Baseerat Online News Portal

ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات :موانع اور مواقع

میزان بصیرت

مصنف : ایچ عبدالرقیب؛ صفحات : ۲۹۶؛ اشاعت : نومبر ۲۰۱۸ء؛ قیمت: -؍۳۰۰ روپے
ناشر: انڈین سنٹر فارا سلامک فائنانس، ریڈینس بلڈنگ، ڈی ۳۰۷؍ اے، دعوت نگر،ابولفضل انکلیو، نئی دہلی۔۲۵
مبصر: ڈاکٹر محمد واسع ظفر
استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
اسلام ایک مکمل اور جامع نظام حیات پیش کرتا ہے۔ اس نے انسانیت کی رہنمائی صرف مذہبی عقائد و عبادات میں ہی نہیں بلکہ تعلیمی، معاملاتی،اخلاقیاتی، معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی تمام ہی میدانوں میں کی ہے۔ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے زندگی کے ان تمام شعبوں میں احکام الٰہی اور اسوئہ رسول کاپابند ہو اور ان میں ہی اسے اپنے دنیوی و اخروی مسائل کا حل اور کامیابی نظر آئے۔ لیکن بدقسمتی سے مسلمانوںنے عقائد و عبادات کے علاوہ دیگر شعبوں میں اسلامی تعلیمات کو پوری طرح سے گلے لگانے میں کوتاہی کی جس کے نتائج بد کو وہ بھگت رہے ہیں۔ انہیں میں سے معاشیات و مالیات کا شعبہ بھی ہے جس کو اگر یہ کہا جائے کہ یکسر نظرانداز کرکے مسلمان اسباب معیشت سے جڑے ہیں تو بے جا نہ ہوگا، الا ماشاء اللہ، حالانکہ اس شعبے میں بھی اسلام کی مکمل رہنمائی موجود ہے لیکن ان تعلیمات سے بے گانہ ہونے کی وجہ سے لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں حتی کہ بعض تو یہ تک خیال رکھتے ہیں کہ ان تعلیمات پر آج کے دور میں عمل دشوار ہی نہیں ناممکن ہے جب کہ اسلام ایک آفاقی اور ابدی مذہب ہے جو اپنے اندر قیامت تک رونما ہونے والے مسائل کا حل سموئے ہوئے ہے۔ اس رویہ کے نتیجہ میں ہی مسلمانوں کو معاشی بدحالی، بے برکتی ، پستی اور ذلت نصیب ہوئی ہے اور عالم انسانیت بھی اسلام کی معاشی تعلیمات کے فوائد و برکات سے محروم رہی۔
اس معاشی بدحالی سے نکالنے کے لئے علماء دین اور مصلحین ملت ہر دور میں سامنے آئے اور اسلام کی ان روشن معاشی تعلیمات کو وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے امت کے سامنے پیش کیا اور انہیں ان پر عمل پیرا ہونے کی طرف متوجہ کیا ہے۔چنانچہ مسلمانوں کے علمی ذخیرہ پر اگر ایک نگاہ عمیق ڈالیں تو بے شمار تحریریں کتابوں، مقالات اور فتاویٰ کی شکل میں معاشیات سے متعلق موضوعات پر ملیں گی۔ چند ائمہ حدیث اور ائمہ مجتہدین کی تصانیف اس سلسلہ میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔مثال کے طور پر امام ابو یوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘، امام محمد بن حسن شیبانیؒ کی ’’کتاب الکسب‘‘، امام ابوعبید القاسم بن سلامؒ کی ’’کتاب الاموال‘‘، امام ابوبکر عبداللہ بن محمد ( معروف بہ ابن ابی الدنیا) کی تصنیف ’’اصلاح المال‘‘ وغیرہ۔ہند و پاک کے علماء کرام نے بھی اس علمی ذخیرہ میں کافی اضافہ کیا ہے۔ان میں سید مناظر احسن گیلانیؒ کی کتاب ’’اسلامی معاشیات‘‘، مفتی تقی عثمانی دامت برکاتہم کی تصانیف ’’اسلام اور جدید معیشت و تجارت، ’’اسلام اور جدیدمعاشی مسائل‘‘ نیز "An Inroduction to Islamic Finance” ، جناب محمد ایوب کی ’’اسلامی مالیات اسلامی بینکاری: اصول اور تطبیق‘‘، ڈاکٹر محمود احمد غازی کی ’’محاضرات معیشت و تجارت‘‘، اور ڈاکٹر محمدنجات اللہ صدیقی کی تصنیف ’’مسلمانوں کے معاشی افکار‘‘ بہت ہی اہمیت رکھتی ہیں۔ اسلامی بینکنگ اور تجارت کے موضوع پر ہند وپاک کے علماء کی ان کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف ہیں جن کا احاطہ کرنا یہاں دشوار بھی ہے اور غیر ضروری بھی۔
