Baseerat Online News Portal

یوگی سرکار میں مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ

 

ڈاکٹر سلیم خان

اتر پردیش  کے سیاسی رہنماوں پر ایک طرف انتخابی بخار چڑھ رہا ہے اور دوسری جانب عوام  ڈینگو بخار کےقہر میں گرفتار ہیں۔ فی الحال مغربی اترپردیش میں بی جے پی کی  حالت سب سے زیادہ خراب ہے وہاں ایک طرف تو کسان بینڈ بجا رہے ہیں اور دوسری جانب   اپنے کٹر مخالف راجہ مہندر پرتاپ سنگھ کے نام پر ابن الوقتی کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتے ہوئے   وزیر اعظم  علی گڑھ میں فوجی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد  رکھ رہے ہیں ۔ جاٹوں کو بہلانے کے لیے کیے جانے والے اس تماشے کے بیچ انہیں  بخار سے تڑپ تڑپ کر  مرنے والے بچوں کا خیال نہیں آتا وہ ان کے لیے ہمدردی کے دوبول تک نہیں بولتے جبکہ  وہاں ہلاکتوں کی  تعداد 100 سے تجاوز کر گئی ہے اور اکیلے فیروز آباد میں 60 سے زائد اموات ہوچکی ہیں۔ وزیر اعظم جس وقت علی گڑھ  کے بھاشن میں اپنے بچپن کے قصے سنارہے تھے وہاں  اسپتالوں میں قوم کے بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ رہے تھے۔ اس سے متصل  48 گھنٹوں میں 16 ؍افراد نے اپنی جان  گنواچکے تھے مگر وزیر اعظم کو ان کی کوئی فکر نہیں ۔

 فیروز آباد میں 11 سالہ وشنوی کشواہا جب   میڈیکل کالج میں فوت ہوئی تو اس کی بہن  نکیتا کشواہا آگرہ کے کمشنر کی گاڑی کے سامنے  یہ الزام لگاکر لیٹ گئی کہ وشنوی کو مناسب علاج نہیں ملا۔ یوپی کے علاوہ  بہار میں بھی وائرل بخار اور نمونیا پھیل چکا ہے جہاں  تین سو سے زیادہ بچے اس  سے متاثر ہیں۔ نتیش کمار نے صورت حال سنگینی کے پیش نظر انتظامیہ کو خبردار  رہنے کے لیے کہا  مگر اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ ان بچوں کے بجائے اکھلیش کے ابا جان کو یاد کررہے ہیں ۔  وزیر اعلیٰ  یوگی ادیتیہ ناتھ  کوانڈیا ٹوڈے کےسروے میں  مودی کے بعد وزارت عظمیٰ کا مناسب ترین  امیدوارقرار دیا گیا  لیکن انہیں  بھی مودی کی ماننداپنی ذمہ داری کا احساس نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ  دیگر وزرائے اعلیٰ سے  موازنہ میں ان کی کارکردگی کھسک کر ساتویں نمبر پر پہنچ گئی ۔ آئندہ سال یوپی میں  قومی نہیں بلکہ ریاستی انتخاب ہوگا اور لوگ یہ طے کریں گے  کہ اگلا  وزیر اعلیٰ کون ہو؟  اس لیے یوگی ادیتیہ ناتھ کو کسی خوش فہمی کا شکار ہونے یا جذباتی  فرقہ وارانہ نعرے لگانے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر دھیان دینا چاہیئے لیکن شاید یہ ان کے بس کا روگ نہیں ہے۔

  کورونا کی دوسری لہر کے دوران گنگا میں  تیرتی لاشوں نے یوگی انتظامیہ  کی نااہلی کو واضح کردیا۔  فی الحال  اتر پردیش کے کچھ شہروں میں سینکڑوں بچے ایک پراسرار بخار کی زد میں ہیں۔  اس بیماری میں اچانک بخار اس قدر بڑھ جاتا ہے اورسانسیں تھمنے لگتی ہیں۔ فیروز آباد میں اس بیماری  سے کئی  بچوں کی موت ہو چکی ہے۔ تازہ صورتحال یہ ہے  شہر میں جمعرات اور جمعہ کے درمیان  24 گھنٹوں کےاندر مزید 6 ؍افراد ہلاک ہوگئے ۔  اموات کی تعداد میں اضافہ کے پیش نظر ضلع مجسٹریٹ چندر وجے سنگھ نے حکم دےدیا  کہ اگر غفلت برتی گئی تو ڈاکٹروں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس دھمکی کا نزلہ  تین ڈاکٹروں کو پر اتار کر انہیں  معطل کر دیا گیا اور نیک نامی کمائی گئی۔  اس طرح کے مشکل حالات پر  قابو پانا صرف حکومت کے بس میں نہیں ہوتا بلکہ  ڈاکٹر وں کی  رضاکارانہ محنت سے  عوام کو بچایا جاتا ہے لیکن یوگی  انتظامیہ انہیں کی حوصلہ شکنی میں جٹی ہوئی ہے۔ 

