Baseerat Online News Portal

یوپی الیکشن: مرد آہن اویسی کی حمایت کی جائے

شاداب انظار ندوی
اس وقت ملک کی پانچ ریاستوں اتر پردیش، گوا، پنجاب، اتراکھنڈ اور منی پور میںالیکشن کی تیاریاں زور شور سے چل رہی ہیں۔اترپردیش میں ان ریاستوں کے مقابل زیادہ گھمسان ہے۔ کیوں کہ اترپردیش کی فتح کا راستہ ہی دہلی کا راستہ کھولتا ہے اس لیے یہاں زیادہ شور شرابہ ہے۔ یہاں سیاسی گھمسان کے درمیان لیڈران اپنے اپنے وعدوں کے ذریعہ عوام لبھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، وہیں الیکٹرانک میڈیا عوامی گفتگو میں لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش میں مصروف ہے اور گاؤں گائوں، قریہ قریہ، ضلع ضلع ، صوبہ صوبہ ،شہر در شہرکا چکر لگا کر لوگوں کے دلوں میں چھپے راز نکالنے کی کوشش کر رہی ہے ۔ یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہے کہ آپ اپنے صوبہ کا مستقبل کس پارٹی اور کس لیڈر کے ہاتھوں میں دینا چاہ رہے ہیں ۔عوامی جم گھٹے میں جو جس پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کے نعرے لگا رہے ہیں اس پر تالیاں بجا رہے ہیں۔ کوئی رام راج کی بات کر رہا ہے کوئی سمویدھان وآئین کی دہائی دے رہا ہے تو کوئی روزی و روزگارکے مسائل سے نجات تو کوئی ہندوستانی معیشت کو بلندی پر پہنچانے کی بات کر رہا ہے ۔انہیں میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو سیکولر پارٹی کو حکومت میں لانے کا بگل بجا رہے ہیں ، جب کہ عوام کی اکثریت ایسی ہے کہ ہندوستان میں سیکولر پارٹی ہونے ہی کی منکر ہے ایسے میں بہت سارے لوگ تذبذب میں ہیں جو اپنی انگلی سے کس کے ماتھے پر تلک لگائیں کیونکہ اب تک چند مشہور پارٹیاں ہیں گتھم گتھا کرتی ہوئی نظر آ رہی تھی جیسے بی جے پی ، سپا ، بسپا اور کانگریس ۔
اس سال یوپی الیکشن میں بہار سے حوصلہ پانے کے بعد مجلس اتحاد المسلمین پوری قوت کے ساتھ کود پڑی ہے ، اور ان کا ماننا ہے کہ ہم یوپی الیکشن میں پورے دم خم کے ساتھ مقابل کی تمام پارٹیوں کو مات دینے کے لئے تیار ہیں ، جس کی وجہ سے یوپی کے چناوی میدان میں بھونچال سا آ گیاہے اسی درمیان بیشتر لوگوں کا ماننا ہے کہ اسدالدین اویسی کی پارٹی بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور اس کے یوپی میں آنے سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا اور سیکولر پارٹیوں کا نقصان ہوگا۔ میری دانست میں سیکولر سمجھنے والے وہی لوگ ہیں جنہیں ان پارٹیوں کے وجود سے ہمیشہ نقصان ہی ہوا ہے اور کبھی کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں پہونچا کیونکہ ہم جن پارٹیوں کو سیکولر سمجھتے ہیں اصل وہ ذاتی مفاد اور مذہبیت کے علم بردار ہیں اس لیے کہ جمہوریت کے معنی اس ملک کی سیاست سے مفقود ہیں ۔ایسے میں ایک شخص قانون کے نفاذ کی بات کرتا ہے ، دستور اور آئین کے مطابق اپنے حق کا مطالبہ کرتا ہے تو لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ مسلمانوں کی سیاست کرتا ہے ۔
اسی وجہ سے بہت سارے مسلم دانشوران بھی اویسی کے سلسلے میں مناسب رائے رکھتے ہیں ۔حالانکہ مسلم قیادت کو سرخرو کرنے کے لئے سیاست میں مسلمانوں کی حصہ داری کے لیے اگر وہ صدا بلند کر رہے ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہے اور ہونے والے حالات سے آگاہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اس کا یہ مطلب قطعاً یہ نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کے نمائندہ وایجنٹ ہیں ۔اور یہ ہم ایسا اس لیے سوچنے پر مجبور ہیں کہ آزادی کے بعد سے اب تک جو ہمارے اسلاف نے مصلحت کی چادر میں پوری قوم کو ڈھانپ رکھا ہے جس مصلحت پسندی نے پوری قوم کو بزدل بنا دیا ۔بزدلی ہی کی وجہ سے وہ بی جے پی سے ڈرتے ہیں اور اس ڈر سے اپنی قوم کا نقصان کرتے ہیں ۔ ڈر میں مصلحت اختیار کرنے سے بہتر ہے کہ حل تلاش کیا جائے اگر آج سے پچاس سال پہلے مصلحت کے بجائے حل تلاش کیا گیا ہوتا تو ملک میں اس طرح کے حالات نہ پیدا ہوتے۔ ہمارے جوانوں اور علماء کے ساتھ ایسی ناانصافی نہ ہوتی ہمارے عائلی قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جاتی اور نہ ہی ہمارے اداروں پر چھاپے پڑتے اور نہ ہی ملک میں ہماری شبیہ خراب کی جاتی ، ظلم پر صبر اور بزدلانہ مصلحت نے ان کے حوصلے بلند کیے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ کھلے عام دشنام طرازی و مارنے کاٹنے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کی باتیں کرتے پھرتے ہیں ۔اس ملک سے ہمارے خاتمے اور صفائے کے لیے طویل زمانے سے وہ منظم طور پر کام بھی کرتے رہے ہیں جبکہ ہم خواب غفلت میں سوئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسی مقصد کیلئے آر ایس ایس کی بنیاد ڈالی تھی جس پر وہ عمل پیراہیں اور کامیاب بھی ۔
اس لیے وقت آگیا ہے کہ اپنے سیاسی شعور کو بیدار کریں اور ملک میں اتحاد پیدا کر کے لٹتے ہوئے ہندوستان کی حفاظت کریں ، نہام نہاد سیکولرزم کا قلادہ اپنے گلے میں لٹکانے اور سیکولر ازم کا جنازہ اپنے کمزور و ناتواں کندھے پر اُٹھانے کے بجائے
اپنی قوم کو بچانے کی کوشش کریں ۔ کیونکہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں اور ان کے لیڈران جب آپ کے حقوق اور آپ کے پرسنل لا کی حفاظت ہی نہیں کرپاتے ، آپ پر ہورہے ظلم کے خلاف آواز نہیں اُٹھاتے اور نہ ہی ظلم کرنے والی طاقتوں کے سامنے آتے۔آپ کے خلاف بننے والے نت نئے قانون کی پارلیمنٹ میں مخالفت نہیں کرتے تو اس سے بہتر ہے کہ جو آپ کے حقوق اور آئین کی حفاظت کا وعدہ کررہا ہے اسے ایک بار آزما لیاجائے۔ آزادی کے بعد سے لے کر اب تک ان نام نہاد سیکولر پارٹیوں اور اس کے لیڈران کا کوئی ایسا رول سامنے نہیں آیا ہے جس سے یہ ثابت ہو سکے وہ ہمارے دکھ درد کی ساتھی ہیں ۔اگر ان پارٹیوں میں یہ سب خصوصیات نہیں ہے تو آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ وہ سیکولر ہے ۔
اب ہمیں چاہیے کہ اپنے سیاسی شعور کو بیدار کریں اورملک میں بڑھتی ہوئی گندی سیاست کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھائیں اور آنے والی نسلوں کے لیے جینے کی راہیں ہموار کریں۔ اگر ہم اب بھی اپنے سیاسی شعور کو بیدار نہ کریں گے ہماری عبادت گاہیں ویران ہو جائیں گی ہماری نسل مرتد ہو جائے گی ہماری ماں بہنوں کی عزت ہمارے ہی سامنے پامال کی جائے گی اور ہماری حالت ایسی ہوگی کہ ہم اف تک نہ کر پائیں گے ۔ اس سے پہلے کہ ہم پر ایسا دور مسلط کر دیا جائے ۔ہمیں اپنے اندر سیاسی بصیرت پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔اور ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہوکر نیا انقلاب برپا کرنے کی ضرورت ہے۔ تمام مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی غیرت و حمیت کی آگ روشن کریں اور یہ کبھی نہ سوچیں کہ آپ اقلیت میں ہیں اسلام ہمیشہ اقلیت میں غالب آیا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ اقلیت میں رہنے والی اس قوم نے بڑے بڑے سورمائوں کی حکومتوں کو زیر اثر کیا ہے بڑی بڑی طاقتوں پر فتوحات حاصل کی ہیں۔ ابھی ہمارے درمیان اللہ نے ایک بہت ہی مضبوط سیاستداں اور سیاست کی اچھی سوجھ بوجھ رکھنے والے زبانوں بیان پر مہارت رکھنے والے بیرسٹر اسدالدین اویسی کو ہمارے درمیان بھیجا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اس دور کے مسلمانوں کے سیاسی مسیحا ہیں۔ ہمیں ان کی آواز پر لبیک کہنا چاہیے ۔وہ علاقے جہاں ہماری اکثریت ہے وہاں مکمل طور پر ان کی حمایت ہونی چاہیے کیونکہ وہی مرد آہن ہے جو آپ کے لیے ہر وقت سر بکف رہتا ہے اور رہے گا آپ کے حقوق کی جنگ لڑ رہا ہے اور لڑے گا وہ صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ ہر مظلوم کے لیے کھڑا ہوتا ہے ۔اور اسلامی شعاربھی یہی ہے ظلم ختم کرکے انصاف قائم کیا جائے امن و سلامتی کا دیپ روشن کیا جائے۔

Comments are closed.