Baseerat Online News Portal

ہاں! میں ہندوستان ہوں۔۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

ہاں! میں ہندوستان ہوں۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں انسانوں کے باپ حضرت آدم علیہ السلام نے اپناقدم مبارک رکھا۔۔۔مجھے ہزاروں سال پرانا ملک ہونے کاشرف حاصل ہے۔۔۔یہاں قبل مسیح اشوک بادشاہ سے لے کر مغل فرمانروا بہادر شاہ ظفر تک نے مجھ پر حکومت کی، کبھی میں ظالم حکمرانوں کے زیر دست رہا تو کبھی نیک دل اور عادل ومنصف فرماں رواؤوں نے مجھ پر عادلانہ ومنصفانہ حکومت کی۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں راجہ داہر جیسا ظالم، عہدو پیمان توڑنے والا بادشاہ گزرا تو وہیں اس کے غرور کو خاک میں ملانے کے لیے محمد بن قاسم جیسارحم دل جرنیل آیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں اکبر نے دین اکبری کی بنیاد ڈالی تواس کے دین اکبری کاپردہ چاک کرنے کے لئے مجددالف ثانی نے علم جہادبلندکیا، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں عالم گیر جیسے نیک دل بادشاہ نے حکومت کی، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جسے شاہجہاں نے ایک حسین تاج محل دیا، پر شکوہ لال قلعہ دیا۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں صوفی سنت آباد ہوئے، ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جہاں تاج محل، قطب میناراور لال قلعہ ہندوستان کی عظمت رفتہ کا شاہد و گواہ اور آزادی ہند کی خونچکاں المناک تاریخ اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ایستادہ ہے۔ ہاں!میں وہی ہندوستان ہوں جو کبھی سونے کی چڑیا کہلاتا تھالیکن اب لٹیرے وگھوٹالے بازوں کی وجہ سے کنگال و بھکمری کا شکارہے۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس چڑیے کو حاصل کرنے کیلیے انگریزوں نے یہاں اپناآہنی تسلط قائم کیا، یہاں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا، دو سو سال تک میری ہی دھرتی پرظالمانہ حکومت کرکے مجھے کھوکھلا کردیا، پھر میری دھرتی پر رہنے والے غیور ہندوستانیوں نے متحدہ ہندوستان کابل سے سری لنکا تک کو آزاد کرانے کی ٹھانی ،میرے لیے قربانیاں دیں، سب سے پہلے انگریزوں کے خلاف مسلمانوں نےہی علمِ جہاد بلند کیا۔۔۔۔ ہاں! میں وہی ہندوستان ہوں جہاں ٹیپو سلطان جیسا شیر میسور پیدا ہوا، جس کی موت پر انگریزوں نے فخریہ کہا تھا کہ آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔۔۔۔ ہاں! میں وہی ہندوستان ہوں جس کے لیے علما ء حق نے شاملی کے میدان کو آبادکیا، لاہور سے دہلی تک کے درختوں کو اپنے جان کی قربانی دے کر آباد کیا، دریائے راوی میں بہے، لاہوری جامع مسجد میں لٹکائے گئے ۔۔۔۔ہاں میں وہی ہندوستان ہوں جس کی آزادی کے لیے لاہور کے کوات لکھپت جیل میں بگھت سنگھ نے پھانسی کے پھندے کو چوما، منگل پانڈے نے بغاوت کی، شہید اشفاق اللہ خان نے جام شہادت نوش کیا، اور ایک دن ان مجاہدین آزادی کےخون نے اثر دکھایا اور میں 1947میں ملک آزاد ہوگیا ۔آزادکیاہوا؛ بلکہ یہ کہنازیادہ صحیح ہوگا کہ میری چھاتی کو دو حصوں میں چیرکر ایک ہی ماں باپ سے پیداہونے والے بھائیوں اوربہنوں کوالگ الگ ملک کاباشندہ بناکر ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے خون کاپیاسابنادیا۔ برسوں شیروشکر کی طرح ایک ساتھ رہنے والے بھولے بھالے انسان انگریز کے جال میں پھنس گئے، گنگا جمنی تہذیب کو فروغ دینے والے ایک دوسرے کے دشمن بن گئے اور انیس سو سینتالیس میں میری تقسیم کے وقت وہ خون خرابہ ہوا کہ شیطان بھی شرمندہ ہوگیا ،انسانیت کانپ اٹھی، ہر جگہ مہاجرین کی لاشیں نظر آنے لگیں، پنجاب کا گروداس پور خون سے سرخ ہوگیا، انسانی لاشیں تدفین کی منتظر مہینوں سڑکوں پر نظر آرہی تھیں ، تعفن زدہ ماحول قائم تھا، لیکن لوگ خوش تھے کہ انگریز ہندوستان سے چلے گئے، ملک آزاد ہوگیا، ہم آزادہوگئے؛ لیکن شاید دونوں طرف کے رہنے والے باشندوں کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ہم تورسما آزاد ہوئے ہیں، جمہوریت کا نام نہاد طوق گلے میں لٹکا دیا گیا ہے جہاں مجبور محض ہوکر زندگی گزارنی پڑے گی، عوام کے پاس طاقت نہیں ہوگی ،عوام محض مفلوک الحال ہوں گے، خیر کسی نہ کسی طرح ۱۹۴۷ کا طوفان گزر گیا، عوام خوش رہے کہ آزادہیں اورخدا کا شکر ہے کہ آزاد ہیں، لیکن آزادی کے بعد سے ہی جس قوم نےمیری آزادی کی خاطر سب سے زیادہ قربانیاں دیں، جہادِ آزادی کا فتوی دیا، اسے نشانہ بنانے کا عمل شروع ہوگیا، کانگریس نے اسے اپنے ووٹ بینک کی طرح استعمال کرنا شروع کیا تو بھگوادھاری اور زعفرانی پارٹیوں نے اسے ڈرا دھمکاکر رکھا اور ایک دن ایساآیا کہ میں شرمندہ ہوگیا، مجھے آزاد ہونے پر افسوس ہونے لگا، کانگریس کی چپی اور انگریزوں کے تلوے چاٹنے والی فرقہ پرست پارٹیوں نے تاریخی بابری مسجد کو آئین ہند بنانے والے بابا صاحب امبیڈکر کی یوم پیدائش پر شہیدکرکے یہ پیغام دے دیا کہ مسلمان جمہوریت پر یقین رکھیں،!!!.. ہمیں نہیں رکھنا، ہم ان کی مساجد وعبادت گاہوں کو مسمار کردیں گے، فسادات کے ذریعے ان کی املاک تباہ کردیں گے اور ۱۹۹۲ کے بعد کا نہ تھمنے والا ایساسلسلہ جاری ہوا جو ممبئی، بھیونڈی، ملیانہ، مرادآباد، اورنگ آباد ،نالندہ، بکسر، گجرات کے خونی ماحول سے ہوتا ہوا مظفر نگر تک پہنچا جہاں صرف ایک ہی قوم کو نشانہ بنایا گیا، اس کی معیشت کو تباہ کیا گیا، ان کی ہی ماؤں بہنوں کی عصمت لو ٹی گئی اور ستم بالائے ستم تو یہ ہوا کہ ان ہی سے حب الوطنی کا ثبوت بھی مانگا جانے لگا۔ اب میرا حال یہ ہے کہ مجھ پر جو میری آزادی کیلیے کبھی نہیں لڑے ان کی حکومت ہے اور جنہوں نے آزادیءِ ہند کے ذریعے مجھے اپنے خون سے سیراب کیا وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں، ان کا ملک میں جینا دوبھر ہے، عدلیہ ،مقننہ، حکومت، صحافت سب ان کے خلاف ہیں، پھر کاہے کا میں جمہوری ہندوستان؟ ، اب میں جمہوری ہندوستان نہ رہا، کچھ دن بعدسب لوگ جشن جمہوریت منائیں گے، اس میں وہ لوگ بھی شامل ہوں گے جوسچے دل سے مجھے جمہوری ملک تسلیم کرتے ہیں، میرے جمہوری دستورپریقین رکھتے ہیں اورملک میں امن وشانتی اورقومی یکجہتی کاپیغام عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورمیری جمہوریت کاجشن وہ لوگ بھی منائیں گے جنہوں نے میری جمہوریت اورمیرے دستورکامذاق اڑایا، اتناہی نہیں؛ بلکہ وہ لوگ ہرلمحہ اورہرپل میرے آئین اور دستور کو ختم کرکے میری سیکولرحیثیت کوچھین کرمجھے ہندوراشٹرمیں بدلناچاہتے ہیں؛ لیکن میں سوچ رہا ہوں کاش وہ عادل حکمراں پھر آجاویں جنہوں نے ہزاروں سال سال تک مجھ پر حکومت کی؛ لیکن کبھی ان کے دورِ حکومت میں فسادنہ ہوا، کبھی ملکی معیشت بے شرموں کی طرح نہ گری، اس دور میں میں سونے کی چڑیا تھا، کاش اے کاش! وہ عادل ومنصف حکمراں مجھے پھر نصیب ہوجائیں؛ تاکہ ہزاروں سال پرانی روایت باقی رہے اور ملک کے عوام سمیت میں خوشحال رہوں، میرے سینے پر بھگوا دھاری نفرت کے نعرے نہ بلند کریں؛ بلکہ ہندومسلم سکھ عیسائی سبھی آپسی محبت و بھائی چارگی کے ساتھ محبت کے زمزمے گائیں۔۔۔۔!

Comments are closed.