Baseerat Online News Portal

ہوش کے ناخن

سمیع اللہ ملک
تاریخ گواہ ہے،جب بھی کوئی ملک اپنی سرحدوں کوتوسیع دیتے ہوئے سلطنت یااستعماری قوت کادرجہ پاتاہے تب بڑے پیمانے پر جنگیں بھی چھڑتی ہیں اوراِن جنگوں کے نتیجے میں نقل مکانی کے نتیجے میں وبائیں بھی پھیلتی ہیں۔ان وباوں کے ہاتھوں کئی سلطنتیں تباہی سے دوچارہوچکی ہیں۔آج کی استعماری قوتوں کواس بنیادی تاریخی حقیقت کانوٹس لینا چاہیے تاکہ تباہی کوٹالاجاسکے۔
کورونا محض ہیلتھ ایمرجنسی کامعاملہ نہیں۔یہ ایک بڑاسیاسی معاملہ یاموڑبھی ہے۔ماحول عجیب رنگ کاہوچلاہے۔ایسے میں کوئی بڑی جنگ بھی چھڑسکتی ہے۔اگرہم یورپ میں قرون وسطی کے دوران رونماہونے والیسیاہ موت(طاعون کی وبا)سے1918 ء میں پھیلنے والے اسپینش فلوتک جتنی بھی وبائیں پھیلیں ان کاجائزہ لیں تواندازہ ہوگاکہ سوال صرف صحتِ عامہ کانہ تھا بلکہ معاشروں اورسیاست پربھی اِن وباؤں کے شدید اثرات مرتب ہوئے۔
رومن سلطنت سے اب تک توسیع پسند قوتوں اوروباوں کاچولی دامن کاساتھ رہاہے۔ ایک صدی کے دوران جدیدترین علوم وفنون میں پیش رفت اورسرمایہ دارانہ نظام نے دنیاکو بدل کررکھ دیاہے مگرایسالگتاہے کہ عالمگیرنوعیت کی وباوں پرقابوپانااب بھی انسان سے ممکن نہیں ہوسکا۔سیاہ موت چوہوں نے پھیلائی تھی۔اب مورخین ریکارڈکھنگال کربتارہے ہیں کہ یورپ میں انتہائی تباہ کن طاعون چوہوں نے نہیں، بلکہ انسانوں نے پھیلایاتھا۔یہ وباایشیاسے یورپ پہنچی تھی۔ایسے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ استعماری قوتوں کے درمیان رساکشی یاجنگ نے وباؤں کوپھیلانے میں کلیدی کرداراداکیاہے۔
کرائمیامیں کافہ شہرکامحاصرہ تومنگولوں نے کرلیامگراِس شہرکواطالوی قوت کے پنجے سے چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوپارہے تھے۔منگولوں نے اپنے مقصدکے حصول کیلئے طاعون پھیلایا۔ وہ ایسے کہ طاعون سے مرجانے والوں کی لاشیں شہرمیں پھینکی گئیں۔یہ عیسائی تاجروں(جینوز)کاشہرتھا۔منگولوں نے انہیں بعض معاملات میں رعایت دے رکھی تھی۔ یورپ سے تجارت کے علاوہ غلاموں کی تجارت پربھی ان کی اجارہ داری تھی۔مسلم منگولوں اورعیسائی تاجروں میں(جنہوں نے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں صلیبی جنگوں کے حوالے سے کلیدی کردارادا کیاتھا)غیرمعمولی کشیدگی چل رہی تھی۔مذہب کے اختلاف نے اس کشیدگی کومزیدہوادی۔پہلے حملے میں15ہزارمنگول مارے گئے۔ جب شہر فتح ہو گیاتو فرارہوتے ہوئے عیسائی تاجراپنے ساتھ طاعون لے کرقسطنطنیہ(موجودہ استنبول)پہنچے۔وہاں سے یہ وباپورے یورپ میں پھیل گئی۔اس وبانے ایک عظیم سلطنت کی بنیادیں ہلادیں اوربالآخراسے ختم کرکے دم لیا۔
