Baseerat Online News Portal

ہندو راشٹر کا سیاسی جال

ڈاکٹر عابد الرحمن ( چاندور بسوہ)
ہندو راشٹر اور اس کے لئے یا اس میں مسلمانوں کی نسل کشی کی باتوں کا پہلا مقصد جمہوری نظام میں اقتدار کا حصول ہے کہ اقتدار کے بغیر نہ ہندو راشٹر کا قیام ممکن ہے اور نہ ہی مسلمانوں کا صفایا یا مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانا ممکن ہے ۔ اور عوامی حمایت کے بغیر جمہوری نظام میں اقتدار کی مضبوطی ممکن نہیں ۔ ہری دوار میں ہوئی دھرم سنسد اور دہلی وغیرہ میں ہوئے دیگر پروگراموں میں مسلم مخالف اشتعال انگیزیوں کے جو بھی مقاصد ہیں ان میں پہلا مقصد اقتدار کے حصول کی راہ ہموار کرنا ہے۔ ہمارا جمہوری نظام ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اب یہاں کوئی سیاست نہیں ہوتی سوائے ووٹ بنک سیاست کے ۔ ہر پارٹی کا اپنا ووٹ بنک ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے خیمے میں رکھنے کے لئے اور اپنی حمایت میں متحرک کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرتی ہے لیکن پچھلی دو دہائیوں سے یہ ذات زبان اور علاقائی ووٹ بنک مسلمانوں کے خلاف یک جٹ ہوکر ایک متحد’ ہندو ووٹ بنک ‘ کی صورت میں ابھرا ہے لیکن اس ہندو ووٹ بنک کا کوئی نام نہیں لیتا بلکہ اس کے بر خلاف ’ مسلم ووٹ بنک ‘کا شور مچایا جا تا ہے تاکہ یہ ہندو ووٹ بنک مزید متحد بھی ہواور ایک خاص سمت یا خاص پارٹی کی طرف متحرک بھی ہو اور اسی لئے اب مسلم مخالفت سیاسی ہندو ازم کا جزو لاینفک ہو گئی ہے ۔ ہندو ووٹ بنک کومتحد اور متحرک کرنے والے جہاں ہندو دھرم کا چولا پہنتے ہیں وہیں مسلم مخالفت بلکہ مسلم مخالف اشتعال انگیزی بھی جی بھر کے کرتے ہیں ۔پچھلی تین دہائیوں کے دوران مسلمانوں کو اس شدت سے ہندو دھرم کا اور اسی بنیاد پر ملک کا دشمن اور ملک کے لئے خطرہ بنا کر پیش کیا گیاہے کہ اب اکثریت کی اکثریت مسلم مخالفت کوہی حب الوطنی کی پہلی شرط سمجھنے لگی ہے ۔ اب ہندو ووٹرس کی اکثریت مذہب و ملک کی حفاظت کے لئے مذہب اور ملک کے مبینہ دشمنوں یعنی مسلمانوں کے خلاف ان لوگوں کے حق میں بلا شرط متحرک ہو ئے جارہے ہیں جو اس کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس میں درپیش حقیقی و زمینی مسائل کی بھی پروا نہیں کر رہے ہیں ۔ مذکورہ دھرم سنسد کا عنوان ’ اسلامی ہندوستان میں سناتن کا مستقبل؛ مسائل اور حل ‘ تھا اب کون بے وقوف ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ موجودہ ہندوستان اسلامی ہندوستان ہے ۔ ایسا نہیں کہ دھرم سنسد کے منتظمین کو اس کا ادراک نہیں ، دراصل جان بوجھ کر مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرنے اور اس بنیاد پر ہندو ووٹرس کے تحرک کو شدت دینے کے لئے یہ عنوان دیا گیا تھا اور پھر اس میں مسلمانوں کے خلاف جو باتیں کی گئیںوہ کسی خطرے سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی منصوبہ بندی کی سی ہیں۔ یوں تو اب یہ باتیں عام ہوگئیں ہیں انہیں کسی موقع محل کی ضرورت نہیں رہی لیکن انتخابات کا زمانہ ان کا خاص موقع و محل ہوتا ہے ۔ مذکورہ دھرم سنسد بھی ایسے وقت میں منعقد کی گئی کہ یوپی اتراکھنڈ پنجاب وغیرہ میں انتخابات ہونے کو ہیں ۔ یوپی اور اتراکھنڈ وغیرہ میں تو ہندو مسلم پولرائزیشن نقطہء عروج پر ہے ،رہی بات پنجاب کی کہ سکھ مسلمانوں کے ہمدرد بن کر سامنے آرہے ہیں تو مختلف حیلوں بہانوں اور تاریخی حوالوں کے ذریعہ انہیں بھی مسلمانوں سے متنفر کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
