Baseerat Online News Portal

یوم جمہوریہ ؛ایمر جنسی کے لئے تیار رہئے

ڈاکٹر عابد الرحمن (چاندور بسوہ)
ہم ۷۱ واں یوم جمہوریہ منا رہے ہیں، ہم دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں، ہمارا قانون وطن عزیز کو خود مختار ،سوشلسٹ، سیکولر اور عوامی جمہوریہ قرار دیتا ہے۔یہ قانون ملک کے شہریوں کے لئے انصاف ،مساوات اور آزادی کو یقینی بناتا ہے اور شہریوں کے درمیان بھائی چارگی کو بڑھا وا دیتا ہے۔ہمارا یہ قان شہریوں میںمذہب زبان ذات پات اور علاقائیت کی بنیاد پر فرق نہیں کرتااس قانون کی نظر میں اکثریت اقلیت، ہندو مسلم، قبائلی اور دلت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں یہ ملک میں رہنے والے تمام شہریوں کو ہندوستانی قرار دیتا ہے اور حکومت کو اس بات کا پابند بنا تا ہے کہ وہ شہریوں کی اس ہندوستانیت پر کوئی آنچ نہ آنے دے۔ لیکن اس وقت سب سے زیادہ خطرہ ملک کی جمہوریت کو آئین کو لاحق ہے۔ ملک میں ایک مضبوط سرکار ہے اس سرکار کی پارٹی نے زیادہ تر صوبوں میں بھی مبینہ سیاسی جوڑ توڑ کرکے اور منتخب ممبران اسمبلی کو عہدوں کا لالچ دے کر یا تحقیقاتی ایجنسیوں سے ڈرا کر اپنی سرکاریں بٹھارکھی ہیں۔ اپنے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے ایسے قوانین بنائے کہ جن کے لئے بنائے گئے وہی ان قوانین کے خلاف تھے لیکن اکثریت کے نشے میں ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی ۔ وہ راجیہ سبھا میں کوئی بل پاس نہ کرواسکے تو انہوں نے بے دھڑک آرڈیننس کا سہارا لیا ۔ راجیہ سبھا میں ان کی تعداد بڑھی تو قوانین بنانے کے لئے انہوں نے مبینہ سیاسی جوڑ توڑ اور ممبران کو غیر حاضر کرواکر کام نکالا ۔ انہوں نے کشمیر کی خصوصی مراعات ختم کیں تو بالکل آمروں اور مطلق العنان شاہوں کی طرح وہاںعام کرفیو لگادیا ،پوری ریاست کو فوج کے حوالے کردیا سیاسی اور سماجی لیڈران کونظر بند کیا انٹر نیٹ اور موبائل بند کر کے ہر ہر گھر کو یکا اور تنہا کردیا۔کشمیر کے باہر کچھ مسلم لیڈران کو مبینہ ’دلالی ‘ دے کر اپنے اس اقدام کی حمایت کروائی جیسا کہ ڈاکٹر ذاکر نائک نے الزام عائد کیا ۔یہ ساری چیزیں نہ صرف جمہوریت کی نفی ہیں بلکہ آئین کے لئے زہر ہلاہل بھی ہیںلیکن ملک میں سوائے چند لوگوں کے کسی نے اسے جمہوریت کے لئے خطر ناک نہیں سمجھا زیادہ تر لوگوں نے یا تو حکومت کی حمایت کی یا پھر خاموش رہے ، حکومت کے اس اقدام میں مسلم مخالف رنگ کے خیال نے ملک کی اکثریت کو حکومت کا حامی بنائے رکھا اور فرقہ واریت اور دیش دروہ کے الزامات کے خوف نے مسلمانوں کو خاموش رکھا ۔ لیکن حکومت نے اسے اپنی طاقت کا نقطہء عروج سمجھتے ہوئے جب شہریت ترمیمی بل کو کھلی مسلم مخالفت کے ساتھ پاس کروالیا اور وزیر داخلہ امت شاہ نے کمر پر ہاتھ رکھ کر اس بل کو قومی این آر سی سے جوڑا اور بڑے جھٹکے دار لہجے میں ہندو شرنارتھیوں کو شہریت دینے اور ایک ایک گھس پیٹھئے (یعنی مسلمانوں )کو ملک سے باہر نکالنے کا اعلان کیا تو حالات بگڑے گئے، لوگوں کے صبر کا پیمانہ چھلک گیا نہ صرف مسلمان احتجاج کے میدان میں کود پڑے بلکہ وہ سارے غیر مسلم لوگ بھی میدان میں آگئے جو شہریت ترمیمی بل ، این آر سی کی اصلیت اور حکومت کی نیت کو اچھی طرح پہچان گئے ۔ ابتداء میں ان احتجاجات میںبڑے پیمانے پر مسلمانوں نے اور کچھ ہندوؤں نے ہی حصہ لیا لیکن آہستہ آہستہ اس کا دائرہ بڑھتا گیا اور اب حال یہ ہے ملک کے ہر حصہ میں مسلسل پر امن احتجاجات ہو رہے ہیں، جن میں مسلمانوں کے ساتھ سبھی مذاہب کے لوگ شامل ہو رہے ہیں ۔خاص طور سے بی جے پی سرکاروں نے ان احتجاجات کو بزور قوت ختم کر نے کے لئے پولس فورس کا بے دریغ اور انتہائی ظالمانہ استعمال کیا ، یوپی کے وزیر اعلیٰ نے احتجاجیوں سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ۔ پولس لاٹھی چارج ، فائرنگ کو وائی گئی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئیں حوالات میں بھی مبینہ ٹارچر کیا گیا ، یونیورسٹیز میں طلباء پر بھی تشدد کرواگیا یہی نہیں بلکہ دلی کے شاہین باغ میں مسلسل چل رہے عورتوں کے احتجاج کی طرز پر لکھنؤ میں پر امن احتجاج کرنے والی عورتوں سے کمبل بھی چھین لئے اس کے باوجود احتجاج پر امن بھی ہوتا رہا اور بڑھتا بھی رہا لیکن حکومت کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ، حکومت نے قانون کے نفاذ کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا اور یہ اعلان بھی کیا کہ وہ ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی جن کو احتجاج کرنا ہے وہ کرتے ہیں۔ یہ سب دراصل جمہوریت کی نفی ہے ۔
چونکہ یہ قانون جمہوریت کے آئین مساوات کے خلاف ہے اسلئے لوگوں نے ۱۴۴ عرضیوں کے ذریعہ اسے سپریم کورٹ میں چیلینج کیا ۔ معزز کورٹ نے تقریباایک مہینے بعد سماعت کی لیکن اس پر عارضی روک لگانے سے بھی انکار کردیا، اسے بڑی آئینی بینچ کے حوالے کرنے اور حکومت کو چار ہفتوں میں جواب داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اب ملک کی عدلیہ کا حال یہ ہے کہ حکومت اپنے خلاف فیصلہ کرنے والے اتراکھنڈ کے چیف جسٹس محترم کے ایم جوسیف کو سپریم کورٹ کا جج بنائے جانے اور ماضی میں آج کے وزیر داخلہ امت شاہ کے خلاف فیصلہ کرنے والے گجرات کے جج محترم عقیل قریشی کو مدھیہ پردیش کا چیف جسٹس بنائے جانے کے سپریم کورٹ کالیجیم کے فیصلوں کو مسترد کر کے عدلیہ کو بھی اپنے قابو میں کرچکی ہے، بعد میں یوں ہوا کہ جسٹس کے ایم جوسیف کے معاملہ میں حکومت نے کالیجیم کی بات مان لی اور جسٹس عقیل قریشی کے معاملہ میں کالیجیم نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا تھا ۔