دورِجدیدکی بدترین وبااسپینش فلوتھی۔یہ نام بھی بالکل غلط اوربے بنیادہے۔حال ہی میں ریکارڈ کی چھان بین سے معلوم ہواہے کہ پہلی جنگِ عظیم کے دوران برطانوی اورفرانسیسی افواج کے پیچھے کی صف میں چین سے محنت کشوں کی منتقلی ہوئی اورانہی سے یہ فلو پھیلا۔ کینیڈاسے یورپ منتقل ہونے والے تین سے پچیس ہزارچینی محنت کشوں کوفلوکی علامات ظاہر ہونے پرقرنطینہ کیاگیاتھا۔کینیڈاکی ولفرڈلوریئریونیورسٹی کے تاریخ دان مارک ہمفریزکہتے ہیں کہ آرکائیوسے معلوم ہواہے کہ نومبر1917میں چین میں سانس سے متعلق ایک بیماری کواسپینش فلوکے مماثل قراردیاگیا۔بعض تجزیہ کارکہتے ہیں کہ اسپینش فلونے پہلی جنگِ عظیم کی بساط لپیٹنے میں کلیدی کرداراداکیا۔
جنگیں اوروبائیں ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔چھٹی صدی عیسوی کے دوران جسٹن کے مقام سے پھیلنے والے طاعون نے روم کی سلطنت کاخاتمہ کردیاتھا۔یہ وبا542میں قسطنطنیہ پہنچی ۔صرف ایک سال قبل یہ وبارومی سلطنت کے باہری صوبوں تک محدودتھی۔چھٹی صدی عیسوی سے آٹھویں صدی عیسوی کے دوران بحیرہ روم کے خطے میں طاعون کسی نہ کسی شکل میں کم و بیش225سال تک تباہی وبربادی کابازارگرم کرتارہا۔قسطنطنیہ تک طاعون شمالی افریقاکی نوآبادیوں سے آیاتھا۔اس زمانے میں رومن سلطنت کیلئے خوراک،تیل،ہاتھی دانت اورغلاموں کی رسدکے حوالے سے مصرکلیدی کردارکاحامل تھا۔جارجیایونیورسٹی کے جان ہارگن نے لکھا ہے کہ طاعون چوہوں اورپسوؤں سے پھیلا۔ان دونوں کوبھرپور اندازسے پنپنے کیلئے مصرمیں اناج کے بڑے بڑے گودام میسرآئے۔ اب طاعون کوپھیلنے سے کون روک سکتاتھا۔
ایک طرف طاعون تھااوردوسری طرف ماحول میں رونماہونے والی تبدیلیاں۔سردی بڑھ گئی۔سورج کی روشنی کم کم میسرہوتی رہی۔ بہت سے آتش فشاں پھٹ پڑے اورفصلیں تباہی سے دوچارہوئیں۔خوراک کی شدیدقلت نے کئی خطوں کولپیٹ میں لیا۔مؤرخین بتاتے ہیں کہ طاعون اوراسپینش فلوجیسی وبائیں جنگوں کے نتیجے میں پھلیں اورتوسیع پسندانہ عزائم بھی اِن وباؤں کی پشت پرتھے۔فوجی،ان کاسامان اوران کاسامان اٹھانے والی گاڑیاں اورجانوروباؤں کوپھیلانے میں معاون ثابت ہوئے۔
سیاہ موت کے زمانے میں قسطنطنیہ رومن سلطنت کاسب سے بڑاکاروباری مرکزتھا۔یہی طاعون کامرکزبھی بنا۔معاملہ اِتنابگڑا کہ بحالی ممکن نہ ہوسکی۔ایک صدی بعداسلام آیاجس نے رہی سہی کسرپوری کردی۔چودھویں صدی میں سلطنتِ عثمانیہ کے دور میں طاعون کانیاسلسلہ شروع ہوا۔آخری باریہ وباپوری شدت کے ساتھ قسطنطنیہ میں1812میں نمودار ہوئی اورکئی عشروں تک برقراررہی۔یہ زمانہ سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کاتھا۔چیچک بھی ایشیا سے افریقاپہنچی۔عیسائی مغرب نے مشرق کے نزدیک ترین علاقے فتح کیے تویہ وبایورپ بھی پہنچی۔ارضِ مقدس کوفتح کرنے والے صلیبی جنگوں کے سپاہی شان وشوکت کے ساتھ گھرضرورپہنچے مگرچیچک کے ساتھ۔