مسلمانوں کو ملک کے لئے خطرہ بناکر پیش کرنادراصل ایک تیر سے کئی شکار ہیں ایک تو یہ کہ ملک اور دھرم کے دشمن کو دیکھ کر ہندواپنی ذات پات اور اونچ نیچ کی تفریق کو بھول کر اس دشمن کے خلاف متحد ہو جائیں اور پھر متحد طور پر پوری طرح اور بے شرط ان لوگوںکے حامی اور مددگار ہو جائیں جواس دشمن سے نجات دلانے کی بات کرتے ہیں لیکن اس کا دوسرا نشانہ خود مسلمان بھی ہوتے ہیں کہ اس اشتعال انگیزی کی وجہ سے مسلمان جذباتی ہو کر مشتعل ہو جائیںاور کوئی غیر قانونی اقدام کر یں تاکہ امن خراب کرنے کی ذمہ داری ان پر تھوپ کر ہندوؤں کوان کے خلاف کھڑا کرنے کا موقع ملے اور انہیں مزید متحرک اور یک جٹ کر کے ان کے ووٹ اپنے حق میں کیش کئے جا سکیں ۔ان لوگوں کا دوسرا ٹارگیٹ یہ ہوتا ہے کہ جس لہجہ میں وہ مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے ہیں مسلمانوں میں سے بھی کوئی اٹھے اور اسی لہجے میں ان کے خلاف بولنے لگے تاکہ مسلمانوں کے جس خطرے سے یہ لوگ ہندوؤں کو ’آگاہ ‘کررہے ہیں وہ خود بولتا ہوا انہیں دکھائی دے اور واقعی وہ اس خطرے کو محسوس بھی کریں اور ان اشتعال انگیزوں کے ذریعہ دکھائی گئی سیاسی راہ کو ہی راہ نجات سمجھیں اسی سیاست کو اپنا محافظ سمجھیں اور سیدھے اسی سیاست کے خیمے میں چلے آئیں جو اس خطرے سے نمٹنے کاوعدہ و عزم کرے اور دوسری طرف مختلف نام نہاد سیکولرپارٹیوں میں بٹے مسلمان اپنی طرف سے بولنے والے کی طرف جھک کر مزید تقسیم ہو جائیں۔ اور اگر حکومت ان اشتعال انگیزوں کے سیاسی آقاؤں کی ہو تو مسلمانوں میں کے ان لوگوں کو خاصی چھوٹ بھی دی جاتی ہے جو ان اشتعال انگیزوں کوترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیںاور ان کے خلاف قانونی کارروائی نہ کرنے والی انتظامیہ اور حکومت کو سخت ترین الفاظ میں لتاڑ پلاتے ہیں یا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا شور کرتے ہیں یا جارحانہ لہجے میں مسلمانوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔ یعنی ہمارے خلاف اس طرح کی اشتعال انگیزیاں جہاں ہندوؤں کو سیاسی طور پر متحد کرنے کا تحرک ہے وہیں ہمارے سیاسی بکھراؤ کا جال بھی ہے ۔ ایسے میں ہم مسلمانوں کے لئے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ کون سا امیدوار یا لیڈر مذہب اور قوم و ملت،ہماری ہمدردی محبت اورسچی رہبری کے نام دانستہ یا نا دانستہ طور پر ہمارے ووٹوں کو تقسیم کر کے مخالفین کو فائدہ پہنچا کر ہمیں سیاسی طور پر بے اثر کرنے کا سبب سکتا ہے۔ ہمیں ان لوگوں سے اور ان پارٹیوں سے بھی ہوشیار رہنا چاہئے جو جذباتی اشوز اور اشتعال انگیز باتوں کے ذریعہ ہمارے ووٹوں کا استحصال کرتے ہیں خاص طور سے ایسی جگہ جہاں ان کی وجہ ہمارے ووٹوںکی تقسیم کا خطرہ ہو اور اس سے کسی لائق امیدوار کے ہار جانے کا خدشہ ہو۔ چاہے ایسے لوگ اپنے ہوں یا غیر اور چاہے ایسی پارٹیاں اپنے آپ کو ہمارا مسیحا اور نجات دہندہ بنا کر ہی کیوں نہ پیش کریں۔

Comments are closed.