Baseerat Online News Portal

یوم جمہوریہ اور جمہوری قدروں کی پامالی

ڈاکٹر سیّد احمد قادری

یوم جمہوریہ کے موقع پراپنے ملک کی جمہوریت کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر جن ممالک میں جمہوری نظام قائم ہے ۔ ان کا ایک عمومی جایزہ لیا جائے تو ہمیں بہت زیادہ مایوسیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت ایسے بیشتر ممالک، جہاں جمہوریت قائم ہونے کے باوجو جمہوری اقدار کا اقتدار مسلسل پامال کر رہا ہے ۔ جمہوریت کا بنیادی تقاضہ اور مفہوم یہ ہے کہ تمام باشندوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور سبھوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے ۔ لیکن افسوس کہ ادھر چند بسوں میں جمہوریت کی پامالی کئی ممالک میں عام ہوتی جا رہی ہے ۔ جس کے باعث سیکولر اور امن پسند لوگوں میں تشویش لاحق ہے ۔ ان حالات کو دیکھتے اور شدّت سے محسوس کرتے ہوئے گزشتہ سال کے دسمبر ماہ میں امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں وہائٹ ہاؤس کے ساؤتھ کورٹ آڈیٹوریم میں دو روزہ عالمی ورچوئل جمہوریت کانفرنس کاانعقاد کیا گیا تھا۔ اپنے خطاب میں جو بائیڈن نے اس بات پر زور دیا کہ جمہوریت عالمی انسانی حقوق اور دنیا بھر میں درپیش مسلسل اور تشویشناک چیلنجز کے مقابلے کے لئے چیمپئنز کی ضرورت ہے ۔ دنیا بھر میں عوام کا جمہوری حکومتوں پر عدم اطمینان کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ حکومتیں ان کی بنیادی جمہوری ضروریات کو پورا کرنے میں ناکام ثابت ہو رہی ہیں ۔ حیرت میں ڈوب جانے والی بات یہ ہے کہ اس عالمی جمہوریت ورچوئل کانفرنس میں وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے بھی، جن پر مسلسل ملک کی جمہوریت کو پامال کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے،انھوں نے بھی اس جمہوریت سربراہ کانفرنس میں شرکت کی اور اپنی تقریر میں جمہوری قدروں کے فروغ کو تسلیم کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ تمام ممالک کو آئینی اصول پر عمل کرنا چاہئے ۔ اس چوٹی کانفرنس میں مودی نے ہمیشہ کی طرح اس بات کو بھی دہرایا جو وہ اکثر ملک کے اندر نہیں بلکہ کسی ایسی کانفرنس یا پھر بیرون ممالک کے سفر کے دوران بیان کرتے ہیں کہ ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر عالمی سطح پر جمہوری اقدار کو مضبوط کرنے کے لئے شراکت داری کے ساتھ کام کرنے کو تیار ہے ۔ مودی نے ایک ’’ دلچسپ ‘‘ بات اس خاص عالمی جمہوریت کانفرنس میں یہ کہی کہ تمام ممالک کو اپنے آئین میں درج اقدار کی پیروی کرنی چاہئے ۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہندوستانی جمہوریت کے 4 ستون ، حساسیت، جوابدہی ، شراکت داری اور اصلاحات ہیں۔ اس موقع پر مودی نے تمام ممالک کو آئینی اصولوں پر عمل کرنے کی بھی نصیحت دے ڈالی ہے ۔