تین صدیوں کے بعدایک بارپھرثابت ہواکہ وبائیں بڑی طاقتوں کوگھٹنے ٹیکنے ہی پرمجبورنہیں کرتیں بلکہ بسااوقات ان کے خاتمے کااعلان بھی کرتی ہیں۔1521میں ہرنن کورٹیز نے محض چندسوسپاہیوں کی مدد سے ایزٹیک حکمران کوشکست دی مگرحقیقی فاتح چیچک تھی۔چیچک اوردوسری بہت سی بیماریاں اس خطے کیلئے بالکل نئی تھیں اورمقامی باشندوں کوان کے مؤثرعلاج کے حوالے سے کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ایزٹیک دارالحکومت ٹینوچ ٹٹلن کے مقدرمیں صرف تباہی لکھی تھی۔فتح کے صرف ایک سال بعد اس شہر کی40فیصد آبادی چیچک اور دیگر وباوں کے ہاتھوں موت کے گھاٹ اترگئی۔
وباؤں میں غیرمعمولی مماثلت پائی جاتی ہے۔ہردورکی طرح اس بار بھی ایک بڑی وبا ایشیاسے اٹھی ہے اورعالمگیریت نے اسے تیزی سے پھیلانے میں غیرمعمولی کرداراداکیاہے ۔ ایک دورتھاکہ کسی وباکوکہیں اورپہنچنے اورپھیلنے میں سال نہیں بلکہ عشرے لگ جاتے تھے مگراب فضائی سفرنے وباکاپھیلاؤبہت آسان بنادیاہے۔چین اورامریکاکے درمیان بہت کچھ ماضی کی سلطنتوں سے مماثل ہے۔امریکاموجودہ دورکاروم ہے یعنی دم توڑتی ہوئی سلطنت۔چین اس کیلئے حقیقی خطرہ بن کرابھراہے۔دیگرتاریخی وباؤں کے برعکس کورونا کی وبا کسی جنگ کے بطن سے پیداہوتی نظرنہیں آئی ہے۔ہرمعاملے میں کوئی نہ کوئی سازش تلاش کرنے والوں کاالبتہ یہ کہنا ہے کہ کورونا دراصل دوبڑی طاقتوں کے درمیان جراثیمی ہتھیاروں کے استعمال کامعاملہ ہی توہے۔
کورونا کاپامردی سے مقابلہ کرنے اور سے شکست دینے میں امریکاناکام رہاہے۔چین کی کامیابی نے امریکااوراس کے حلیفوں کیلئے خِفت کاسامان کیاہے۔سیاسی موازنے کی فضاتیزی سے پنپ رہی ہے۔ٹرمپ کی طرف سے چین پرالزام تراشی نے نئی سرد جنگ کوجنم دینے کی کوشش کی ہے۔امریکا کے پاس دنیاکی طاقتورترین فوج ہے اوردنیابھر میں اس کے فوجی اڈے ہیں مگروہ ایک نادیدہ کیڑے سے جنگ ہارگیاہے۔امریکاکی طاقتور دکھائی دینے والی اسٹاک اورمنی مارکیٹ کریش ہوگئی ہے۔لاکھوں افرادملازمتوں سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں۔ٹرمپ اقتصادی امورمیں غیرمعمولی قیادت کادعویٰ ضرورکررہے ہیں مگریہ دعویٰ کسی کو قائل کرتادکھائی نہیں دے رہا۔اب ٹرمپ کو کسی ایسے بہانے کی ضرورت ہے جس کی مددسے وہ عالمی برادری کی توجہ کوروناکی روک تھام کے حوالے سے امریکی قیادت کی ناکامی سے ہٹاسکیں۔گزشتہ ہفتے خلیج فارس میں ایرانی جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی کو اِسی تناظر میں دیکھاجاناچاہیے۔