اسی طرح خود عدلیہ کے ذریعہ ججوں کے تبادلوں میں بھی حکومت کی دخل کے الزامات لگ چکے ہیں جب سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے جج جینت پٹیل کو ترقی دینے کے بجائے الہٰ آباد ہائی کورٹ میں ماتحت جج کے طور پر ٹرانسفر کیا تھا جس کے بعد انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا ،جسٹس جینت پٹیل نے عشرت جہاں فیک انکاؤنٹر کی سی بی آئی جانچ کا آرڈر پاس کیا تھا ۔ اسی طرح ممبئی ہائی کورٹ میں بلقیس بانوکے مجرموں کی سزائیں برقرار رکھنے اور نچلی کورٹ سے چھوٹ جانے والوں کو بھی مجرم قرار دینے کا فیصلہ کرنے والی ممبئی کی جج محترمہ وجیا تہیلرمانی کے تمل ناڈو ہائی کورٹ سے میگھالیہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کردیا تھا جس کے بعد محترمہ نے استعفیٰ دے دیا ۔ حالانکہ دونوں معاملات میں سپریم کورٹ نے کسی خاص وجہ سے انکار کیا تھا لیکن ان دونوں تبادلوں پر سوالات اٹھے تھے اور وکلاء کے احتجاج بھی ہوئے تھے۔
مودی سرکار نے اس سمت ایک اور قدم بڑھاتے ہوئے ، افواج کے معاملات کے متعلق ایک نیا شعبہ ڈپارٹمنٹ آف ملیٹری افیئرس قائم کیا ہے اور حال ہی میںشہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر تنقید کرنے والے آرمی چیف جنرل بپن راوت کوریٹائر منٹ کے فوراً بعد چیف آف ڈیفینس اسٹاف ( CDS)کے نام اس کا پہلا سربراہ مقرر کیا ہے۔ حالانکہ کہا یہ جارہا ہے کہ سی ڈی ایس فوج کی تینوں شاخوں کو آپریشنل لیول پر ضم کریگا ،یہ سلامتی کے متعلق تمام کمیٹیوں بشمول نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کا ممبر بھی ہوگا اور حکومت کا اہم ملیٹری صلاح کار بھی لیکن لگتا ہے کہ یہ بھی فوج کی تینوں شاخوں کو ایک سالار کے تحت لانے کی سمت پہلا قدم ہے تاکہ وہاں جنرل بپن راوت کی طرح کوئی اپنا ہی آدمی بٹھا کر فوج کو مکمل کنٹرول میں رکھا بھی جاسکے اور ضرورت پڑنے پر اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال بھی کیا جا سکے۔
یہ ساری علامتیں وہی ہیں جو اندرا گاندھی کے عروج کے زمانے میں نظر آتی ہیں ،انہی کی مخالفت کو اندرونی بغاوت کا نام دے کر اندرا گاندھی نے ایمر جنسی لگائی تھی ،جمہوریت اور آئین کو کالعدم قرار دیا تھا اور ملک پر اپنی ذاتی حکومت قائم کر رکھی تھی ، مودی سرکار بھی اندرا گاندھی کی طرح اسی سمت بڑھ رہی ہے بلکہ حالات یہ ہیں کہ ملک میں واقعتاً غیر اعلان شدہ ایمر جنسی نافذ ہے ،لیکن اس کا اعلان ہوگا تو یہ ایمرجنسی نہیں بلکہ ہندو راشٹر کہلائے گی ،مسلمانوں کے ساتھ اس راج میں جو ہوگا وہ ہوگا لیکن یہ ہندو راشٹر ہندوؤں کے لئے بھی ایمرجنسی سے کم نہیں ہوگا۔سو ہندوؤں اور مسلمانوں کو مضبوط اتحاد بنا کر اس ایمرجنسی کے لئے اور اس سے لڑنے کے لئے تیار رہنا چاہئے ۔

Comments are closed.