اس سے قبل یوگی سرکار نے گورکھپور کے ڈاکٹر کفیل خان اور ان کے ساتھ کام کرنے والے ڈاکٹروں کے ساتھ جو بد سلوکی کی اس نے بھی  سرکاری ڈاکٹروں پر اتنا برا اثر ڈالا کہ کوئی معالج آگے بڑھ کر کام کرنے کا خطرہ مول لے  گا کیونکہ اگر ایسا کرتے ہوئے اس کی مقبولیت میں اضافہ ہوجائے تو وزیر اعلیٰ اس کو اپنا حریف سمجھ کر معتوب کردیں گے  ۔ اس کا جذبۂ خیر خواہی  برسوں تک اسے  قیدو بند کی صعوبت جھیلنے پر مجبور کرسکتا  ہے اور عدالتی احکامات کے باوجود بحالی میں رکاوٹیں پیدا کی جاسکتی ہیں ۔ اس صورتحال میں معالجین کی جانب سے  بے لوث خدمت  کی توقع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف  ہے۔ ایک ناعاقبت اندیش حکومت اپنے عوام سہت خدمات کروانے کے بجائے  اس راہ میں روڈا بن جاتی ہے۔  

متھرا میں اس پر اسرار بخار سے  حالات اس قدر خراب ہوگئے  ہیں کہ لوگوں نے اپنا گھر چھوڑ کر دوسرے مقامات کی جانب ہجرت شروع کر دی ہے۔ ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق گزشتہ 15 دنوں میں متھرا کے اندر 11 بچوں کی موت ہو چکی ہے لیکن انتظامیہ کمبھ کرن کی نیند سورہا ہے بلکہ اس کی ترجیحات ہی مختلف ہیں۔  ایسے مشکل وقت میں جہاں  لوگ اپنے گھروں سے بھاگ رہے ہوں اتر پردیش کا شعبہ سیاحت ریاست بھر کے اہم سیاحتی مقامات کو جوڑنے کے لئے ہیلی کاپٹر ٹیکسی خدمات شروع کرنے کی تیاری  کر رہا ہے۔  ایک  اعلان کے مطابق یہ  خدمات کے رواں سال دسمبر تک شروع ہونے والی  ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ وبا کے پیش نظر لوگ بھری ہوئی بسوں اور ٹرینوں سے سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں، اس لیے  سیاحت کو فروغ دینے والے  افسران نے ہیلی کاپٹر ٹیکسی کے اہتمام کا فیصلہ کیا  ہے۔

اس احمقانہ منصوبے کی تفصیل بتاتے ہوئے پرنسپل سکریٹری سیاحت و ثقافت مکیش کمار میشرم نےانکشاف کیا  کہ   آگرہ کی طرز پر  دیگر اہم سیاحتی مقامات پر ہیلی پورٹس کی تیاری کا عمل جاری ہے۔ یہ منصوبہ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ (پی پی پی) ماڈل پر مبنی ہوگا اور اس کے لئے دو ہفتوں میں ایک کنسلٹنٹ مقرر کیا جائے گا۔ میشرم کے مطابق  ، "زیادہ تر غیر ملکی سیاح  بہتر روابط کےسبب تاج محل کے دیدار کی خاطرتو آجاتے ہیں لیکن  ناقص رابطے کی وجہ سے دیگر اہم سیاحتی مقامات کا رخ نہیں کرتے ۔ ایسے سیاحوں کے لیے ہیلی کاپٹر ٹیکسی خدمات بہتر متبادل ثابت ہو سکتی ہیں۔اس مقصد کے لیے  آگرہ ہوائی اڈے کے قریب ہیلی پورٹ کے علاوہ، وندھیاچل، الہ آباد، لکھنؤ اور وارانسی میں بھی  ہوائی اڈہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر اس کے باوجود سیاح وہاں نہیں جاتے تو متھرا، بودہ گیا اور کشی نگر میں  نیا ہیلی پورٹ بنانے سے کیا حاصل ؟ اور ان کروڈوں کے خرچ سے عام لوگوں کا کیا فائدہ ہوگا؟ متھرا  جیسے مقام پر   موت کے خوف سے  اپنے گھروں میں تالا لگا کر رشتہ داروں کے یہاں پناہ لینے  والے غریب لوگ  اس ہڑن کھٹولے سے  کیسے  فیضیاب ہوں گے؟ ایسا لگتا ہے کہ عوام  کی فکر نہ تو حکمرانوں  کو ہے اور نہ افسران کو ہے۔  

