Baseerat Online News Portal

یہ مندر مندر کیا ہے؟ یہ مندرمندر

 

ڈاکٹر سلیم خان

2020 کا صوبائی انتخاب وہ پہلا موقع تھا جب اروند کیجریوال کو رام بھکتوں کے مقابلے ہنومان بھکت کے طور پر میدان میں آنا پڑا ۔  انتخابی مہم کے دوران کسی چینل پر اروند کیجریوال سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ہنومان بھکت ہیں تو انہوں نے اپنی بھکتی کو ثابت کرنے کے لیے ایک گلاس پانی پی کر سامعین کی سامنے برجستہ  ہنومان چالیسا پڑھ کر سنا دیا۔ یہ کارنامہ تومودی کے لیے بھی ممکن نہیں تھا  کہ جن کے نام پر دہلی کا انتخاب لڑا جارہا تھا۔   اس مرتبہ چونکہ بی جے پی نے کسی کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار نہیں بنایا تھا اس لیے  گویا مودی اور کیجریوال ہی آنے سامنے تھے۔ اس مقابلے میں   کیجریوال نے مودی کو  ۷ کے مقابلے 63 سے شکست دے کر اپنی وارانسی کی ہار کا انتقام لے لیا  لیکن اس کے لیے انہیں یہ کہنا پڑا کہ وہ ہر منگل کو کناٹ پلیس کے ہنومان مندر میں جاتے ہیں۔  بی جے پی والوں نے جب دیکھا کہ اب یہ ہتھیار کارگر نہیں ہورہا ہے تو کمل دھاری رکن پارلیمان پرویش ورما سے کیجریوال کو دہشت گرد بنوا دیا اور یوگی نے ان پر شاہین باغ کے دہشت گردوں کو بریانی کھلانے بے بنیاد الزام دھر دیالیکن یہ کذب گوئی  بھی کسی کام نہیں آسکی  ۔

اروند کیجریوال بھی مذہب کا سیاسی استعمال سیکھ چکے تھے اور اس کا فائدے بھی دیکھ چکے تھے اس لیے انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد  وہ اپنا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے سے قبل کناٹ پیلس کے ہنومان مندر پہنچ گئے۔  اس موقع ان کا پورا خاندان ساتھ تھا اور نائب وزیر اعلیٰ منیش سسودیا بھی موجود تھے ۔ یہ اتفاق کی بات ہے کہ وہ منگل کا دن تھا ۔ ویسے کیجریوال اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرنے کے لیے بھی روی داس مندر سے نکلے تھے اور ہنومان مندر ہوتے ہوئے الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچے تھے اس لیے ان کی اس حرکت پر کوئی حیرت زدہ نہیں ہوا۔  اروند کیجریوال نے اپنے  مذکورہ جلوس میں اعلان کیا تھا کہ انہوں نے    دہلی میں تمام طبقات بشمول بچوں، بزرگوں اور خواتین  کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے نہایت ایمانداری کے ساتھ پانچ سال کام کیا اور اب اگلے پانچ سال کی تیاری ہے۔ اس وقت یہ نعرہ  دیا گیا تھا کہ ’اچھے بیتے پانچ سال لگے رہو کیجریوال ‘ ۔

یہ تو انتخاب سے پہلے کی صورتحال تھی مگر کامیابی کے بعد سُر بدل گیا۔  جموں کشمیر میں عآپ کے صدر رویندر رائنا نے برملا اعتراف کیا تھا کہ دہلی میں ان کی پارٹی اروند کیجریوال کے ہنومان چالیسا پڑھنے کی وجہ سے کامیاب ہوئی ہے۔ رائنا کے مطابق اگر کیجریوال کو ہنومان کا آشیرواد نہیں ملا ہوتا تو وہ کامیاب نہ ہوپاتے۔  رائنا نے عام آدمی پارٹی کے ووٹ تناسب میں اضافہ کو ہنومان کے آشیرواد سے جس طرح  منسوب  کیا ایسا تو بی جے پی والے بھی نہیں کرتے۔   نامہ نگاروں نے جب سوال کیا کہ بی جے پی کو جئے شری رام کا ورد کرنے کے باوجود آشیرواد کیوں نہیں ملا تو رائنا کا جواب تھا قومی انتخاب میں بی جے پی کارکنان کے رام نام کا نعرہ لگانے سے ہی   زبردست  اکثریت حاصل ہوئی ۔ اس کا مطلب تو یہ ہے  کہ کام  وام سے کچھ نہیں ہوتا، سارا  کھیل صرف نام    جپنے   کا ہے ۔ یہ بات کوئی مودی بھکت نہیں بلکہ کیجریوال کا ایک سپہ سالار  علی الاعلان کہہ رہا تھا ۔