اس پورے تناظر میں اب ہم مودی کے کتھنی اور کرنی کا جائزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ وہ بیرونی سطح پر صرف گفتار کے غازی ہیں اور ملک کے اندر جمہوریت کے تئیں ان کا کردار و عمل دور دور تک نظر نہیں آتا ہے ۔ اس وقت ہمارا ملک بھارت 73 ویں یوم جمہوریہ کا جشن منانے کی تیاری میں مصروف ہے۔اس خصوصی موقع پر ملک کی جمہوریت کے سلسلے میں ایسی ایک رپورٹ کی یاد آتی ہے ، جو ملک کی جمہوریت اور جمہوری قدروں پر یقین رکھنے والوں کے لئے صدمہ سے کم نہیں تھا۔ یہ رپورٹ’ دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کی تھی ، جو مشہور برطانوی میگزین ’ اکنومسٹ‘ میں شائع ہوئی تھی ۔ جاری کردہ انڈیکس کے مطابق بھارت کی جمہوریت کو ’ناقص جمہوریت ‘کی فہرست میںشامل کیاگیا ہے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ گزشتہ چند برسوں سے مسلسل بھارت میں جس طرح جمہوریت کی پامالی ہو رہی ہے اورجمہوری اقدار کے منافی حالات دانستہ طور پر بنائے جا رہے تھے۔ ایسے میں برٹش ادارہ ’دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘ کی جانب سے جاری عالمی فہرست میں بھارت کا 41 ویںمقام سے 10 مقام لڑھک کر 51 ویں پائیدان پر پہنچ جانے کی خبر حیرتناک تو نہیں ، تشویشناک اور افسوسناک ضرور ہے ۔ یہ عالمی فہرست 165 آزاد ممالک اور دو علاقوں کی جمہوریت کی صورت حال پر سروے کرنے کے بعد پیش کی گئی ہے۔ اس ادارہ کا دعویٰ ہے کہ بھارت میں شہری آزادی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ’دی اکنومسٹ انٹیلی جنس یونٹ‘(ا ی آئی یو) کا یہ انڈیکس کسی بھی ملک کے پانچ اقسام پر مبنی ہوتا ہے۔ انتخابی عمل اور پولرزم، حکومت کا کام کاج، سیاسی شرکت، سیاسی ثقافت اور شہری آزادی۔برطانوی جریدہ’ دی اکنامسٹ‘ نے بھارت میں بڑھتی مذہبی تفریق ، منافرت اور عدم رواداری پر متنبہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ’ہندوستانی آئین کے سیکولر اصولوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مسٹر مودی کے حالیہ اقدامات سے وہاں پر جمہوریت کو اتنا شدید نقصان پہنچ سکتا ہے کہ جس کے اثرات اگلے کئی عشروں تک جاری رہیں گے۔
ہم ہندوستانیوں کو اپنے ملک کی جمہوریت اور جمہوری نظام اور اس کی قدروں پر ناز رہا ہے۔ آج بھی یوم جمہوریہ کے موقع پر اس بات کا اعتراف کرنے میںیقینی طور پر ہمیں یہ فخر محسوس ہوتاہے کہ ہم دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے شہری ہیں۔ دنیا کے بہت سارے ممالک میں، ہمارے ملک کے جمہوری طرز حکومت کو مثال کے طور پر بھی پیش کیا جاتا رہاہے کہ بھارت ایک ایسا ملک ہے ،جہاں مختلف زبان، مذاہب،ذات، رسم و رواج کے چاہنے اور ماننے والے لوگ شیر و شکر کی طرح رہتے چلے آ رہے ہیں۔ صدیوں سے یہاں گنگا ، جمنی تہذیب و تمدن کی فضا رچی بسی ہے ۔دوستی، محبت، بھائی چارگی،یکجہتی ، مساوات ، اخوت یہاں کی شناخت ہے اور بھارت وہ ملک ہے ، جہاں شاندار جمہوریت قائم ہے ۔ جمہوریت کے لغوی معنیٰ لوگوں(عوام )کی حکمرانی کے ہیں اور آزادیٔ ہند کی حصولیابی کے بعد 26جنوری 1950 ء سے بابا صاحب امبیدکر کی رہنمائی میں تیار اور نافذ کئے جانے والے آئین کے تحت اس ملک میں جمہوریت اپنی پوری مضبوطی اور استحکام کے ساتھ قائم کی گئی تھی ۔