ادھر مودی کی لاک ڈاؤن کی ناقص منصوبہ بندی نے انڈیاکی معیشت کاپہیہ تیزی سے زوال کی طرف موڑدیاہے اورتمام کاروباری طبقوں کی طرف سے اس لاک ڈان کوقومی کرفیو سے تشبیہ دیکرشہریوں کوموت کے گھاٹ اتارنے کانیامنصوبہ قراردے دیاہے۔ تجارتی حلقوں کاکہناہے کہ مودی کا ناقص منصوبہ بند لاک ڈاؤن نہ توہمیں کورونا وائرس سے بچاسکا بلکہ تیزی سے بھارت کی آبادی کوبھوک کے ذریعے پھانسی پرلٹکادیاہے۔یہ امر اہم ہے کہ جن ممالک نے ابھی تک کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے جن بہتراحتیاطی تدابیرپرنسبتاً اچھا کام کیا ہے،انہوں نے ایک مکمل،ملک گیر،کرفیونمالاک ڈاؤن لگانے سے گریزکیاہے لیکن مودی نے1.3 بلین افرادکوکرفیوجیسے لاک ڈاؤن کے نیچے اس طرح دبادیاہے کہ اسے’’جبری پھانسی بذریعہ قومی کرفیو‘‘کہنا مناسب ہے۔
بھارتی میڈیابھی چیخ چیخ کربتارہاہے کہ بھارت میں پہلے21 دن تک قومی کرفیونے یقینی طورپرمہلک وائرس کی منتقلی کوکم کرنے میں جہاں منفی کردار ادا کیاہے وہاں سرکاری حکام کیلئے کرپشن کے کئی نئے راستے مہیاکردیئے ہیں۔تاہم اب یہ بات طے پاچکی ہے کہ اس کروناوباسے اتنی دیرتک چھٹکارہ نہیں مل سکتاجب تک اس کی کوئی ویکسین نہیں مل جاتی ہے اور یہ ویکسین تیارہونے کے بعد بھی ہرہندوستانی کوہنگامی بنیادوں پر ٹیکہ لگانے میں کم سے کم ایک سال درکارہوگا تاہم بھارت کا محکمہ صحت کروناوائرس سے بچاؤکیلئے قومی جانچ پڑتال کے پروگرام میں بھی بری طرح ناکام ہوچکاہے۔ضرورت اس امرکی تھی کہ اپنے شہریوں کوقومی لاک ڈاؤن میں ہنگامی بنیادوں پربڑے پیمانے پرکوروناسے بچا ؤ کیلئے حفاظتی ماسک اوردیگرادویات فراہم کی جاتیں تاوقتیکہ کروناوائرس کی کوئی ویکسین مارکیٹ میں آجاتی اوراس کے ساتھ ساتھ جانچ پڑتال کے دوران کروناوائرس سے متاثرلوگوں کودوسری آبادی سے الگ کرنے کاکوئی طریقہ وضع کیاجاتالیکن مودی کے منظورنظراس بہتی گنگامیں پوری طرح ہاتھ دھوکراپنی دولت میں اضافہ کررہے ہیں جبکہ بادی النظرمیں یہ بہت جلد ملکی سلامتی کیلئے ایک بہت بڑاخطرہ بن کرسامنے آنے والاہے۔
