Baseerat Online News Portal

یکساں سول کوڈ دستور کے خلاف اور ناقابل عمل!

شمع فروزاں

فقیہ العصر مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی

ہندوستان میں جس وقت انگریزوں کے خلاف جہدو جہد جاری تھی اور ہندوستان کے تمام شہری اس بدیشی دشمن کے خلاف سیسہ کی دیوار بنے ہوئے تھے ، اس وقت فکر و نظر ، تہذیب ، قومی مفادات ، زبان ، نسل اور جغرافیائی تعلق میں تفاوت کے باوجود جو چیز ان سب کو سیسہ پگھلائی ہوئی دیوار بنائے ہوئی تھی ، وہ یہی تصور تھا کہ آزادی کے بعد یہ ملک سیکولرزم کی راہ پر چلے گا ، ہر مذہب ، ہر تہذیب اور ہر جماعت سے تعلق رکھنے والوں کو اپنی انفرادی زندگی میں آزادی حاصل ہوگی ، مسلمان جو مذہبی اعتبار سے زیادہ باحمیت واقع ہوئے ہیں ، ممکن نہ تھا کہ وہ اس تیقن کے بغیر اس لڑائی میں شریک ہوتے ، آزادی سے پہلے ہمیشہ ’قومی لیڈران‘ مسلم پرسنل لا کے تحفظ اور اس میں عدم مداخلت کا یقین دلاتے رہے ، مہاتما گاندھی جی نے خود بھی گول میز کانفرنس لندن ۱۹۳۱ء میں پوری وضاحت و صراحت کے ساتھ کہا تھا : ’’مسلم پرسنل لا کو کسی بھی قانون کے ذریعہ چھیڑا نہیں جائے گا‘‘ — جنگ آزادی کے سالار مولانا ابوالکلام آزاد ؒنے فرمایا :
نہ تو کانگریس ہی کا یہ مقصد ہے اور نہ مسلمان ہی اس مقصد سے قیامت تک متفق ہوسکتے ہیں کہ ہندوستان سے مسلم کلچر ، مسلم تہذیب اور مسلم خصائص ختم ہوجائیں اور وہ ہندستان کی متحدہ قومیت میں جذب ہوکر جرمن یا انگریز قوم کی طرح ہندوستانی قوم کے سوا کچھ نہ رہیں ۔

۱۹۳۸ء میں ہری پور میں کانگریس نے اعلان کیا : ’’اکثریت کی طرف سے مسلم پرسنل لا میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی‘‘ پھر ۱۹۳۷ء میں ’’شریعت اپلی کیشن ایکٹ‘‘ پاس ہوا، جس نے زیادہ صراحت کے ساتھ مسلم پرسنل لا کو آئین کا حصہ بنا دیا۔

پھر آزادی حاصل ہونے کے بعد جب ہندوستان کا دستور بنا ، تو قانون کے سب سے اہم حصہ ’بنیادی حقوق‘ کی فہرست میں ایسی دفعات بھی رکھی گئیں ، جن سے ’’مسلم پرسنل لا‘‘ کی حفاظت ہوتی ہے ، دستور ہند کی آرٹیکل ۲۵ میں مذہبی قوانین کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے ؛ چنانچہ دفعہ ۲۵ کا ترجمہ حسب ذیل ہے :
۲۵ (۱) : پبلک آرڈر ، اخلاقیات ، صحت عامہ نیز باب :۳ میں دی ہوئی دیگر دفعات کے تابع ہر شہری کو مذہبی عقائد پر قائم رہنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کی اجازت ہوگی ۔

دفعہ ۲۵ میں دی گئی مذہبی اُمور کی اس ضمانت سے مذہبی رسوم اور ہندوؤں میں اچھوتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو مستثنیٰ کرنے کی غرض سے دو اور تشریحی دفعات بڑھا دی گئیں ، جو حسب ذیل ہیں :
۲۵(۲) ( الف )کسی اقتصادی ، مالی ، سیاسی یا دیگر سیکولر مسئلہ میں جس کا تعلق مذہبی رسم سے ہو ، پابندی عائد کرنا یا اسے ریگولیٹ کرنا ۔
۲۵ (۲) (ب) سوشیل ریفارم کی خاطر پبلک ہندو اداروں کے دروازے تمام ہندوؤں کے لئے کھولنے کے سلسلہ میں اقدام کرنا ۔
اس سے معلوم ہوا کہ ’ مذہبی اُمور ‘ میں حکومت بالکل دخل انداز نہ ہوگی ، ہاں اس سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کوئی چیز اصلاً مذہبی ہونے کے بجائے کسی مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک رسم کے طورپر مروج ہو ، مثلاً : جہیز ، تلک وغیرہ ، اس میں حکومت مداخلت کرکے ظلم کی روک تھام کرسکے گی ، دوسرے : ’’ اچھوتوں ‘‘ کے سلسلے میں جو امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے ، اس کا سد باب کرے گی اور وہ مذہبی حق متصور نہ ہوگا ۔

