Baseerat Online News Portal

!! ہندوستانی مسلمانوں کی اہمیت اور اس کے اسباب!!

از: ڈاکٹر شکیل علائی
(جنرل سکریٹری بزم قلم کار، گیا)
’’مولا ہاتھ بڑائیاں جَس چاہے تَس دے‘‘
(’’تمام عزّتیں‘ مرتبے اور بُزرگیاں خدا کے قبضے میں ہیں‘ جسے وہ چاہتا ہے‘ دیتا ہے۔‘‘)
’’مولا‘‘ بہ معنی : مالک‘ آقا‘ صاحب‘ والی‘ سردار‘ آزاد کیا ہوا غلام‘ مددگار‘ معاون ‘ دوست‘ شریک ، ساتھی، یار، ہمسایہ، پڑوسی……‘
’’ مـــطـلــب ‘‘
مسلمان وہ مومن ہے جس کا عقیدہ و ایمان مذہب اسلام پر ہے……‘
مذکورہ عبارت کی روشنی میں ویسے لوگوں کی جولانی تقریر جوان کے الفاظ ان کے گھن گرج والی آواز بلکہ Sound Pollution پھیلا نے کی ادا صرف ان کے تشخّص کو ظاہر کرتی ہے ویسے لوگ مسلمان کو ملک کاایک الگ حِصّہ مانتے ہیں۔ نیچ‘ ذلیل و خوار بھری زندگی کی علامت پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی ممکنہ کوشش کی ہے کہ مسلم قوم کی زندگی میں کبھی رونق نہیں چھانے والی ہے۔ علو‘م سے بے خبر‘ لا پرواہ اور بے نیاز مسلمانوں کے گھر میں زندگی کی مسکراتی ہوئی لہریں کبھی نہ کو ند نے والی ہیں۔ ان کے گھر کے احاطہ گندی نالیوں کے بہتے پانی میں سانس لیتے ہیں۔ ان مسلمانوں کے گھر کے ذرّے ذرّے میں سسکتی ہوئی بے بسی کے آنسوؤں کی نمی ہے۔ تڑپتے ہوئے دل کی خاموش کراہوں اور تمنّاؤں کی بوسیدہ لاشوں کے سوا اور کچھ بھی دِکھائی نہ دیتا۔ روح پر نشتر کیسے لگائے جا سکتے ہیں اور مسلمانوں کو کس طرح مجبور وبے بس بنا کر ایک مظلوم اور کمزور ہستی کو اپنی بے رحموں کا نشانہ بتانے والے ویسے لوگ اشتعال انگیز زبان کا استعمال کرتے ہیں اور وزیر اعظم و وزیر داخلہ کو بھگوان کا اَوتار سمجھ کر سجدہ ریزی کرتے ہیں۔ اسی لئے یہ کہنے پر میں مجبور ہو گیا کہ ہندوستان میں قوموں کو تفریق کر کمزور قوم پر ایسے ہی لوگ مُسلّط ہیں جو ان لوگوں کی شعلہ بیاں تقریر سننے کے بعد مجھے ویسے اِزم کی ایک مخصوص سیاسی پارٹی کی بدبو محسوس ہوتی ہے۔ جو ایک ہی سِکّے کے کئی پہلو ہیں۔ کوئی چت ہے تو کوئی پٹ، کوئی کھڑا تو کوئی بیٹھا ہوا‘ تو کوئی ٹیڑھا یا پھر اینٹھا ہوا۔
راکٹ داغ کر کسی انسان کا جان لینا ہی فاشزم نہیں بلکہ منھ سے تراشے ہوئے الفاظ بھی فاشزم کی علامت ہیں۔ دوران تقریر ان کے الفاظ سنگریزے گرد کے ساتھ اُڑ اُڑ کر چہرے پر اس طرح لگتے ہیں جیسے کوئی کنکریوں کو پچکاری میں بھر کر مار رہا ہو۔