بہرحال اسی سلسلہ کی ایک تصنیف جناب ایچ عبدالرقیب صاحب کی’’ہندوستان میں اسلامی معاشیات اور مالیات :موانع اور مواقع‘‘ ہے جو کہ حال ہی میں نظر سے گزری۔موصوف انڈین سنٹر فار اسلامک فائنانس (ICIF) ، نئی دہلی کے جنرل سیکریٹری اور ملک میں اسلامی معاشیات و مالیات، اسلامی بینکنگ (بلا سودی بینک کاری) ، اسلامی انشورنس (تکافل) اور اسلامی سرمایہ کاری کی تحریک کے روح رواں ہیں۔وہ خود بھی لیدر انڈسٹری سے جڑے ایک کامیاب تاجر ہیں ، اسلامی اور تحقیقی ذہن رکھتے ہیں اور عالمی سطح پر اسلامی معاشیات اور فائنانس کے شعبے میں ہونے والے تجربات پر ان کی گہری نگا ہ ہے۔ یہ کتاب مصنف کے ان مضامین اور خطبات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اسلامی معاشیات و مالیات ، اس کے مختلف پہلوؤں اور مسلمانوں کی معاشی ترقی کے ھدف کو پیش نظر رکھ مختلف مواقع پر لکھاہے اور ماہرین فن کے سامنے پیش کیا ہے۔ اپنے ان مضا مین کو انھوں نے پانچ ابواب کے تحت جمع کیا ہے جن میں سے ہر ایک کے اندر کئی مضامین شامل ہیں۔
باب اول جو ’’اجتماعی نظم زکوٰۃ‘‘ کے نام سے موسوم ہے ، کے تحت چار مضامین شامل کئے گئے ہیں جن میں سے تین تو زکوٰۃ کے اجتماعی نظم، دین میں اس کی اہمیت و افادیت اور دور حاضر میں مسلمانوںکی غربت و افلاس اور پس ماندگی کو دور کرنے کے سلسلے میںاس کے قیام کی ضرورت پر مرکوز ہیں اور چوتھا مضمون اقوام متحدہ کے پندرہ سالہ پائیدار ترقی کے ا ہداف میں زکوٰۃ اور اسلامی سرمایہ کاری کے کردار پر مبنی ہے۔موصوف نے اول الذکر زمرے کے دو مضامین میں سچر کمیٹی رپورٹ ، قومی کمیشن برائے کار اندازی ، ترقی غیر منظم سیکٹر کی ۲۰۰۷ کی رپورٹ، مردم شماری ۲۰۱۱ کی رپورٹ اور چند اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر مسلمانوں کی معاشی بدحالی کا نقشہ کھینچا ہے اور ملت اسلامیہ کے باشعور مرد و خواتین کو ان کی معاشی پس ماندگی کو دور کرنے کے لئے اقدامات کرنے کی طرف متوجہ کیا ہے۔ امام غزالیؒ اور امام شاطبیؒ کے حوالہ سے وہ شریعت کا مقصد انسانوں کے دین، جان، مال، نسل اور عقل کی حفاظت بتاتے ہیں اور یہ بھی لکھتے ہیں کہ علمائے عظام اس بات کے قائل ہیں کہ تمام شہریوں کی ان بنیادی ضروریات کو پورا کرنا کسی سوسائٹی کے لئے اجتماعی طور پر فرض کفایہ ہے۔ جان کی حفاظت میں صحت کا تحفظ بھی شامل ہے جس کے لئے غذا، کپڑا اور مکان ضروری ہیں اور ان سب کا تعلق انسان کی معاشی صورتحال سے ہے۔لیکن ان تمام بنیادی ضروریات میں بھی سب سے نازک مسئلہ انسان کے دین و ایمان کا ہے ۔ موصوف کے مطابق فقر و فاقہ ایک ایسا فتنہ ہے جو انسان کو بعض اوقات کفر تک پہنچا سکتا ہے اس لئے اس کے ازالہ کے لئے کوشش کرنا ملت کے ہر باشعور شخص کی ذمے داری ہے۔