Baseerat Online News Portal

ہماراپیارا وطن ہندوستان

مفتی اصغر علی القاسمی
امام و خطیب مسجد نورانی پادرائن پورہ بنگلور
1947ء میں جب ہمارا ملک بھارت آزاد ہوا ، اس وقت یہاں انگریزوں کابنایا ہوا قانون رائج العمل تھا ، آزادی کے پندرہ دن بعد یعنی 29 اگست1947 ء کو یہ طئے کیا گیا کہ ہندوستان کا کوئی اپنا آئین ہونا چاہئے ،جس میں تمام ہندوستانی باشندگان کے حقوق کا تحفظ ہو اور ان کی زندگی کی حفاظت و ضمانت ہو،اس کام کے لئے سات لوگوں پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے صدر ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈ کر تھے ، دستور ساز کمیٹی میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒ ، آصف علی خان ، خان عبد الغفار خاں، محمد سعد اللہ ،عبد الرحیم چودھری ، بیگم اعزاز رسول اور مولانا حسرت موہانی ؒ وغیرہ جیسے ذہین و فطین اور صاحب بصیرت مسلم اراکین شامل تھے ۔ اس کمیٹی نے دوسال گیارہ مہینے اٹھارہ دن یعنی تقریباً تین سال کی محنت وسعی کے بعد’’ آئین ہند‘‘ کو مرتب کیا ۔پھر ملک کو انہیں دفعات و آئین کے تحت جمہوری قرار دے دیا گیا۔ 482 اراکین اسمبلی نے مسودہ کے دستاویز پر دستخط کئے ۔جن میں 30مسلمان تھے۔24 ؍جنوری 1949 ء کو اسمبلی کا آخری اجلاس ہوا، جس میں ڈاکٹر راجندر پرشاد کو ہندوستان کا پہلا صدر جمہوریہ منتخب کیا گیا ،اور 26 ؍جنوری 1950ء کو آئین ہند نافذ کردیا گیا،اس وقت اس میں 395 دفعات اور 8شیول تھے ،لیکن وقتاً فوقتاً اس میں ترمیمیں ہوتی رہیں،اس کے نتیجہ میں اب آئین404دفعات اور9شیڈول پر مشتمل ہے ۔اس آئین نے ہندوستان کو سیکولر سوشلٹ ( لامذہب) یعنی حکومت کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوگا ،وفاقی طرز حکومت اور پارلیمانی نظام کے تحت چلنے والا ملک قرار دے دیا ۔
دستور ہند میں ہمارے بنیادی حقو ق کیا ہیں ؟
دستور ہند (Coustitution of india (کی رو سے ہر ہندوستانی باشندہ، سیاسی ، سماجی ، معاشی اور مذہی آزادی کے ساتھ پورے ملک میں جہاں چاہے زندگی گزار سکتا ہے ،ہر شہری کو دئے گئے بنیادی حقوق اس طرح ہیں : (۱) ہر شہری کو برابری کا حق (۲) کسی بھی مذہب کو اختیار کرے اس پر چلنے کاحق (۳) سماجی رسم ورواج پر عمل کرنے کا حق (۴) اپنی مرضی کی تعلیم حاصل کرنے کاحق (۵) ناانصافی اور ظلم کے خلاف عدالت سے چارہ جوئی کا حق (۶)ملک میں آزادی سے رہنے کا حق (۷) دستور ہند میں دئے گئے حقوق کی بازیابی کا حق۔تاریخ ہند عید جدید از ظفر بحوالہ عام معلومات 60
بنیادی حقوق میں ایک حق ’’ہر شہری کو آزادی سے رہنے کا حق بھی ہے‘‘ جس کے اندر چھ باتیں آتی ہیں ، جس کو چھ سو تنتر تائیں ‘‘ کہتے ہیں جو دستور کی دفعہ نمبر 19 کے تحت مذکور ہیں ،وہ یہ ہیں :(۱) تحریرو تقریر کی آزادی (۲) جلسہ وجلوس کی آزادی (۳) اپنے حقوق کے لئے انجمن اور یونین بنانے کی آزادی(۴) ملک میں کسی بھی حصہ میں گھر بنا کر رہنے کی آزادی(۵) ملک میں کسی بھی حصہ میں گھو منے پھر نے کی آزادی (۶) ملک می کسی بھی حصہ میں کاروبار کرنے کی آزادی ۔ایضاً
ہمارے ملک ہندوستان کی ایک بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ یہاں مختلف المذاہب(ہندو، مسلم،سکھ، عیسائی ،جین ،پارسی ، بدھسٹ) کے لوگ بستے ہیں ۔یہاں ایک طرف مندر سے بھجن کی آواز آتی ہے تو دوسری طرف مسجدسے اذان کی صداگونجتی ہے۔ ہندوستان کی بنیاد سیکولرزم پر ہے ،یعنی ملک کا کوئی مذہب نہیں ہے ،ملک دستور کی بنیاد پر چلے گا،اورملک کا دستور سیکولر یعنی جمہوری ملک ہوگا۔