جس طرح مسلم قوم کی فضیحت کی جاتی ہے، تضحیک آمیز لفظوں کا استعمال کران کی شناخت مٹائی جاتی ہے ویسے لوگوں کو یہ کہتے ذرابھی شرم نہ آئی جس وقت آکسفورڈ یونی ورسیٹی کی بنیاد رکھی جا رہی تھی تو دوسری طرف ایک ایسی بین الاقوامی عمارت ‘ جس کے حُسن کی شُعائیں پھیلتی محسوس ہوتی ہیں تاج محل کو محض ایک قبر کی تشبیح دے کر اسکے نظارہ کو مُتعصب نگاہوں سے دیکھا گیا۔ ایسی ہی فکر پھیلا کر ویسے لوگ اُمّت مسلمہ کو سیدھے پیچھے سے ہاتھ دے کر کنوئیں میں ڈھکیل دینے کی حرکت کر رہے ہیں تاکہ ان کے نام و نشان کا آخری نقطہ بھی مٹ جائے لیکن مسلم قوم نے اپنی شناخت خود بنائی‘ ویسے لوگوں کے دامن کو پکڑ کر نہیں، ان کے ہاتھوں کو چو‘م کر اور نہ ہی انہیں نذرانۂ عقیدت پیش کرکے۔ اپنے احساس وجذبات کی رگوں میں تاریخی کرنٹ لگا کر سوچ وفکراور شعور علم کو جھنجھنا جھنجھنا کر دیکھیں کہ ملک میں مسلمانوں کی قُربانی اور ان کے کردار کیا ہیں؟؟ مسلمانوں کا کردار اور ان کی قُربانیاں ملک کی ترقی میں لا ثانی رہا ہے۔ پہلے ملک مُتّحدنہ تھا۔ بے شمار راج رجواڑے تھے ریا ستیں تو تھیں لوگ حکومت کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے پورے ملک کو ایک کیا۔ بنگا ل سے افغانستان تک اس ملک کو مُتّحدکیا۔ پولیس اور ڈاک کا نظام قائم کیا۔ سب سے پہلی سڑک شیر شاہ سو‘ری نے بنوائی، جو گرینڈ ٹرک روڈ کلکتہ سے پشاورتک اس کی یاد گار ہے۔ کرنسی سلسلہ میں جو تبدیلی ہوئی وہ شیر شاہ سو‘ری نے کیا۔ ریونیو کے سِسٹم کو بھی شیر شاہ سو‘ری نے ہی جا ری کیا۔ جنگی نظام کی بات کریں تو ظہیر الدین بابر نے اس کی تشکیل کی۔ پہلا راکٹ شیر میسورٹیپو سلطان نے بنوایا تھا۔ فتح المجا ہدین کا خالق ٹیپو سلطان تھے۔ پہلی میزائیل ٹیپو سلطان نے بنوایا۔ آج کے میزائیل مَین اے۔ پی۔ جے ۔عبدالکلام ہیں ۔ پہلی بغاوت 1773ء؁ میں ہوئی تھی ۔ جس میں صوفیا ئے کرام اور فقراء حضرات سیاسی تحریک کا حِصّہ بنے ۔اَناج لُوٹ کر لاتے تو ہندو اور مسلمان دونوں میں بانٹتے تھے اپنے حِصّہ میں کبھی کچھ نہ رکھا۔ 1857ء؁ کی پہلی جنگ کے فتوح علّامہ فضل الحق آبادی تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جنگ کر دلّی کو فتح کیا تھا۔ لفٹنٹ جنرل کہا کرتے تھے کہ 1857ء؁ کی جنگ آزادی دراصل عُلمائے کرام کی اجازت سے ہوئی۔ اسی لئے تو بغیر کسی مُقدّمہ کے 27؍ہزار عُلمائے کرام کو پھانسی دے دی گئی اور ان میں سے سینکڑوں کو درختوں کی ڈالیوں پر لٹکا دیا گیا۔
مولوی قاضی علی امیر اور با بو رام چرن داس کو پھانسی دی گئی تھی۔ گردنیں دو تھیں لیکن پھندا ایک۔ ملک میں کئی ایسے ادارے ہیں جو مسلمانوں اور علمائے کرام کی دَین ہے۔ ان اداروں کے نام خصوصی طور سے چاند ستاروں کی روشنی کی طرح لئے جا سکتے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ یونی ورسیٹی دہلی‘ ہمدرد یونی ورسیٹی دہلی‘ علی گڑھ مسلم یونی ورسیٹی ‘ اُردو نیشنل یونی ورسیٹی حیدر آباد‘ انوار العلوم کالج حیدر آباد‘ شاداں کالج حیدر آباد‘ جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین دَبھلْ گجرات ‘ مدینتہ اُلعلوم باغباری آسام، خیاۃ ُالعلوم اسلامک اسکول میرٹھ ‘اسلامی پبلک اسکول لال کرتی میرٹھ‘ اورینٹل کالج پٹنہ سیٹی‘ مِرزا غالب کالج گیا‘ قاسمی ہائی اسکول گیا‘ ہادی ہاشمی ہائی اسکول گیا‘ اُردو گرلس ہائی اسکول معروف گنج گیا‘ آزاد ہائی اسکول چاکند گیا وغیرہ تو دوسری طرف دینی اداروں میں عُلمائے کرام اور دیگر مسلمانوں کا بھی اہم ترین رول رہا ہے۔ یہ دینی ادارے جو کافی تگ و دو کے بعد قائم کئے گئے ان کے نام اس طرح مخصوص ہیں۔ دا راُ لعلوم دیوبند‘ مظاہر اُلعلوم سہارنپور‘ مدرسہ شاہی مردا پور‘ ندوۃُالعلماء لکھنؤ‘ شاہین ادارہ جات گُلبر گہ کرناٹک‘ مدرسہ شمس الہدیٰ پٹنہ‘ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر‘ مدرسہ قاسمیہ اسلامیہ گیا‘ مدرسہ انوار اُلعلوم گیا‘ مدرسہ عین اُلعلوم گیا وغیرہ ایسے کئی بے شمار ادارے ہیں جو مسلمانوں کے خو‘ن کا عطیہ ہے ضرور کچھ اور ایسے ادارے ہونگے جو میرے ذہن سے سہو کر رہے ہیں۔ ویسے وہ تمام لوگ جو صرف مسلمانوں کی شخصیت کی دھجیاں اُڑائی ہیں۔ ایسے کتنے سینکڑوں ہزاروں نام ہیں جنہوں نے ملک کی جنگِ آزادی میں اپنا سب کچھ لٹا دیا اور اپنی حُبّ الوطنی کو پیش کر رضا کار انہ طور پر ملک کی خدمت کی اور ملک دشمن سے جان کی بازی بھی لگائی لیکن اب تو خصوصی طور پر دونوں قومی تیہواروں میں ان رہ نماؤں کے نام بھی نہیں لئے جاتے ہیں اسکولوں میں بچوں سے ان رہ نماؤں کے نام سے نعرے بھی نہیں لگائے جاتے اورنہ ہی ’’سارے جہاں سے اچھا‘‘ کے ترانہ کی لب کشائی ہی کرائی جاتی ہے۔ آج کی نسل ہر مسلم رہ نماؤں سے نا بلد ہے، حتیّٰ کہ مسلم بَچّے بھی ۔ اسی لئے تو ’’لب پہ آتی دُعاء‘‘ بھی بَچّوں کو یاد نہیں۔اب تو ان مسلم رہ نماؤں کی یوم پیدائش کے موقعہ پر نہ کوئی پروگرام آرگنائیز کئے جاتے ہیں اور نہ ہی یوم وفات کے موقعہ پر انہیں خراج عقیدت پیش کی جاتی ہیں۔ درج ذیل ان رہ نماؤں کا اگر نام نہ لیا جائے تو ساری عُمر کف ِ افسوس میں ہی گذر جائے گی۔ حکیم اَجمل خان‘ عبدالقیّوم خان‘ خان عبدالغفّار خان‘ ڈاکٹر ذاکر حسین ‘ حسرت موہانی‘ غلام حسین‘ ہدایت اللہ ‘ ٹیپو سلطان‘ حیدر علی‘ اشفاق اللہ خان‘ بدر الدین طیّب جی‘ محمد علی جوہر‘ محمد شوکت علی‘ سیّد محمد شرف الدین قادری‘ محمد عبدالرحیما ن‘ سرسیّد احمد خان‘ عبدالْعلی خان‘ مختاراحمد انصاری‘ عبدالمجید خواجہ‘ مولانا ابو الحسن ندوی‘ مولانا شبلی نعمانی‘ مولانا عبدالحق اعظمی‘ مولانا امجد علی اعظمی‘ مولانا عبدالحئی لکھنوی ‘ مولانا حسین احمد مدنی‘ مولانا ابولفاء اَلغانی شیخ الفق جامعہ نظامیہ حیدر آباد‘ مولانا سعید احمد اکبر آبادی دیو بندی‘ مولانا ابو الکلام آزاد ‘مولانا قاری فخر الدین قاسمی ارول کے شاہ زبیر وشاہ عمیر (دونوں بھائی) مغفور احمد اعجازی‘ ڈاکٹر سیّد محمود‘ پرافسر عبدالباری‘ مولانا مظہر الحق‘ مولانا منظور احسن اعجازی‘ عبدالقیّوم انصاری وغیرہ کے علاوہ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ ڈاکٹر ہدایت اللہ خان‘ فخر الدین علی احمد‘ اے۔ پی۔جے۔ عبدالکلام وغیرہ ایسے مجاہد ِ ملک ہیں جنہیں نہ صرف صدر جمہوریہ کی سرفرازی حاصل ہوئی بلکہ علمی و سائنسی اور سیاسی دنیا میں ان کے اہم رول بھی ہیں‘جو پورے ملک کی رگ رگ میں رچا بسا ہے۔ خواتین مجاہدہ رہ نماؤں میں اہم شخصیات بطور خاص ہیں۔ بیگم حضرت محل‘ رضیہ بیگم‘ چاند بی بی، ابدی با نو بیگم‘ حاجرہ بیگم‘ بیگم زینت محل‘ بیگم نشاۃ النساء موہانی‘ انیس بیگم قِدوائی‘ معصومہ بیگم‘ حاجرہ بی بی اسمٰعیل ‘ بی امّاں‘ اکبری بیگم‘ زاہدہ خاتون شیروانی‘ رضیہ خاتون‘ اصغری خاتون‘ عصمت آرا‘ صغرا خاتون‘ بیگم سکینہ لقمانی‘امجدی بانو بیگم‘ کلثوم سیانی وغیرہ۔
اب لوگ یہ بتائیں کہ مسلمانوں میں مرد و خواتین کی کتنی لمبی تعداد ہے بہت سارے نام تو ضرور رہ گئے ہونگے ویسے لوگوں نے اب تک کتنے مسلمانوں کو عافیت دی گئی‘ کیا مقام دیا گیا۔ کس کس کو اپنے دامن میں پناہ دیا۔ یہ بھی کہنا ایک تاریخی گواہ ہو گا کہ دَور جدید میں ایک پار سا و تقدّس پر ست مسلمان مولانا ارشد مدنی قاسمی اپنی تنظیم جمعیۃ الہند کے پلیٹ فارم سے سر گرم اور شعلہ افشاں تحریک کے راستہ پر خود کو کھڑا کر کے ان کتنے بے قصور نوجوانوں کو جسے دہشت گردی اور بے وجہ بد عنوانی کے نام پر ۱۴/۱۷/۱۸/۲۲/۲۴؍سالوں تک جیل کے ظلم یا فتہ اندرون خانہ سے نکال کر نئی زندگی عطا کی۔ واقعی یہ بھی ایک ایسا مجاہد ہے کہ جو مسلم قوم کا سچا رہبر بن کر دیگر دہشت گردوں اور جھو‘ٹ مُقدّمہ کرنے والوں کی جیسی تنظیموں سے پنگا لے کر ان نوجوانوں کے لئے ہرزاویہ سے گویا خود کو بچھا دیا۔ جان و مال اور اپنے ہر حرکت و عمل سے ہر لمحہ فکر میں مبتلا رہتا ہے۔ ایک ایسا مسلمان جس کے اوپر ’’مولانا‘‘ ہونے کا کبھی تَکبُّر نہ رہا۔ جس کے چہروں پر اضحلال کے بجائے ا طمینان اور دلوں میں رشک کے بجائے اعتماد کی کرنیں پھوٹتی ہیں۔ جس کے زمانے میں بے شمار گردشیں ہیں‘ جسے وہ جذبات کی سچّائی‘ خلوصِ قلب کے ساتھ ہر مشکل کو آسان بناتا جا رہا ہے کسی مسلمان کو تحقیر اور چھوٹے پن کا احساس نہیں دلا رہا ہے۔ اتنی بڑی قربانیوں کے با وجود بھی آنے والے دنوں میں ان کے پردہ فرماجانے کے بعد کوئی نام نہ لے گا اور نہ ہی ان کی کار گردگی پر روشنی ڈالی جائے گی ‘بلکہ قبر پر پڑنے والی مٹی کی طرح ان کے اوصاف پر بھی اتنی ہی مٹی ڈال دی جائیگی جس طرح کشن گنج کے مولانا اسرار الحق قاسمیؒ ؔ(ایم پی) کی متحرک زندگی کی سیاسی و سماجی‘ادبی اور دینی علمبر دار جیسی بلند پایہ کی شخصیت پر منوں مٹی ڈال دی گئی‘ کوئی کچھ بولنے والا نہیں ‘سبھی خاموش !!
صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جنگ آزادی میں ہندوستان کو آزاد کرانے والے ویسے ہزاروں علمائے کرام اور عام مسلمانوں نے اپنے جگر پر تیر اور گولی کا نشان قبو‘ل کر رحلت فرما گئے۔ صادق پور کے علمائے کرام کی لعشوں کو درختوں پر لٹکا دیئے گئے تھے ان مسلمانوں کے بہتے خون نے گنگا جمنا جیسی ندیوں کے بہتے پانی کی دھاروں کو بھی شرمندہ کر دیا تھا۔ آج مسلمانوں کو غدّار قوم اور دہشت گرد کی صف میں کھڑا کر اسکی یہی شناخت کرائی جاتی ہے مدرسوں کے بچوں کو دہشت گردی کی تعلیم سمجھی جاتی ہے۔ ان اداروں کی پہچان کو ختم کر ہندو ازم کا پوسٹر چسپاں کر نے کی تحریک چلائی جا رہی ہے۔ مارو سالوں کو گولی سے یا پھر کوئی شِدّت کا دنگا کراتا ہے تو ایسے لوگوں کو” "Zسیکوریٹی عطا کی جاتی ہے اور بے چارہ ہر قصور سے جو محروم ہے اسے جیل کی سلاخوں میں ڈال کر جسم پر آبلے پھوڑے جاتے ہیں ڈاکٹر کفیل جیسے باوقار شخص کو بھی ذہنی و جسمانی اَذیِّت میں رکھا گیا ۔ کہا جاتا ہے کہ لفظوں کے استعمال سے کسی کے کردار و سنسکار اور اس کے روِش کا پتہ چلتاہے اب تو ہمارے ملک کے صو‘فئی آعظم بھی محفوظ نہیں ہیں جنہیں کوئی ہندو ازم کا لیڈر بے خوف و خطر اور بے حد بے باک غیر مستعمل لفظوں اور گندے وغیر ذمّہ دارانہ انداز میں ’’حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ‘‘ کی تضحیک و تذلیل کر ان کی پاکیز گی پر انگشت نمائی کی اور جب اس بدمعاش کے خلاف آواز اُٹھائی گئی تو ایسے لوگوں کو دہشت گردی سے منسوب کر سزاد لانے کے لئے قانون کے آرٹکل تلاش کئے جاتے ہیں۔
اگر حضرت خواجہؒ کے دھمکتے سینوں سے ایک آہ پرواز کر گئی تو پھر ہندوستان کا کوئی ایسا قانون یا کوئی آرٹکل اسے بچالے تو جانیں……!!
گویا ہندوستان محض ایک قوم اِزم کا ایک مخصوص حِصّہ بن کر رہ گیا ہے۔ صرف مذہب اور تعفّن سے بھری سیاست کے نام پر چمکتی تلواروں کو فضا میں لہرا کر نفرت و بغض کی آبیاری کی جارہی ہے۔ تعلیم اور ذریعہ معاش سے اب یہ ملک محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ ملک اب بھسان بن گیا ہے جہاں اِزم کا ہر جانور ننگا گھو‘م رہا ہے۔ سر حد پار ممالک کے علاوہ دیگر کئی بڑے بڑے ممالک بھی ہندوستان جیسے عظیم جمہوری ملک کی طبعی، معاشی، سیاسی اور سماجی حالات پر زیر لب مسکراتے رہتے ہیں اور روز بہ روز اس ملک کی حالت سے نہ صرف وہ واقف ہو رہے ہیں بلکہ ہمارا یہ ملک دنیا کی نظروں میں ایک بھدّا سا مذاق لگنے لگا ہے۔ جس کے سبب حیثیت و معیار کا ہر زاویہ کج ہوتا جا رہا ہے۔
ندا فاضلی کے یہ اشعار بے حد موزوں ثابت ہوں گے۔
؎ اپنا غم لے کر کہیں اور نہ جایا جائے
گھر میں بِکھری ہوئی چیزوں کو سجایا جائے
؎ یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

Comments are closed.