اس سلسلے میں وہ احادیث و آثار اور فقہاء کی آرا سے استدلال کرتے ہیں اور قرن اول میں زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے اجتماعی نظام کو جس کی تفصیلات بھی انہوں نے پیش کی ہیں، اسی نظریہ سے دیکھتے ہیں۔اللہ رب العزت کا فرمان{خُذْ مِنْ اَمْوَالِھِمْ صَدَقَۃً تُطَھِّرُھُمْ وَ تُزَکِّیھِمْ بِھَا} ’’آپ ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انہیں پاک کردیں اور اس کے ذریعہ ان کا تزکیہ کریں‘‘ (التوبہ:۱۰۳) اور نبی کریم ﷺ کا معاذ بن جبلؓ کو یمن بھیجتے وقت یہ ہدایت دینا ’’تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِھِمْ فَتُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِھِمْ‘‘ ’’(زکوٰۃ) ان کے دولت مندوں سے وصول کی جائے اور پھر ان کے محتاجوں میں تقسیم کی جائے‘‘ (صحیح بخاری، باب وجوب الزکوٰۃ )، ان کے مطابق اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی اور یہ نصوص زکوٰۃ کے اجتماعی نظام پر دال ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کا مانعین زکوٰۃ سے جنگ کرنا بھی فقراء و مساکین کو ان کا حق دلانے کی اجتماعی کوشش کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے ۔
ہمارے دیار میں زکوٰۃ کی تقسیم انفرادی طور پر کی جاتی ہے جس سے مستحقین میں سے ہر ایک کے حصے میں چند سو روپے، چند کلو اناج یا چند گزکپڑے آتے ہیں جن سے اس کی ضرورتیں ایک محدود وقت تک کے لئے تو پوری ہوجاتی ہیں لیکن اس کے بعد وہ پھر تنگ دست و تہی دست ہی رہتا ہے اور ہمیشہ مدد کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا رہتا ہے جب کہ موصوف کے مطابق زکوٰۃ کے ذریعے دراصل فقراء و مساکین کی بازآبادکاری (Rehabilitation) مقصود ہے تاکہ ان کی محتاجی مستقل طور پر ختم ہو جو کہ زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے منظم اجتماعی نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ اموال زکوٰۃ کی صحیح تقسیم کے ذریعے نہ صرف بوڑھوں، بیواؤں ، اپاہجوں و معذوروں اور د ائم المریض افراد جن کو غیر پیداواری غربا (Non-Productive Poors) کے زمرے میں ڈالا جاسکتا ہے، کی مستقل امداد کی جاسکتی ہے بلکہ بہت سے صحت مند افراد جو سرمایہ کی کمی، ہنر کے فقدان یا ضروری آلات کی کمی کی وجہ سے اپنا کاروبار نہیں کرسکتے لیکن پیداواری صلاحیت (Productive Ability) رکھتے ہیں ،کو تجارت و صنعت کے لئے سرمایہ فراہم کراکر، ہنر سکھا کر یا مشین و آلات فراہم کرکے کمانے کے لائق اور خودکفیل بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں وہ ملیشیا اور جنوبی افریقہ جیسے ملکوں میں کی گئی کوششوں کوبطور مثال پیش بھی کرتے ہیں تاکہ ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکے۔
اجتماعی نظم زکوٰہ سے متعلق تیسرے مضمون میں مصنف نے جہاں دور نبویؐ کے نظام زکوٰۃ کی تفصیلات پیش کی ہیں وہیں علمائے کرام اور مدارس اسلامیہ کے تعاون کو اس سلسلے میں نا گزیر بتایا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ملک میں زکوٰۃ کے اجتماعی نظام کو دور نبوی اور دور خلفاء راشدین کے طرز پر چلانے کے لئے علمائے کرام کے تعاون کی سخت ضرورت ہے اور اسی کے ساتھ اسلامی معاشیات اور فقہ المعاملات المعاصرہ کو دینی مدارس کے نصاب کا اہم حصہ بنانے کی ضرورت ہے ۔ غربت و فاقہ کشی کی حقیقی صورت حال جاننے کے لئے جدید انداز میں سماجی اور معاشی سروے کرنا اور ان کے اعداد و شمار کا ریکارڈ رکھنا ہوگا اور اسی طرح زکوٰۃ کی وصولی کے لئے انسانی نفسیات کی تفہیم اور شخصی روابط کے فن سے آگاہی، حساب کتاب کا جدید علم (اکاؤنٹنسی اور آڈیٹنگ) اور تقسیم زکوٰۃ کے لئے موجودہ الیکٹرانک سسٹم کی جانکاری ضروری ہے ۔ اس کے لئے مدارس اسلامیہ میںخصوصی کورسس کا اہتمام کرنا ہوگا۔ اسلامی فقہ ایکڈمی جیسے موقر اداروں کو ورلڈ زکوٰۃ کونسل جیسی تنظیموں سے تعاون حاصل کرکے ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘ (صفحہ ۶۴)۔ فاضل مصنف کے یہ خیالات بالکل درست ہیں لیکن اہل مدارس کے ذہنوں میں بھی اجتماعی نظم زکوٰۃ کے سلسلہ میں کچھ سوالات ہیں، اگر وہ ان پر روشنی ڈال کران کے خلجان کو رفع کرنے کی کوشش کرتے تو اور بھی بہتر ہوتا۔ سب سے بڑا مسئلہ مدارس کی فنڈنگ کا ہے جو کہ عموماً زکوٰۃ کی رقموں سے ہی چلتے ہیں۔اجتماعی نظم زکوٰۃ میں انہیں کس طرح فنڈنگ کی جائے گی اور اس کے کیا ضابطے اور طریقہ کارہوں گے، نیز مدارس کے اندرونی معاملات میں بیت المال کے ذمہ داران اور امرا کی مدخلت کا بھی امکان ہے، اسے کس طرح روکا جائے گا وغیرہ۔
باب اول کا چوتھا مضمون جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا اقوام متحدہ کے پندرہ سالہ پائیدار ترقی کے ا ہداف میں زکوٰۃ اور اسلامی سرمایہ کاری کے کردار پر مبنی ہے۔ واضح ہو کہ اقوام متحدہ نے ۲۰۱۵ ء؁ میں ترقی کا ایک پندرہ سالہ منصوبہ تیار کیا تھا جسے ’پائیدار ترقی کے اہداف‘ (Sustainable Development Goals) کا نام دیا گیا جس کے اہم مقاصد میں غربت کا خاتمہ، کرہ ارض کی حفاظت اور عالمی امن و خوش حالی کو یقینی بنانا شامل ہے۔اس مضمون میں مصنف نے اس اہم منصوبے کے حصول کے لئے اقوام متحدہ کے مختلف فیصلوں اور اقدامات کا تذکرہ کیا ہے جس میں اسلامی سرمایہ کاری کے نئے طریقوں کا مؤثر استعمال، اسلامی فائنانس کے اداروں سے پائیدار اشتراک اور زکوٰۃ کی منصوبہ بند تقسیم بھی شامل ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارہUNDP نے انڈونیشیاکے زکوٰۃ کی تحصیل و تقسیم کے ادارہ BAZNAS کے اشتراک سے ایک دستاویز بھی تیار کیا ہے جس کا نام ’’زکوٰۃ کا رول پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول میں ممکنہ حصہ داری‘‘ (The Role of Zakat in Supporting the Sustainable Developmental Goals) رکھا گیا ہے۔ اس دستاویز میں جہاں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ مذاہب سماجی تبدیلی میں ایک متحرک قوت ہوتے ہیں اور مذہبی ادارے امن و سلامتی، ترقی و خوش حالی اور برداشت و تحمل پیدا کرنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں ، وہیںقرآن کے حوالہ سے زکوٰۃ کی فرضیت اور سماج کے کمزور اوردبے کچلے افراد کو اونچا اٹھانے میں اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس دستاویز میں بھی اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ زکوٰۃ کو اگر اجتماعی طور پر حاصل کرکے ایک منصوبہ بند طریقہ سے تقسیم کیا جائے تو آج کے مستحقین زکوٰۃ کل کے زکوٰہ دہندہ ہوسکتے ہیں۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری اسلامی تعلیمات اوراسلامی معاشی نظام میں دنیا کی بہتری دیکھ رہے ہیں اور انہیں یہاںعالمی مسائل کا حل نظر آرہا ہے لیکن اُن کی اِن پیش قدمیوں سے بھی بہت کم مسلمان واقف ہیں۔ جناب عبدالرقیب صاحب نے اپنی اس تصنیف کے ذریعہ ان کو منظر عام پر لاکر ایک کار خیر کیا ہے۔