مندرجہ بالہ تناظر میں دہلی کے اندر اس  رام اور ہنومان کا تماشہ دیکھنا چاہیے۔ 3 جنوری کو دہلی کے چاندنی چوک میں توسیعی کام کی وجہ سے بہت سارے مکانات اور دکانوں کے ساتھ ایک ہنومان  مندر کابھی انہدام عمل میں آیا ۔ پولس کے سخت پہرے  کی وجہ سے  کوئی اس  کی مخالفت نہیں کر سکا ۔یہ کارروائی  دہلی ہائی کورٹ کے۲۰۱۶ء میں جاری کردی ایک فیصلے کی عمل آوری میں  کی گئی ۔ اس کے مطابق  لال جین مندر،گوری شنکر مندر ، پاگل بابا مندر اور شیش گنج گردوارہ کو بھی غیر قانونی قرار دے کر اس کے زائد حصوں کو توڑنے کاحکم دیا گیا تھا۔ ایسے میں  اٹھتے بیٹھتے بابری مسجد کی بابت  سپریم کورٹ کا حوالہ دینے والے سنگھ پریوار   کو اس  کارروائی پر اعتراض نہیں کرنا چاہیے تھا  لیکن وشو ہندو پریشد نے  ریاستی حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے احتجاج کیا اور جلوس نکالا۔شمالی دہلی کے  بی جے پی میئر جئے پرکاش نے الزام لگایا کہ چاندنی چوک پر واقع تاریخی ہنومان مندر کو بازآبادکاری کے نام پر مسمار کرنے کی  کارروائی میں  براہ راست کیجریوال حکومت کاہاتھ  ہے۔

دہلی کے اندر فی الحال مرکزی اور صوبائی حکومت کے علاوہ تین عدد میونسپلٹی بھی ہے ۔ ان میں شمالی دہلی کی این ایم ڈی سی بی جے پی کے قبضے میں ہے۔  اس کے میئر  جے پرکاش کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت شاہجہان آباد ترقی بورڈ کے نام پر چاندنی چوک میں بازآبادکاری کا کام کررہی ہے۔ انہوں نے بورڈ کو متعدد بار لکھا کہ چاندنی چوک میں مذہبی مقامات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے لیکن ریاستی  حکومت نے اس  پر توجہ نہیں دی۔جئے پرکاش  کے مطابق   دہلی حکومت نے کارپوریشن کو چاندنی چوک میں واقع  مندروں   کی  غیر قانونی تعمیرات کو  ہٹا نے کا حکم دیا تھا ۔  اس بیان میں  ایک چیز ظاہر اور دوسری  پوشیدہ ہے۔ جئے پرکاش نے تسلیم کیا کہان  غیر قانونی تعمیرات پر عدالت نے مہر ثبت ہے اس لیے اگر دہلی کی حکومت نے اس کا حکم دیا تو اس میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔  دوسری اہم بات یہ ہے اس کام کوخود ان کے تحت کام کرنے والے بلدیہ کے  ملازمین نے انجام دیا ۔   سوال یہ ہے کہ انہوں نے اس کی اجازت کیوں دی اور اگر  کیجریوال کا دباو تھا تو اس کے خلاف  امیت شاہ کے رسوخ کا استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟

بی جے پی کے جواب میں  عآپ کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکمراں شمالی دہلی میونسپل کارپوریشن نے ہزاروں سال پرانے  ہنومان مندر کو توڑ کر عوام  کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ عآپ لیڈر درگیش پاٹھک نے یہ بھی   کہا  کہ عدالت میں  این ایم سی ڈی نے حلف نامہ لکھ کر دیا تھا  کہ  وہ ہنومان مندر کو ہٹا سکتی  ہے اور بالآخر اس نے وہی  کیا ۔ ان کے مطابق بی جے پی اپنے حلف نامہ سے مکر نہیں سکتی اور یہ سوال کیا کہ اتنی بڑی کارروائی کے باوجود وہ خاموش کیوں ہےنیز میڈیا کو کیوں ورغلا رہی ہے؟  مندر کی  انہدامی کارروائی کے بعد  سب سے پہلے اگلی  صبح عآپ کارکنان دھرنے پر بیٹھ گئے ہیں اور اس کے بعد والے دن وی ایچ پی نے جلوس نکالا ۔   بی جے پی کے ترجمان پنکج کپور  پہلے  عآپ کو موردِ الزام  ٹھہرانے کے بعد اب موتی بازار میں نئے مندر کی تعمیر کرکے وہاں مورتیوں کو منتقل کرنے کی وکالت کررہے ہیں ۔ اس کا مطلب  بھی انہدام میں ان  کی رضامندی ہی نکلتا ہے  لیکن اسی کے ساتھ  وی ایچ پی کی مدد سے سیاسی روٹیاں بھی  سینکی جا رہی ہیں ۔

اروند کیجریوال  جس طرح فی الحال دہلی کے وزیر اعلیٰ ہیں اسی طرح ایک زمانے میں نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوا کرتے تھے۔ ان کے دور حکومت میں نومبر 2008 کے اندر احمد آباد اور گاندھی نگر کی غیر قانونی عمارات کو توڑنے کی مہم چھیڑی گئی ۔ اس کے تحت تقریباً ۹۰ مذہبی عمارتوں کو منہدم کردیا گیا جن میں ولی دکنی کی درگاہ کا بھی کچھ حصہ تھا لیکن  بیشتر مندر تھے ۔ اس پر بھی  وشوہندو پریشد نے  ہنگامہ  کیا تھا۔ ڈاکٹر پروین توگڑیا وہیں موجود تھے لیکن ان کی ایک نہیں چلی  ۔ وی ایچ پی کارکنان کے غم و غصے کو کم کرنے کے لیے صدر نشین اشوک سنگھل کو وہاں جانا پڑا ۔ ان کے سامنے لوگوں نے اپنی ناراضگی ظاہر کی اور انہوں نے وزیر اعلیٰ سے  ملاقات کرکے ہندو قوم کی ناراضگی کا اظہار کیا ۔ اس کے بعد بڑے طمطراق سے مودی جی نے  آگے کی کارروائی  روکنے کی یقین  دہانی کرائی لیکن تب تک کام پورا ہوچکا تھا ۔  اس طرح سانپ بھی مرگیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی ۔ دہلی میں بھی بی جے پی وہی کررہی ہے۔ اس نے مندر منہدم بھی کروا دیا اور اب اس لاٹھی سے عآپ کو پیٹنے کی کوشش کررہی ہے ۔ عآپ والوں نے بھی اپنے جھاڑو سے لاٹھی نکال  کر چلانا شروع کردیا ہے ۔ عام جنتا   رام کے بھکتوں  اور ہنومان  کی  سینا کے مہایدھ    سے  تفریح لیتے ہوئے کہہ  رہی ہے ۔ یہ مندر مندر کیا ہے ؟ یہ مندر مندر!    یہ حسن اتفاق ہے کہ اس جنگ میں راون کہیں نہیں ہے اور دونوں فریق بڑھ چڑھ کر  اس کی کمی کو پورا کررہے ہیں ۔

Comments are closed.