لیکن افسوس کہ ہمارے ملک کی شاندار اور مثالی جمہوریت ، گزشتہ کچھ برسوں سے بری طرح پامال ہو رہی ہے ۔ ملک کی جمہوریت کو یہاں کی فرقہ پرست طاقتیں مسلسل برباد کرنے کے در پئے ہیں۔ جس کے باعث یہاں کے سیکولر اور امن پسند لوگ تشویش کا اظہار کرتے رہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب سے مرکز میں آر ایس ایس کی سیاسی تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی بر سراقتدار آئی ہے، اسی وقت سے بہت ساری تشویش کے ساتھ ساتھ اس تشویش کا بھی اظہار کیا جا رہا تھا کہ یہ حکومت جس منصوبہ بند اور منظم طور پر اقتدار پر قابض ہوئی ہے ،وہ ضرور اپنے خاص مقاصد کو پورا کرنے کے لئے ملک کے آئین میں تبدیلی لائے گی۔
یہ الگ بات ہے کہ پہلے لوگ دبی دبی زبان سے اس خدشے کا اظہار کیا کررہے تھے ، لیکن آر ایس ایس نے اپنے کیڈرکے رگ وپئے میں اس طرح آئین کے خلاف زہر بھر ا ہے کہ کچھ لوگ ایسا سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس ملک کو ہندو راشٹر بننے یا بنانے میں با با صاحب بھیم راؤ امبیدکرکی رہنمائی میں تیار اور نافذ کیا جانے والا آئین ہی رکاوٹ بن رہاہے ، اس لئے جتنا جلد ہوسکے ، اسے تبدیل کر کے اپنے موافق بنایا جائے گا ۔ آئین بدنے کی بات اکثر سنگھ کے نیتاؤں کی زبان سے سنی جا رہی تھیں ، لیکن ایک دن بی جے پی کے ایک (سابق)وزیر مملکت اننت کمار ہیگڑے اور دیگر کئی لیڈروںکی زبان پر دل کی بات زبان پر آ ہی گئی تھی۔ انھوںنے ایک عوامی جلسہ میں یہ بات کہی تھی کہ دراصل بی جے پی کی حکومت ملک کا آئین بدلنے کے لئے ہی اقتدار میں آئی ہے اور مستقبل قریب میں اس پر عمل کیا جائے گا ۔جب ایک مرکزی حکومت کے ایک ذمّہ دار وزیر کی زبان سے ایسا خطرناک بیان عوامی طور پر سامنے آیا ، تو لوگ چونک پڑے۔ اس بیان کی مخالفت میں خوب خوب احتجاج اور مظاہرے ہو ئے تھے۔ اس بیان کے بعدپارلیمنٹ سے سڑکوں تک پر لوگ اتر ے ۔ معاملہ بظاہر سرد پڑ گیا تھا ، لیکن ایسا ہوا نہیں تھا ۔اس وقت مصلحت پسندی سے کام لیا گیا تھا۔ یوں بھی جمہوریت کے جو چار اہم ستون ہیں، ان چاروں ستون پر موجودہ حکومت کی گرفت مضبوط ہو چکی ہے اور بلا شبہ ان کی گرفت مضبوط ہونے سے جمہوریت کمزور پڑ گئی ہے ۔ حکومت نے بہت چالاکی سے پہلے جمہوریت کے بہت اہم ستوں رابطہ عامّہ کو اپنا ہمنوا بنانے کے لئے ملک کے میڈیا کو دولت کے انبار پر بٹھا کر ان کی صحافتی گویائی اور سچائی کے اظہار کو سلب کر لیا ۔ ان کی دولت کے آگے میڈیا ، اپنے فرائض بھول گیااور یہ بھی بھول گیا کہ صحافت ، تجارت نہیں ہوتی بلکہ عبادت کا درجہ رکھتی ہے۔ عدلیہ کو یرغمال بنانے کی کوششوں پر دبی دبی زبان میں لوگ اظہار کر رہے تھے ، لیکن سپریم کورٹ کے چار معزز ججوں نے عوام کے سامنے آ کر جس طرح کی باتیں، بہت ہی دکھی من کے ساتھ رکھی تھیں ، ان باتوں نے تو ایک طوفان ہی لا دیا تھا ۔ اس وقت بھی موجودہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمنا نے بہت ہی واضح طور پر یہ بات کہی ہے کہ مضبوط جمہوریت کے لئے صحت مند عدالتی نظام بہت ضروری ہے ۔ جسٹس رمنا کئی بار ملک میں جمہوریت کی پامالی پر اظہار افسوس کر چکے ہیں ۔ ابھی دھرم سنسد کا معاملہ سانے آیا تو وہ اپنی بے باک اظہار میں جمہوریت میں قانون کی ھکمرانی پر زور دیتے ہوئے یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ قانون کی حکمرانی نہیں رہی تو انارکی راج کرے گی۔لیکن افسوس کہ نہ صرف موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا بلکہ بہت سارے ملک کے دانشوروں ، عالمی سطح پر تشویش کے اظہار کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے ایجنڈہ کو پورا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔ یعنی اب یہی کہا جا سکتا ہے کہ اپنے عزم ، ارادے ، ایجنڈہ اور خواب کو پورا کرنے کے لئے سنگھ کے لوگ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں ۔ اس سلسلے میں ملک کے اندر جو کچھ بھی ہو رہا ہے ، وہ بہر حال ملک کی جمہوریت اورسا لمیت کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں ہے ۔ جس طرح معصوم لوگوں کے ذہن کو پراگندہ کیا جا رہا ہے ، وہ ملک کے مستقبل کے راستے میں کانٹے بو رہے ہیں ۔ ’’ دھرم سنسد ‘‘ کے غیر انسانی اور غیر آئینی بیانات نے پوری دنیا کو تشویش میں مبلا کر دیا ہے ۔چند سال قبل اکھل بھارتیہ ہندو پرچار سنگھ ، وارانسی کی جانب سے ایک بہت ہی ’’ گوپنئے‘‘ (خفیہ) کتابچہ سامنے آیا تھا ۔اس کتابچہ میں اس قدر زہر بھرا ہو ہے کہ اسے پڑھنے کے بعد ایک عام انسان جوش و جنوں سے بھر جائے گا ۔ ایسی بہت ساری باتوں کے ساتھ اس کتابچہ کے صفحہ 14 پر موجود شمار نمبر 23 پر کی ایک مختصر تحریر ملاحظہ کریں اورمحسوس کریں کہ منافرت کی کیسی فضا تیار کی جا رہی ہے ۔ اس صفحہ پر لکھا ہے کہ’ ہم نے مسلمانوں کو کھدیڑنے کے لئے جس پرکار بابری مسجد گرائی ، سکھوں کو نینترت کرنے کے لئے آتنک وادی گھوشت کر کے ہم نے گھر گھر میں قتل عام کروایا ۔ انوسوچت جاتی/ جن جاتیوں، انئے پچھڑے ورگ ، او بی سی کے آرکچھن کو سپریم کورٹ کے ججوں کی مدد سے آرکچھن کو سماپت کروایا ۔ اب ہمارا ایک ہی اودیشئے ہے کی امبیدکر کے سنویدھان کو پورنتہ نشٹ کر کے دیش میں لوک تنتر کے استھان پر رام راجیہ کی استھاپنا ۔ بھارت کو ہندو راشٹر گھو شِت کرنے ، سنسکرت کو راشٹر بھاشا بنانے تتھا منو اسمرتی کے آدھار پر سنویدھان کی نئی رچنا کرنے ، سنسد میں امبیدکر کی مورتی کو نشٹ کر کے اس کے استھان پر منو کی وشال پرتیما استھاپِت کرنا ۔۔۔۔۔