باب دوم ’’اسلامی معاشیات کے چند اہم پہلو‘‘ کے تحت پانچ مضامین شامل کئے گئے ہیں؛ ـ’آج کے معاشی مسائل اور ان کا حل‘، ’معاشی جد وجہد کا صحیح تصور‘،’ مسجد کو خدمت خلق کا مرکز بنائیے‘، ’مدینہ مارکیٹ ‘ اور’انشورنس کی حیثیت اور تکافل کی ضرورت‘۔ پہلے مضمون میں دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کو آج کے دور کا اہم مسئلہ بتایا گیا ہے کہ دولت سمٹ کر ایک خاص طبقہ میں محدود ہوگئی ہے اور مزید ہوتی جارہی ہے جب کہ اسلام کی معاشی پالیسی قرآن حکیم کے مطابق یہ بیان کی گئی ہے: {کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ} یعنی دولت تمھارے مال داروں ہی کے درمیان گردش نہ کرتی رہے۔ (الحشر:۷)۔ بہ نظر مصنف اسی لئے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ نے امیروں کے مال میں غریبوں کا حق بتایا، نیز انہیں اپنے مال کو تجارت و انسانی ضروریات کی اشیاء کی پیداوار میں لگانے کا واضح اشارہ دیا جس سے غریبوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور ارتکاز دولت سے بچنے کے لئے ہی سود، بیع غرر، خالص نفع خوری اور ممنوعات اور تعیشات کی پیداوار میں سرمایہ کاری سے روکا ہے۔ مصنف کی رائے یہ ہے کہ مال و دولت کے سلسلے میں صحیح اور متوازن تصور اختیار کرنے کی ضرورت ہے، قرآن نے مال ودولت کو انسانی زندگی کے قیام کا ذریعہ بتایا ہے، نیز اسے’ اللہ کا فضل‘ اور ’خیر‘ سے تعبیر کیا ہے اور انسانی معاشرے کے لئے اس کی وہی حیثیت ہے جوانسانی جسم میں خون کی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی معاشی بہتری کے لئے اسلامی اصولوں اور اعتدال کے ساتھ معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینا چاہیے اور کسب معاش ( جس کو مصنف نے تکوین دولت کہا ہے) کے مختلف ذرائع کو استعمال کرنا چاہیے خصوصاً تجارت اور صنعت و حرفت جیسے شعبوں کواختیار کرنا چاہیے۔ ضروری اشیاء کی پیداواری سے جڑے شعبوں میں بہترکارکردگی کے لئے مختلف علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔خواتین بھی شریعت کے دائرہ میں رہ کر معاشی سرگرمیوں میں حصہ لے سکتی ہیں جس کی مثال قرن اول میں بھی موجود ہے جن میں سے کچھ کا نام مصنف نے پیش بھی کیا ہے۔ آج کے معاشی مسائل کے تحت مصنف نے ہمارے معاشرے میں رائج تلک، جہیز اور شادی کی دیگر رسوم و رواج کا بھی ذکر کیا ہے جس نے کئی طرح کے فسادات کو جنم دیاہے منجملہ اس کے یہ بھی ہے کہ لڑکی والوں کی معاشی طور پر کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ انہوں نے آسان، سادہ اور مسنون طریقہ سے نکاح کرنے کی وکالت کی ہے اور اس سے ملت کی معاشی صورت حال میں بڑی مثبت تبدیلی کی امیدیں جتائی ہے۔