ہندوستان کی معیشت پہلے ہی 2019 سے مینوفیکچرنگ کاشعبہ کسادبازاری کاشکارتھاجیسے بنیادی شعبوں تیل،گیس، بجلی وغیرہ مسلسل منفی نموکا مظاہرہ کررہاہے۔ایک طرح سے کرونا وائرس نے ایک انتہائی خطرناک وقت پرہندوستان کی معیشت پرچوٹ لگائی ہے۔خشک سالی،زیادہ بے روزگاری اوردیہی اجرت میں ناقابل یقین حدتک منفی گراوٹ نے کھپت کوبھی شدیدمتاثرکیاہے اوربیرونی سرمایہ کاروں نے جووعدے وعیدکئے تھے،انہوں نے بھی فی الحال سرمایہ کاری کے عمل کومؤخرکردیاہے یاپھرانکارکی حدتک خاموشی اختیارکرلی ہے جس کی وجہ سے اعلان کردہ تمام صنعتی منصوبوں پرپانی پھر گیا ہے اور45سالوں کے بعدپہلی مرتبہ بیروزگاری نے منفی ریکارڈقائم کیاہے۔
پورے شہروں میں لاک ڈاؤن اوراس کے نتیجے میں تمام معاشی سرگرمیوں کی معطلی نے پہلے غریب افراد کی آمدنی کو ختم کیا اوراب نوبت فاقوں تک پہنچ چکی ہے۔بھارتی سیاسی تجزیہ نگاروں نے اس حقیقت کوپہنچانتے ہوئے جس طرح امریکااوربرطانیہ دونوں حکومتوں نے معاشی سرگرمیاں بند ہونے کے خطرہ کے پیش نظرانفرادی کارکنوں کیلئے فوری طور پر انکم سپورٹ شروع کی ہے۔ایسی ہی مودی حکومت کویہ تجویز پیش کی ہے کہ ہندوستان کوبغیرکسی تاخیر کے ایساکرنے کی ضرورت ہے ہندوستان کے لئے یہ ایک زیادہ مشکل مسئلہ ہے کیونکہ اس کی تقریبا 50 % افرادی قوت خود ملازمت میں ہے اور 95 %سے زیادہ کارکن غیر منظم شعبے میں ہیں لیکن مودی سرکارنے اپنے ملک کے سرمایہ داروں کی طرف سے جمع کئے ہوئے عطیات کوبھی اس سلسلے میں ہوانہیں لگنے دی۔غیر منظم اورغیر رسمی شعبے کے کارکنوں کی آمدنی پہلے ہی اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے ختم ہوچکی ہے اوراس دیہاڑی دارطبقے کے پاس تواتنی بھی بچت نہیں ہوتی کہ اگلے دن کاگزارہ ہوسکے۔اب یہ عین ممکن ہے کہ ان حالات میں جرائم میں اضافہ ہواورلوگ سول نافرمانی کی طرف بھی جاسکتے ہیں۔
ادھرکشمیرمیں پچھلے نوماہ سے زائد لاک ڈاؤن کے بعدکشمیری نوجوانوں نے ایک مرتبہ پھرکشمیرمیں قابض فورسزپرحملے شروع کرکے بھارت سمیت دنیابھرکویہ پیغام دیاہے کہ کورونا وائرس کی دہشت میں مبتلااقوام عالم کی خاموشی کافائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کی مقبوضہ کشمیرمیں خوفناک کاروائیوں کے نتیجے میں کشمیرکی آبادی کاگراف تبدیل کرنے کی سازش کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے اورسات لاکھ سے زائدظالم فورسزکے دن بدن بڑھتے ہوئے اخراجات بھی بھارتی معیشت کی تباہی کااسی طرح سبب بنیں گے جس طرح سوویت یونین جیسی سپرپاورانہی حالات کامقابلہ کرتے ہوئے بالآخرچھ ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئی۔
بازنطینی مورخ پروکوپیس نے طاعون کیلئے شہنشاہ کوموردِالزام ٹھہرایاتھا۔اس کاکہناتھاکہ جسٹن شیطان صفت تھااوریہ کہ طاعون کی شکل میں خدانے اسے اس کے برے اعمال کی سزا دی تھی۔ مودی اورٹرمپ کواب توہوش کے ناخن لینے چاہیئں۔

Comments are closed.