پھر ان ’’ بنیادی حقوق ‘‘ کو ناقابل تنسیخ بنانے کے لئے دستور کی آرٹیکل ۱۳ (۲) میں یہ بات صاف کردی گئی کہ حکومت کوئی ایسا قانون نہیں بناسکتی ، جو باب :۳ میں دیئے ہوئے بنیادی حقوق کے خلاف ہو ، یا اس میں کمی کرے — اس طرح مسلم پرسنل لا کا تحفظ ( جس کا تعلق مسلمانوں کے رسوم و رواج سے نہیں ہے ؛ بلکہ ان کے اعتقادات اور اسلامی تعلیمات کی بنیادوں — قرآن و حدیث —سے ہے ) نہ صرف مسلمانوں کا بنیادی حق قرار پایا ؛ بلکہ ناقابل تنسیخ ٹھہرا۔
اس بنیادی حق کے ساتھ ملک کے لئے جو ’رہنما اُصول‘ وضع کئے گئے ، اس کی دفعہ (۴۴) یوں رکھی گئی : ’’ (۴۴) ریاست کوشش کرے گی کہ پورے ملک میں شہریوں کے لئے یکساں شہری قانون ہو‘‘ ظاہر ہے یہ دفعہ ، دفعہ (۲۵) سے متصادم ہے ، دفعہ ۲۵ کا تقاضا ہے کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے ان کے مذہب کے مطابق قوانین ہوں ، جب کہ یہ دفعہ سب کے لئے یکساں قانون وضع کرنے کی متقاضی ہے اور اس کا صاف مطلب ہے کہ حکومت کبھی بھی مسلم پرسنل لا یا کسی دوسرے ’’ مذہبی پرسنل لا ‘‘ پر دست درازی کرسکتی ہے ۔

چنانچہ اس دفعہ پر مختلف مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ جناب محمد اسماعیل صاحب ، جناب بی-پوکر صاحب ، جناب نظیر الدین الدین احمد صاحب اور جناب محبوب علی بیگ صاحب نے تنقید کی اور اس سے مسلم پرسنل لا کو مستثنیٰ رکھنے کا مطالبہ کیا ، جناب نظیر الدین صاحب نے کہا :
انگریز ۱۷۵ برس میں جو نہ کرسکے ، یا جس کے کرنے سے گھبراتے رہے ، اسی طرح مسلمانوں نے ۵۰۰ سالہ دورِ حکومت میں جو کچھ کرنے کی ہمت نہیں کی ، ہمیں ریاستوں کو اتنا اختیار نہ دینا چاہئے کہ وہ سب کچھ بیک وقت کر گزریں ۔

مگر ڈاکٹر امبیڈکر ( چیرمین دستور ساز اسمبلی) نے ایک نہ سنی ؛ البتہ مسلمانوں کو تسلی دینے کے لئے کہا :
کوئی حکومت اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کرکے مسلمانوں کو بغاوت پر آمادہ نہیں کرسکتی ، میرے خیال میں اگر کسی نے ایسا کیا تو ایسی حکومت پاگل ہی ہوگی ، مگر یہ معاملہ اختیارات کے استعمال کا ہے نہ کہ بذات خود اختیارات کا ۔
رہنما اُصول کی یہی دفعہ ہے جس کے بطن سے ’’ یکساں سیول کوڈ ‘‘ کا فتنہ پھوٹا ہے اور جس کی صدائے بازگشت سننے میں آتی رہتی ہے ۔

دستور کی ان دونوں دفعات میں تعارض اس لئے پیدا ہورہا ہے کہ دفعہ (۴۴) کا تعلق مذہبی قوانین سے جوڑا جارہا ہے ؛ حالانکہ اس کا تعلق دراصل دفعہ (۲۵) کی اس استثنائی دفعہ سے تھا ، جس میں کہا گیا ہے کہ ’ مذہبی رسوم ‘ جن کی مذہب میں کوئی اصل نہ ہو ، حکومت کی مداخلت سے ماورا نہیں ہوں گے ، گویا غیر مذہبی اُمور میں ریاستوں کو دفعہ ۴۴ کے ذریعہ ’’یکساں قانون سازی‘‘ کا اختیار دیا گیا تھا ۔
چنانچہ ممبئی ہائی کوٹ کے بینچ نے —جو جناب عبد الکریم چھاگلا اور جناب گجندر گدکر پر مشتمل تھا — مقدمہ بنام تارا سواماپالی میں دفعہ (۴۴) کے حدود پر مفصل رولنگ دی تھی ، اس کا ایک اقتباس حسب ذیل ہے :
مذہبی رسوم ، پبلک آرڈر ، اخلاقیات ، صحت عامہ ، نیز سماجی بہبود کے خلاف ہو تو ایسے رسوم کو مفاد عامہ کے پیش نظر پس پشت ڈالا جاسکتا ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مفاد عامہ (جس میں یکساں سول کوڈ کو داخل کیا جارہاہے ) کو جس چیز پر ترجیح حاصل ہے ، وہ مذہبی رسوم ہیں ، نہ کہ مذہبی اعتقاد اور مذہبی اعتقاد کے سرچشمہ سے پھوٹنے والے قوانین ۔