دوسرے مضمون ’معاشی جد وجہد کا صحیح تصور‘ میں مصنف نے نصوص کی روشنی میں بیوی، بال بچوں، والدین کی کفالت اور خود کو دوسروں کی محتاجی سے بچانے کے لئے معاشی سرگرمیوں میں حصہ لینے والوں کی فضیلت بتائی ہے کہ ان کی کاوشیں فی سبیل اللہ شمار ہوں گی اور ان کے اخراجات پر صدقہ کا ثواب ملے گا۔ یہاں انہوں نے اس بات کی بھی ترغیب دی ہے کہ اپنے اہل و عیال کے ساتھ سماج کے کمزور طبقہ کا بھی حق ادا کیا جائے نیز کچھ حصہ بچت کرکے کاروبار یا کاشت جو کچھ بھی ہو اس کی بقا اور ترقی کے لئے بھی سرمایہ کاری کی جائے۔ باب دوم کے تیسرے مضمون ’ مسجد کو خدمت خلق کا مرکز بنائیے‘ کے تحت مصنف نے اسلام میں مسجد کی اہمیت اور اس کے استعمال کے وسیع دائرے کو پوری وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے جس میںاہم انسانی ضروریات بالخصوص تعلیم و تربیت اور خدمت خلق بھی شامل ہے نیز اس بات کی وکالت کی ہے کہ مساجد کے انقلابی کردار کو بحال کرنے کی سعی کی جائے اور اسے خلق خدا کی خدمت و مودت کا مرکز بنایا جائے۔
چوتھے مضمون ’’مدینہ مارکیٹ: سیرت نبوی کا ایک گمنام گوشہ‘‘ میںمصنف نے اس بات پر زور ڈالا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ منورہ میں ایک مثالی اسلامی معاشرہ اور ایک آئیڈیل اسلامی ریاست قائم کرنے کے لئے صرف مذہبی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی بنیادوں پر ہی کام نہیں کیا بلکہ معاشی ضروریات کو بھی پیش نظر رکھا ہے ۔ معاشی خوش حالی و ترقی کے لئے مدینہ مارکیٹ کا قیام، صحابہ کرامؓکو وہاں کی تجارتی سرگرمیوں میں شریک ہونے کی ترغیبیں دینا اور اس کا انتظام و انصرام سیرت نبویؒ کا ایک تابناک باب ہے جو بقول ان کے ہماری نظروں سے اوجھل ہے ۔ اس لئے انہوں نے مدینہ مارکیٹ کی تفصیلات پیش کی ہیں اور دور نبویؒ میں اس کے انتظام و انصرام کا بہترین نقشہ کھینچا ہے نیز اس کا بھی ذکر کیا ہے کہ مارکیٹ پر یہودیوں کی اجارہ داری کو توڑنے کے لئے آپؐ نے کیا اقدامات کئے جو کہ دور حاضر کے مسلم تاجروں کے لئے رہنمائی کا اہم باب ہے۔
پانچویں مضمون ’’انشورنس کی حیثیت اور تکافل کی ضرورت‘‘ میں انشورنس، اس کے مختلف اقسام، موجودہ انشورنس کی خامیاں زیر بحث لائی گئی ہیں ، اس تعلق سے فقہاء کی آراء پیش کی گئی ہیں اور تعاونی انشورنس یا تکافل (انشورنس کی اسلامی شکلیں جو کفالت باہمی کے اصول پر مبنی ہو) کو اختیار کرنے کی وکالت کی ہے نیز اس کے طریقہ کار اور اقسام کابھی ذکر کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان میں تکافل کے اداروں کے قیام کے لئے لائحہ عمل ا ور اس کے تعلق سے چند معروضات بھی پیش کی ہیں جن پر علماء کو غوروفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
باب سوم ’’اسلامی معاشیات و مالیات کی صورت حال‘‘ کے تحت بھی پانچ مضامین لائے گئے ہیں ۔ان میں ہندوستان میں اسلامی معیشت اور بینک کاری کے تعلق سے کی گئی پیش رفت کا تذکرہ ہے ، ملت کی معاشی صورت حال بیان کی گئی ہے ، اس میںتبدیلی کے راستے سجھائے گئے ہیں، معاشی ترقی کے نئے محاذوں کی نشاندہی کی گئی ہے، شریعت سے مطابقت رکھنے والے میوچول فنڈس اور اسٹاکس میں سرمایہ کاری کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، اسلامی انشورنس، اسلامی بینک کاری کے قیام کے لئے سنجیدہ اور منصوبہ بند کوشش کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے اور ملی و ملکی ترقی کے لئے انفرادی، معاشرتی، ملکی اور حکومتی سطح پر کرنے کے کام بتائے گئے ہیں۔ مصنف موصوف اگر شریعت سے مطابقت رکھنے والے میوچول فنڈس اور اسٹاکس کی نشاندہی بھی کردیتے تو یہ باب اور بھی مفید ہوجاتا۔