لفظ جمہوریت) (Democracy یونانی زبان کے دو لفظ ’’ڈیمو ‘‘ ،کرسی ‘‘ سے مستعار ہے ، جس کے معنیٰ عوام کی حکومت کے ہیں ۔خلاصہ یہ کہ جمہوریت ایک طرز حکومت کانام ہے ۔چنانچہ ’’ ابراہم لنکن ‘‘کے بقول ، جمہوریت کا مطلب ہے کہ یہ عوام کی حکومت ہے جو عوام کے لئے بنتی ہے اور عوام کے ذریعہ وجود میں آتی ہے ۔موجودہ دور میں جمہورت سے بہتر کوئی دوسرا طرز حکومت پسندیدہ نہیں ہے۔اسی لئے دنیا کے اکثر ملکوں میں جمہوریت قائم ہے اور جہاں نہیں ہے وہاں کے باشندگان اپنی طاقت اور خارجی طاقت کے زور پر جمہوریت قائم کرنے کی کوششیںکررہے ہیں ۔مصر ، تیونس و غیرہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں ۔
کسی بھی جمہوری ملک میںاس کا دستور ہی اس ملک کی جان اور روح ہوا کرتا ہے ۔ہمارے ملک کی روح اور اس کی جان اس کا سیکولرہونا ہے ۔ہمارے ملک کے دستور کی دفعہ نمبر 14اور 15میں یہ بات صاف لکھی ہوئی ہے کہ ’’مملکت کسی شخص کو بھارت کے علاقہ میں قانون کی نظر میں مساوات یا قوانین کے مساویانہ تحفظ سے محروم نہیں کرے گی‘‘ ۔اور مملکت محض مذہب ،نسل ،ذات ،جنس ،مقام پیدائش یا ان میں سے کسی کی بناپر کسی شہری کے خلاف امتیاز نہیں برتے گی‘‘۔یعنی کسی بھی ہندوستانی کے ساتھ ذات ،برادری یا مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ اور تفریق نہیں کی جائے گی۔
تقسیم ہند کے وقت دو ملک وجود میں آئے ، ہندوستان اور پاکستان۔اس وقت72لاکھ62ہزار مسلمان پاکستان چلے گئے تھے ۔ اور72لاکھ49ہزار ہندو پاکستان سے ہندوستان آئے تھے۔بہرحال جن کو جہاں جاناتھا چلے گئے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی تعریف کرنی چاہئے کہ ان کے لئے پاکستان جانے کا راستہ کھلاہواتھا،مگر انہوں نے وہاں جانا پسند نہیں کیا۔ مسلمانوں نے مسٹر محمد علی جناح کے دوقومی نظریئے کو ٹھکراکر’’ ایک ساتھ جئیں گے ایک ساتھ مریں گے ‘‘کے جذبہ محبت اور خلوص ووفا کے ساتھ اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ رہنا پسند کیا اور ا سی ہندوستان کواپنا مسکن بنایاتھا۔
مگر موجودہ دور اقتدار میں ہندوستانیوںکے اندر ایسی مذہبی منافرت پیدا کردی گئی ہے کہ ایک مذہب کا آدمی دوسرے مذہب کے آدمی کو دیکھنے کے لئے تیار نہیں ۔سر پر ٹوپی دیکھ کر بھڑک اٹھتا ہے ۔اس پر حملہ کردیاجاتا ہے ۔اس کی عبادت گاہوں کو نذر آتش کردیتا ہے ۔ایسی حیوانیت کہ درندے بھی شرما جائیں ۔ایک بھیڑ کسی نہتے شخص کو مارمار کر ہلاک کردیتی ہے ۔ اس بھیڑ میں کسی کی شخص کی آنکھ میں پانی تک نہیں آتا۔ مالدار ، غریب کا مذاق اڑا تا ہے۔ طاقتور، کمزور پر ظلم کرتا ہے۔ تعصب برتا جاتا ہے ۔ ملازمت اور نوکریوں میں ڈگری اور علمی قابلیت کی بنیاد پر نہیں ، رشتہ داری اور قرباء پروری کی بنیاد پر ترجیح دی جاتی ہے ۔
اس لئے بجا طور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ ملک کو ابھی مکمل آزادی حاصل نہیں ہوئی ،آزادی کے معنیٰ صرف انگریزوں سے اور بدیسیوں سے آزادی نہیں،اور صرف سیاسی آزادی نہیں بلکہ سماجی ،معاشرتی ،تہذیبی، افلاس و بھوک مری سے آزادی ، غربت و نکبت سے آزادی ،بے روزگاری و بے علمی سے آزادی، تعصب و تنگ نظری سے آزادی ،قتل و غارت گری سے آزادی ،عبادت اور مذہبی امور کی آزادی، مساجد و مدارس کے قیام و تعلیم وغیرہ کی آزادی بھی شامل ہے۔
اگر ہمیں آزاد ہندوستان سے ملکی، سماجی ،اقتصادی، سائنس و ٹکنالوجی، ڈاکٹری اور دیگر مراعات سے فائدہ اٹھانا ہے تو سب سے پہلے ہمیں علم کے خزانے پر قبضہ کرنا ہوگا ، اپنے تاریخی اثاثوں کوبچانا ہوگا ،اپنے آباء و اجداد کی وراثت کو محفوظ رکھنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں علم کی دولت سے مالامال فرمائے ،آمین

Comments are closed.