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے  اس سنگین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے فیروزآباد کا دورہ کیا اور اس موقع پر کومل نامی بچی سے ملاقات کر کے ڈاکٹروں کو اس کا صحیح علاج کرنے کی ہدایت دی تھی ۔  ان کی واپسی کے بعد بچی کی حالت مزید بگڑ گئی اور اسے علی گڑھ لے جا نے کا فیصلہ کیا گیا ۔اسی علی گڑھ میں  جس کا نام بدل کر ہری گڑھ رکھنے میں سرکار مصروف ہےلیکن وہ بیچاری کسی گڑھ نہیں پہنچ سکی ۔ اس کا  راستے میں اس کا انتقال ہو گیا اور اپنے والدین کو روتا بلکتا چھوڑ کر وہ پرلوک سدھار گئی۔وزیر اعلیٰ نے  فیروز آباد کا دورہ  اس لیےکیا کیونکہ وہاں  کے حالات کچھ زیادہ ہی خراب ہیں، لیکن اب یہ بیماری آگرہ، کانپور، متھرا، مین پوری، ایٹہ اور  کاس گنج وغیرہ میں بھی  اپنے پیر پسار  رہی  ہے۔  موسم میں تبدیلی سے   پھیلنے والے اس وائرل بخار کا اثر اتر پردیش  کی سیاست پر بھی ضرور  پڑے گا ۔  

تازہ  ترین خبروں کے مطابق راجدھانی لکھنؤ میں بھی  بے شمار بچوں سمیت سیکڑوں افراد وائرل بخار سے متاثر ہوچکے  ہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی  او پی ڈی میں آنے والے 20 فیصد مریضوں کو بخار، نزلہ اور زکام کی شکایت ہے، تاہم ڈاکٹراس کو موسمی فلو قرار دے کر ہلکے میں لے رہے ہیں  مگر عوام کے اندر ا س کے اچانک اضافے سے  خوف و ہراس کا ماحول  بن رہا ہے۔اسپتالوں  کوہدایات دی گئی ہیں کہ او پی ڈی میں علاج سے قبل  مریضوں  کا  کورونا کا ٹیسٹ کیا جائےکیونکہ  گزشتہ ہفتے وائرل بخار کے کیسز میں تقریباً 15فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ہےجبکہ  اگست کے آخری  ہفتے میں یہ تعدادصرف  5 فیصد تھی۔شہر کے معروف اسپتالوں اور  کمیونٹی ہیلتھ سنٹرز میں بھی بخار کے مریضوں کی تعدادکے اندر  مسلسل اضافہ دیکھنے کو مل  رہا ہے۔اس کے ساتھ  ڈینگی کے تین مریض بھی اسپتال میں داخل ہوئے  ہیں۔   ایسے میں ماہرین  اطباء کے ساتھ بیٹھ کر روک تھام کی موثر حکمت عملی بنانے کے بجائے وزیر اعلیٰ نے سیاسی بازیگری شروع کردی کیونکہ ووٹ تو اسی ڈرامہ بازی سے ملتے ہیں۔   اس کا ایک نمونہ ڈینگو کی روک تھام کے تالاب میں جمبوسیا مچھلی چھوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا تاکہ مچھروں  کی پیدائش کو روکا جاسکے۔ کیا اس نازک صورتحال میں اس طرح  کی نوٹنکی سے کوئی فائدہ ہوگا؟