باب چہارم ’’معاشی و مالیاتی مسائل و امکانات‘‘ بھی پانچ مضامین پر مشتمل ہے۔ان میں ہندوستان میں اسلامک فائنانس اور اسلامی بینک کاری کی راہ کے مسائل اور امکانات کو واضح کیا گیا ہے، فیڈریشن آف انڈین چیمبرس آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FICCI) کے سنہ ۲۰۰۸ء کے دہلی اجلاس جس کا موضوع تھا ’’پائیدار ترقی و نشوونما کے لئے مالیات کی وسیع تر حصہ داری (Financial Inclusion For Sustainable Development)‘‘ کی روداد بیان کی گئی ہے اور اس میں اسلامی بینکنگ کے سلسلہ میں کی گئی وکالت کا ذکر کیاگیا ہے نیز پارلیمنٹ میںترمیم شدہ انشورنس بل ، ۲۰۰۸ میں تکافل کی شمولیت کے لئے کی گئی جد و جہد کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔
باب پنجم ’’کیرلا ہائی کورٹ میں اسلامی سرمایہ کاری کا فیصلہ‘‘ کے تحت تین مضامین شامل کئے گئے ہیں جن میں کیرلا حکومت کے اسلامی سرمایہ کاری کے اصولوں پر مبنی البرکہ فائنانشیل سرویس لمیٹیڈ کے قیام کے فیصلے اور اس کے خلاف ڈاکٹر سبرامنیم سوامی و چند دیگر متعصبین کے کیرلا ہائی کورٹ میں دائر مقدمات پر بحث کی روداد پیش کی گئی ہے جو کہ ہندوستان میں اسلامی بینکنگ اور اسلامی سرمایہ کاری کے اداروں کے قیام کی تحریک میں ایک تاریخی حیثیت رکھتی ہے۔ کیرلا ہائی کورٹ نے ۳؍ فروری ۲۰۱۱ کے فیصلے میں نہ صرف ان مقدمات کو خارج کردیا بلکہ اس بات کی بھی وضاحت کردی کہ دستوری لحاظ سے ملک میں اسلامی بینکنگ کے قیام کی گنجائش ہے اور کوئی تحریری قانون ایسا نہیں ہے جو اسے غیرقانونی قرار دیتا ہو۔
کتاب کے آخر میں ایک ضمیمہ شامل ہے جس میں انڈین سنٹر فارا سلامک فائنانس کے قیام، اس کے اہداف، اس کی کارکردگی اور سرگرمیوں کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں نیز حکومتی سطح پر اسلامی بینک کاری اور مروجہ بینکوں میں بلا سودی اسلامک ونڈوز قائم کرنے کی ۲۰۱۵ تک کی سفارشات کی تفاصیل بھی دی گئی ہیں۔
یہ کتاب چونکہ مصنف کے مختلف مواقع پر دئے گئے خطبات کا مجموعہ ہے اس لئے بہت سی بنیادی باتوں کا تکرار اس میں لازمی طور پر موجود ہے لیکن ان سب کے باوجود اس میں اسلا م کے معاشی و مالیاتی نقطہ نظر سے متعلق وافر معلومات ہیں جس سے نہ صرف عام مسلمان بلکہ علما کرام اور اسلامی معاشیات کی نسبت سے کام کرنے والے ادارے اور افراد فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کتاب کی طباعت عمدہ ہے لیکن کتابت کی غلطیوں سے بالکل پاک نہیں ۔امید ہے کہ اگلی اشاعت میں پروف ریڈنگ پر خصوصی توجہ دی جائے گی اور ملکی سطح پر زکوٰۃ کے اجتماعی نظام ، اسلامی بینک کاری اور اسلامی سرمایہ کاری کے تعلق سے ہورہی پیش رفت سے متعلق جدید معلومات کا اضافہ بھی کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے وہ جناب عبدالرقیب صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور ملت کے ہر فرد کو اس سے استفادہ کرنے کی توفیق عنایت کرے۔ آمین!
(رابطہ: موبائل 9471867108؛ ای میل: [email protected] )

Comments are closed.