منتر پر کئی ہفتوں تک دھرنا دیا؛ لیکن ہمارے مطالبات تسلیم نہیں کیے گئے، یہاں تک کہ ہم نے خود کا پیشاب پی کر بھی حکومت کو متوجہ کرنا چاہا؛ لیکن پھر بھی حکومت کے کانوں پر جوں نہیں رینگی۔۔ہم نے ننگا وبرہنہ ہوکر بھی احتجاج کیا پھر بھی ہماری باتیں نہیں سنی گئیں ۔

ہاں میں وہی کسان ہوں جو حکومت کے متنازع قانون کسان بل کے خلاف شدید ٹھنڈمیں دہلی کی سرحدوں کو گائوں بنانے پر مجبور ہوں،اپنے مطالبات پر ماہ ستمبر سے ڈٹا ہوا ہوں، اس جمود والی ٹھنڈی میں پانی کی بوچھاریں بھی ہمارے حوصلوں کو پست نہیں کرسکیں، احتجاج کررہے کسان بھائیوں کی اموات بھی ہمارے حوصلے کو نہیں توڑ سکیں؛ بلکہ ان اموات سے ہم احتجاجی کسانوں کو مزید حوصلہ ملا ہے اور ہم ایک نئی تاریخ رقم کرنے جارہے ہیں، ہم اپنی فصلوں سے امبانی و اڈانی کو عیش نہیں کرنے دیں گے، ہم سراپا احتجاج ہیں اور ہمارے احتجاج میں مزید شدت آئے گی، ہمیں پورے ملک کے کسانوں کا تعاون مل رہا ہے ، ہمارے معصوم بچے وبچیاں بھی اس مہم میں ہمارے ساتھ ہیں، گھروں کی زینت ہماری بہو بیٹیاںبھی ہمارے شانہ بشانہ ہیں، جب تک یہ قانون واپس نہیں لیاجاتا ہم ایک انچ بھی ہٹنے کو تیار نہیں ہوں گے۔ دہلی کی سرحدوں پر تو اب ہمارے گائوں آباد ہوگئے ہیں، طویل اور کٹھن سفرطے کرنے والے آبلہ پا کسانوں ، بوڑھی دادیوں اور ہاتھوں میں جھنڈے لیے ہوئے ہم کسانوں کے معصوم بچوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہم نہیں جھکیں گے، ہمارے ساتھ انصاف کیاجائے اور ہمیں یہ یقین دلایاجائے کہ یہ بل ختم کردیا گیا ہے۔ جوانوں کو کسانوں سے نہیں لڑایا جائےگا، جے جوان، جے کسان نعرے کی افادیت پر قدغن نہیں لگایاجائے گا، جوانوں کو ان کے حقوق اور ہم کسانوں کو ہمارے حقوق دئیے جائیں، اب ہم ان فریبوں اور جھانسوں کے راجائوں کے دام دجل میں نہیں آنےوالے ہیں ، ہمیں یہ بھی یقین دلایاجائے کہ ہمارے بچے پرسکون زندگی جئیں گے۔۔۔ہمیں قومی دھارے میں شامل کیاجائےگا؛ تا کہ ہم ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکیں ۔۔۔؛ہمیں یہ بھی یقین دلایاجائے کہ اب کوئی کسان دلبرداشتہ ہوکر خودکشی نہیں کرے گا؟ کوئی کسان قرض سے تنگ آکر کنوئیں میں نہیں کودے گا؟ ہمیں مناسب معاوضہ دیاجائے گا، ہماری زمینوں پر تجارتی مراکز قائم نہیں کیے جائیں گے ، ہمارے کھیتوں کو روند کر وہاں گودام نہیں بنائیں جائیں گے ، ہمیں یہ بھی یقین دلایاجائے کہ فصلوں کے گہن پنجاب کے کسانوں کو ہراساں نہیں کیاجائے گا، بھوپال میں ہمیں مرتا نہیں چھوڑا جائےگا ۔۔۔ناسک میں ہمیں لٹکنے پر مجبور نہیں کیاجائےگا ۔۔۔۔بہار میں ہماری بہتی لاشوں کو دیکھنے کی نوبت نہیں آئے گی ۔۔۔یوپی میں لٹتا ہوا نہیں چھوڑا جائےگا ۔۔۔تمل ناڈو میں برباد ہوتے ہوئے نہیں دیکھا جائے گا۔۔۔ جب یہ تمام مطالبات ہمارے تسلیم کرلیے جائیں گے تو ہمیں پھر کوئی اعتراض نہیں، ہم اپنے اپنے کھیتوں کو لوٹ جائیں گے،ساون کی بوندا باندی، چیت بیساکھ کی چلچلاتی دھوپ میں بھی اپنے کھیتوں میں ہنسی وخوشی کام کرکے ملک کے عوام کو سکون پہنچائیں گے، ملک کی گرتی ہوئی معاشی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کریں گے، شرح پیداوار میں اضافے کے لیے جہد مسلسل اور سعی پیہم کرینگے، گرتی ہوئی جی ڈی پی کو بڑھانے کے لیے ہر ممکنہ قربانی پیش کرنے میں سر فہرست رہیں گے۔

ہاں میں کسان ہوں
ویڈیو دیکھیں
پیشکش
نفیس اختر
اسسٹنٹ ایڈیٹر بصیرت آن لائن

 

Comments are closed.