اور اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ’’ رہنما اُصول ‘‘ کی دفعہ (۴۴) کا تعلق مذہبی قوانین سے بھی ہے اور اس کے ذریعہ ریاستوں کو مذہبی معاملات میں بھی یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا اختیار دیا گیا ہے تو بھی ’’ مسلم پرسنل لا ‘‘ کا قانونی موقف کافی مضبوط رہتا ہے ، اس لئے کہ بنیادی حقوق کی حیثیت دستور کی روح اور بنیاد کی ہے ، جب کہ ’’ رہنمااُصول ‘‘ کی حیثیت محض ایک اخلاقی ہدایت کی ہے ، بنیادی حقوق کی اس اولیت اور اہمیت کو اکثر ماہرین قانون کے علاوہ ملک کے قائدین نے بھی تسلیم کیا ہے ؛ چنانچہ آنجہانی جناب جواہر لال نہرو ، سابق وزیر اعظم ہند نے ’’بنیادی حقوق ‘‘ کی رپورٹ پر بیان دیتے ہوئے کہا :
بنیادی حق کو کسی وقتی دشواری کے تحت نہ دیکھنا چاہئے ؛ بلکہ اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ آپ اسے دستور میں مستقل مقام دے رہے ہیں ، بنیادی حقوق کے علاوہ دوسرے اُمور کو خواہ وہ کتنے ہی اہم کیوں نہ ہوں ، اس نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہئے کہ وہ عارضی ہیں ۔
اس لئے اگر ان دونوں دفعات کے درمیان تعارض تسلیم کرلیا جائے تو بھی مسلم پرسنل لا کے تحفظ کا تعلق چونکہ ’’ بنیادی حقوق ‘‘ سے ہے ، اس لئے وہ مقدم ہے اور قابل ترجیح ہے ۔

افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ ہماری معزز عدالتیں اپنے افکار ، اپنے جذبات اور سماجی زندگی سے متعلق اپنے تصورات کو قانون پر فوقیت دینے لگی ہیں ، اسی کا نتیجہ ہے کہ عدالتیں کبھی از خود طلاق اور تعدد ازواج کے مسئلہ کو اُٹھاتی ہیں ، کبھی نفقۂ مطلقہ کے مسئلہ کو اور بار بار حکومت کو یکساں سول کوڈ کے سلسلہ میں یاد دلاتی ہیں ، کبھی عدالت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ مسلم خواتین کی بے آبروئی کے قضیہ کو اُٹھائے اور حکومت کو اس کی ذمہ داری یاد دلائے ، مطلقہ سے زیادہ دشوار صورت حال بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کی ہوتی ہے ، عدلیہ کو خیال نہیں ہوا کہ وہ فسادات میں بیوہ اور یتیم ہوجانے والے سینکڑوں ؛ بلکہ ہزاروں عورتوں اور بچوں کے سلسلہ میں حکومت کو ان کی ذمہ داری یاد دلائے اور مجرموں کے خلاف قدم اُٹھائے ، مسلم عورت کی پسماندگی کا اصل سبب طلاق نہیں ہے ؛ بلکہ مسلمانوں کی بے روزگاری ہے ، عدلیہ نے کبھی یہ نہیں کہا کہ اس مظلوم طبقہ کو روز گار کے مواقع دیئے جائیں ، عورتوں کے لئے سب سے تکلیف دہ صورت حال ان کے شوہروں اور گھر کے مردوں کی نشہ خواری سے پیدا ہوتی ہے اوررہنما اُصول میں یہ بات بھی موجود ہے کہ ملک میں مکمل نشہ بندی ہونی چاہئے ؛ لیکن اس کے بارے میں نہ حکومت سوچتی ہے ، نہ عدلیہ ہدایت دیتی ہے ، نہ دانشوروں میں کوئی فکر پیدا ہوتی ہے ؛ حالانکہ طلاق کے واقعات کا پیش آنا بہت ہی بُری بات ہے ؛ لیکن مسلم معاشرہ میں اس کا تناسب ہندوؤں سے کم ہے اور بہت سی طلاقیں بیوی کے مطالبہ یا اس کی رضامندی سے ہوتی ہیں اور زیادہ تر حالات میں عورت طلاق کے بعد بے سہارا نہیں ہوتی ، اس کے والد ، بیٹے ، بیٹیاں اور بھائی ، بہن اس کی کفالت کرتے ہیں ؛ لیکن عدالت کی ساری توجہ اسی ایک مسئلہ پر ہے ۔(جاری)

Comments are closed.