جنم اشٹمی کے موقع پر یوگی آدتیہ ناتھ نے متھرا میں ایک مذہبی تقریب سےخطاب کرتے ہوئے اعلان فرمادیا کہ متھراکے سات شہرورنداون، گووردھن،    نندگاؤں،برسانا،گوکل،مہاون اور بلدیو میں جلد ہی شراب اورگوشت کی فروخت  پر پابندی لگے گیا۔ انہوں نے اس  پابندی کو ثقافتی اور مذہبی شناخت سے جوڑ کر  ایودھیا میں بڑے رام مندر کی تعمیر کا ذکر کیا جس سے بلی تھیلے سے باہر آگئی۔  وزیر اعلیٰ کو اسی وقت  اندازہ ہوگیا کہ اس فیصلے سے بیروزگاری کے مسئلہ پر ہنگامہ ہوگا اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر انہوں نے  یہ بھی کہہ دیا کہ اس  کاروبار  سے منسلک  لوگوں کی خاطر جلد ہی  کسی متبادل کا بندو بست کیا جائےگا۔ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ضلع انتظامیہ کو گوشت اور شراب کی خرید و فروخت کو بند کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت کی ۔وزیراعلیٰ نے یقین دلایا کہ ان کا  مقصد کسی کو نقصان پہنچانا نہیں ہے اس لیے یہ  کام  کرنے والوں  کے لیے دودھ کے اسٹال بنائے جائیں۔  ایک مشروب کی حیثیت سےدودھ  کو شراب  متبادل تو کہا جاسکتا ہے لیکن گوشت تو کھانے چیز ہے ۔ کوئی  پینے کی چیز  اس کا متبادل کیسے ہوسکتی ہے؟ 

یوگی جی کو پچھلے چار سالوں میں متھرا کے تقدس کا خیال نہیں آیا ۔  اپنی حکومت کےآخری ایام میں اسمبلی انتخابات سے چندماہ قبل  اس  اعلان کا  واضح مقصد اپنی ہندو رہنما کی شبیہ کو مضبوط کرکے عوام کو بیوقوف بنانا  دکھائی دیتا ہے۔وہ چاہتے ہیں اس طرح کے لالی پاپ سے ان کی نااہلی  پر پردہ پڑ جائے اور لوگ جذبات میں آکر انہیں پھر سے کا میاب کردیں۔ اس میں شک نہیں کہ شراب  ام الخبائث ہے۔ اس  سماجی برائی  کی بیخ کنی کے لیے  پورے صوبے میں اس پر  پابندی عائد کرنا چاہیے  جیسا کہ بہار اور گجرات میں  ہے لیکن محض چند علاقوں تک  اسے محدود رکھنا محض سیاسی  ڈھکوسلا ہے۔  اترپردیش میں زہریلی شراب سے  اموات ایک سنگین مسئلہ ہے۔ متھرا سے قریب آگرہ میں زہریلی شراب سے 13 اموات ہوئی ہیں۔

رواں سال میں ریاست گیر سطح پر  تقریباً 200 لوگ زہریلی شراب پی کر فوت ہوچکے ہیں اور کئی گھر تباہ ہو ئے لیکن انتظامیہ خاموش تما شائی بنارہا۔ یوپی میں شراب مافیا کھلے عام زہریلی شراب کی تجارت کر تاہے  بلکہ وقتاً فوقتاً صحافیوں اور پولیس پر حملہ کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتا ۔  اس کے باوجود ان پر  کوئی مؤثر  کارروائی نہیں ہوتی۔ ایسے میں پرینکا گاندھی کے اس سوال حق بجانب ہے کہ   بی جے پی سرکار شراب مافیا پر کیوں مہربان ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ یوگی سرکار کو عوام کو ہندو مسلم کے بکھیڑے میں ورغلا کر کر انتخاب جیتنے کے علاوہ کسی مسئلہ میں ذرہ برابر دلچسپی نہیں ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گی؟ اس سوال کا جواب ویسے تو مشکل ہے لیکن یہ  ہدف حاصل کرنا آسان کام بھی نہیں ہے؟   ایسے میں یہ بھی ممکن ہے ہماچل پردیش اور ہریانہ کے بعد یوگی ادیتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ فی الحال ان کےلیے  انتخاب جیتنا دن بہ دن  ناممکن ہوتا جارہا ہے اور بعید نہیں کہ وہ اپنے ساتھ کمل کی لٹیا ڈوبا بیٹھیں اس لیے ان کا معاملہ فی الحال مارو گھٹنا پھوٹے آنکھ کا ہوگیا ہے۔

Comments are closed.