Baseerat Online News Portal

ہاں میں یوسف خان (دلیپ کمار) ہوں۔۔۔!

 

نازش ہما قاسمی

جی! شہنشاہ جذبات، مجاہد آزادی، علماء نواز، علم دوست، بزرگوں کا قدرداں، سیاست داں، کم گو، سنجیدہ وباشعور، باوقار، بارعب، باادب، اصول پسند،ہنس مکھ، ملنسار، منکسراورمتحمل مزاج، اردو داں، مصنف، بہترین ادیب، مطالعے کا شوقین، بہترین نقش ونگار والا، حسین صورت، شرمیلا، پشاوری تہذیب کا پروردہ، مشرقی تہذیب کا شیدائی، برصغیر کا فخر، سیکولرازم کا علمبردار، سابق بالی ووڈ اداکار، بہترین ہدایت کار، ۶۰ فلموں میں اپنے جلوئوں سے ناظرین کو حیرت میں ڈالنے والا، بین الاقوامی شہرت یافتہ متاثر کن شخصیت کا حامل، پدم بھوشن ، دادا صاحب پھالکے اورنشان امتیاز سمیت سینکڑوں ایوارڈ یافتہ یوسف خان المعروف دلیپ کمار ہوں۔ میری پیدائش آزاد ہندوستان سے قبل برطانوی دور حکومت میں ۱۱؍دسمبر ۱۹۲۲ کو پھلوں کے تاجر والد لالہ غلام سرور اعوان اور والدہ عائشہ بیگم اعوان کے ہاں خیبر پختون خوا کے شہر پشاور میں محلہ خداداد (قصہ خوانی بازار ) میں ہوئی۔میرے چھ بھائی اور چھ بہنیں ہیں، بھائیوں میں ناصر خان، احسان خان، اسلم خان، نور محمد اور ایوب سرور ہیں اور بہنیں فوزیہ خان، سکینہ خان، تاج خان، فریضہ خان، سعیدہ خان، اور اختر آصف ہیں۔ میری ابتدائی تعلیم ناسک کے قریب دیولالی کے بزنس اسکول میں ہوئی پھر ۱۹۳۲ کو میرا خاندان ہمیشہ کےلیے ممبئی آبسا، پھر یہاں میں نے انجمن اسلام اسکول سے میٹرک اور خالصا کالج سے گریجویشن مکمل کی۔ بڑا خاندان ہونے کی وجہ سے ہمارے گھر میں بڑے مسائل تھے، ابتدائی زندگی انتہائی کسمپرسی میں گزری، حالات انتہائی شکستہ اور ہم سبھی بھائی بہن حالات زار کے شکار تھے، تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے ۱۹۴۰ میں پونہ کے ملٹری کینٹن میں بطور اسسٹنٹ ملازمت اختیار کرلی وہاں سینڈویچ بنانے لگا، میرے سینڈویچ کافی مشہور تھے انگریز قابض شوق سے کھایا کرتے تھے اسی دوران میں نے پونہ میں انگریز کی مخالفت میں ایک تقریر کردی اور کہاکہ ہندوستانیوں کاآزادی کی جنگ لڑنا جائز ہے او ربرطانوی حکمراں غلط ہیں۔ اس تقریر کی پاداش میں مجھے جیل کی سلاخوں میں جانا پڑا؛ مگر جلد ہی وہاں سے رہا ہوگیا؛ لیکن جو نوکری تھی وہ ختم ہوگئی، پھر بے روزگار ہوگیا اور دوبارہ ممبئی آگیا یہاں آکر والد صاحب کے ساتھ کرافورڈ مارکیٹ میں اپنی دکان ’’غلام سرور اینڈ سنس‘‘ میں پھل اور خشک میوہ جات فروخت کرنے لگا ۔ پھل بیچنے کے دوران ہی ایک دن چرچ گیٹ سے دادر جانے کےلیے چرچ گیٹ ریلوے اسٹیشن پر کھڑا تھا وہاں میری ملاقات اپنے جان پہچان والے ڈاکٹر مسانی سے ہوگئی، وہ بامبے ٹاکیز کی مالکن اور اداکارہ دیویکارانی اور ان کے شوہر ہمانشورانی سے ملاقات کرنے جارہے تھے، ڈاکٹر مسانی کے اصرار پر میں بھی ان کے ہمراہ وہاں چلا گیا وہاں پہنچنے پر ڈاکٹر مسانی نے میرا تعارف کرایا اور میرے کام کے لیے بات کی۔ دیویکارانی نے مجھے سے اردو زبان کے متعلق سوال دریافت کیا اس سے پہلے کہ میں جواب دیتا ڈاکٹر مسانی نے میرے خاندان کے پاکستان سے ہندوستان پہنچنے کی ابتدا سے انتہا تک مکمل کہانی بتادی۔ جس کے بعد دیوکا رانی نے مجھے ۱۲۵۰ روپے ماہانہ نوکری کی پیشکش کی جسے میں ٹال گیا؛ لیکن ان کے اور ڈاکٹر مسانی کے سمجھانے بجھانے کے بعد میں نے حامی بھرلی اور ملازم ہوگیا۔ ۱۹۴۴ میں جوار بھاٹی نامی فلم میں مرکزی کردار کے لیے مجھے منتخب کرلیاگیا۔ میری کتاب ’سبسٹنس اینڈ دی شیڈو‘ کے مطابق دیویکا رانی نے انڈسٹری میں قدم رکھنے سے قبل نئے نام کی تجویز دی؛ تاکہ میرے فلمی کردار کی مناسبت سے عوام کے لیے انہیں دلیپ کمار پکارنا آسان ہو اور اس نام سے فلم انڈسٹری میں میری پہچان بھی بن سکے۔ جب دیویکا رانی نے میرا دلیپ کمار نام تجویز کیا تو اس وقت میں نام کو اپنانے کے بالکل حق میں نہیں تھا اور میں نے ان سے سے سوال بھی کیا کہ آیا یہ نام کی تبدیلی ضروری ہے ؟ اس پر دیویکا رانی نے وضاحت کی کہ وہ فلموں میں میرا کافی کامیاب مستقبل دیکھ رہی ہیں اور فلم انڈسٹری کے لیے ایسا اسکرین نام منتخب کرنا بھی مثبت ثابت ہوگا جس پر میں نے سوچنے کے لیے وقت طلب کیا اور دن رات اسی بارے میں سوچتا رہا میں نے پروڈیوسر ششی دھر مکھرجی سے اس بارے میں تذکرہ کیا جس پر انہوں نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ مجھے ہمیشہ یوسف کے نام سے ہی جانیں گے؛ البتہ فلم انڈسٹری کے لیے دلیپ کمار ایک اچھا نام ہے۔اسی دوران مجھے اداکار اشوک کمار کااصلی نام معلوم ہوا تو میرے سارے شکوک و شبہات دور ہوگئے اور میں یوسف خان دلیپ کمار بن کر اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا۔ ۱۹۴۴ سے ۱۹۹۸ تک مسلسل بالی ووڈ کی زینت بنا رہا، اس درمیان کئی فلمیں ناکام بھی ہوئیں؛ لیکن میرا ستارہ عروج پر ہی رہا اور میں بالی ووڈ کا سپر اسٹار بن گیا۔ میں نے ۱۱؍اکتوبر ۱۹۶۶ میں سائرہ بانو سے پہلی شادی کی ، ۱۹۷۲ میں وہ حاملہ ہوئیں لیکن ہمیں خوشخبری نہ مل سکی ۱۹۸۰ میں میں نے حیدرآباد کی اسماء رحمان سے دوسری کی لیکن یہ شادی زیادہ دنوں تک نہیں چل سکی اور ۱۹۹۳ میں میں نے علاحدگی اختیار کرلی اور سائرہ کے ساتھ رہنے لگا ، سائرہ نے پوری زندگی بے انتہا محبت کی اور لازوال محبت کی عظیم مثال قائم کردی، وہ میری بہترین شریک حیات ثابت ہوئیں اور اخیر دم تک میرے کاندھے سے کاندھا ملاکر کھڑی رہیں۔ ہاں میں وہی یوسف خان ہوں جو فلمی دنیا کی رنگینیوں میں رہ کر بھی اپنے ضمیر کی آواز سنتا رہا، میرا ضمیر مجھے مسلسل کچوکے لگاتا رہا کہ میں کہاں آگیا، میں فلمی دنیا میں رہ کر بھی دیگر مناہیات جس میں اکثر سپراسٹار ملوث ہوتے ہیں ان سے بچنے کی کوشش کرتا رہا، خدا نے مجھے ۲۰۱۳ میں حج کی دولت سے بھی سرفراز فرمایا، میں نے پوری زندگی کسی سے حسد نہیں کیا اور نہ ہی بغض وعناد رکھا ۔ اپنے ماضی پر شرمندہ ہوکر مولانا اشرف علی تھانوی کے خلیفہ اجل مولانا شاہ ابرارالحق ہردوئی ؒ سے رابطے استوار کیے اور ان کے در پر حاضری دینے لگا۔ان کے فیوض و برکات کی وجہ سے میں نے عمومی طور پر اس چکا چوند دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور آخرت کو سنوارنے کی فکر میں منہمک رہنے لگا۔ خدا سے لولگاتے ہوئے نماز کی پابندی کرنے لگا اور زیادہ تر وقت ذکرواذکار اور تلاوت میں صرف کرتا رہا۔ ۲۰۰۳ سے مسلسل میری طبیعت خراب رہی، اس درمیان کئی بار میرے انتقال کی افواہیں گردش میں آئیں؛ لیکن ہر بار خدا نے مجھے صحت سے نواز دیا بہرحال۷؍ جولائی ۲۰۲۱ کو وقت موعود آپہنچا اور میں نے ہندوجااسپتال ماہم میں آخری سانسیں لیں۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ روح فنا ہونے کی ساتھ ہی میرے اعمال کا سلسلہ بند ہوگیا ، غفور رحیم سے عاجز ولاچار بندے کی تو یہی امید ہے کہ وہ میرے گناہوں کو درگزر کرتے ہوئے اپنے دامن عفو میں لے کر مغفرت فرمادیں گے۔

Comments are closed.