‘۔ اسی کتابچہ کے صفحہ نمبر 2 پر ’’ ہندو دھرم سنسد دوارا انومودِت ، گوپنئے دستاویز‘‘ کے بعد لکھا گیا ہے کہ ’’جئے شری رام ، ہندوتو کی پوتر نگری پریاگ میں ہم راشٹریہ سویم سنگھ، وشو ہندو پریشد، بجرنگ دل، ایوم اکھل بھارتیہ برھمن مہا سبھا، ایک ساموھک ہندو دھرم سنسد کے روپ میں ایک جُٹ ہو کر یہ سنکلپ کرتے ہیں کہ بھویشیہ میں ہمارا ایک مت سنگٹھت پریاس ایوم لکچھ آرکچھن کی سماپتی، بھارتیہ سنویدھان کو نشٹ کرنے ، بودھ دھرم ، عیسائی دھرم ایوم مسلم دھرم کے بڑھتے پربھاؤ کو سماپت کرنے اور دلت آندولن میں پھوٹ ڈالنے اور انھیں وبھاجِت رکھنے کا ہوگا ۔ اس لکچھ کی پراپتی کے لئے نمن لِکھت استر،شستر، دھرم ،کرم، ادھرم تتھا کوٹ نیتی اپنائی جائے ۔ اس میں ہی اپنی بھکتی ، نسٹھا ایوم کرتبئے ہی ہمارا دھئے ہوگا ۔‘‘ اس تحریر کے بعد نمبر ایک سے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ جس کے سلسلہ نمبر 23 کا ایک اقتباس درج بالا سطور میں، میں نے پیش کیا ہے ۔ اس کتابچہ کے آخر میں ایک نوٹ بھی دیا گیا ہے ، جس میں لکھا گیا ہے کہ ’ ’ یہ پورنتہ گوپنئے دستاویز ہے۔ کسی بھی حالت میں انوسوجِت جاتی / جن جاتی/ انئے پچھڑا ورگ او بی سی یا ہندو دھرم کے ورودھ کام کرنے والے ویکتی کے ہاتھوں میں نہیں لگنا چاہئے ۔ ‘‘
ملک کی سا لمیت اور جمہوریت مخالف ایسے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لئے اور ہندو مذہب کو بدنام کرنے کے لئے کیسے کیسے ہتھکنڈے اپنا ئے جا رہے ہیں ۔ برسہا برس سے چلی آ رہی یہاں کی گنگا جمنی تہذیب و تمدن جو ملک کی شان اور پہچان ہے، اسے ختم کرنے کی منظم اور منصوبہ بند کوششیں کی جا رہی ہیں ۔ ملک کے حالات کو بگاڑنے والوں کے سامنے ایجنڈہ ، ہندوتو کا ہے ، جس کے لئے وہ ملک کے آئین کی تبدیلی اور جمہوریت کو ختم کرنے کے خواہاں ہیں ۔لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسی صورت حال کی شکایت کس سے کی جائے ۔ تم ہی قاتل ، تم ہی منصف ٹھرے؟
ایسے تشویشناک حالات سے پریشان ملک کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کے لئے بڑی تعداد میں ملک کے سیکولر لوگ سامنے آ رہے ہیں ، جنکی لمبی فہرست ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان پر بھی ظلم و بربریت کے پہار توڑے جا رہے ہیں ، انھیں غدار وطن کہا جارہا ہے ، انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا جا رہا ہے ، ان کی جائداد کو ضبط کیا جا رہا ہے۔ پھر بھی ملک کے آئین اور اس کی جمہوریت کو فرقہ پرستوں سے بچانے کی ہر ممکن کوشش جاری ہے ۔ایسے تمام لوگوں کی کوششوں کو جمہوری ملک کی تاریخ میں یقینی طور پر سنہری حروف درج کیا جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

Comments are closed.