Baseerat Online News Portal

یہ وقت استغفار، توبہ اور ندامت کا ہے

مولانامحمد قمرالزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
کرونا وائرس ایک لا علاج بیماری کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اب تک حال یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس بیماری اور وبا کے سامنے سارے ڈاکٹر اور اطباء بے بس ہوگئے ہیں، دنیا کی ساری میڈکل ترقی اور طبی عروج دھری کی دھری رہ گئی ہےاور فوق کل ذی علم علیم کا مشاہدہ پوری دنیا نے کر لیا ہے اور اس کا کا اعتراف بھی سب کو ہوگیا ہےکہ و للہ الامر من قبل ومن بعد۔ اور الا لہ الحکم۔
ہر مرض کا علاج اور ہر بیماری کی دوا ? اللہ نے پیدا کردیا ہے ، لیکن دوا میں شفا دینا اللہ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس لیے اسباب سے زیادہ خالقِ اسباب کو راضی کرنا ، اس سے شفا کی بھیک مانگنا، اس کو راضی کرنا، اس کی طرف رجوع و انابت کرنا، اس سے توبہ کرنا، اس کے سامنے گڑگڑانا اور اس کے سامنے ندامت کے آنسو ٹپکانہ یہ سب سے زیادہضروری ہے،ندامت کے آنسو،توبہ اور انابت اس مرض خطیر کا موثر اور مفید علاج ہے۔ اجتماعی اور انفرادی اعتراف گناہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے۔ خالق کونین کو ندامت کے آنسو بہت پسند ہے۔ وہ اپنے بندوں کی آنکھوں کے قطرے کو بہت پسند کرتا ہے۔ اور یہ دولت خدا تعالی نے صرف انسان کو نوازا ہے، فرشتے چاہ کر بھی آنسو نہیں بہا سکتے اور نہ ہی فرشتے گناہ کرکے ندامت کے آنسو بہا سکتے ہیں، یہ نعمت اور صلاحیت اللہ نے صرف انسان کو ودیعت کیا ہے۔
مولانا محمد احمد پرتاپ گڑھی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعتراف قصور ہے
ہے ملک کو جس کی خبر نہیں وہ حضور میرا حضور ہے۔
اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس کے در پر پڑ جانیں۔ ندامت کے آنسو بہائیں، اعتراف قصور کریں اور اس کو راضی کرلیں ان شاء اللہ یہ حالات ختم ہوجاءیں گے اور مصیبت کی یہ گھڑی دور ہوجاءے گی۔
توبہ کیا ہے؟ اس کے شراءط کیا ہیں ، اس کے لیے ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس کا جاننا بھی ضروری ہے۔
گناہ کا احساس، غلطی کا اعتراف، اپنی کوتاہی،کمی اور لغزش پر ندامت و شرمندگی اور اپنے رب کی طرف خلوص دل سے رجوع و انابت آئندہ نہ کرنے کا عزم ،کسی بندہ کا حق مارا اور دبایا ہے تو اس کی بھرپائی اور تلافی ،ان تمام چیزوں کے مجموعے کا نام توبہ ہے ۔۔۔ توبہ ،قوم و فرد کی زندگی اور ان کے شعور کی بیداری کا کھلا ہوا ثبوت اور بین دلیل ہے ۔ اگر یہ نہ ہو تو یہ باور کیا جائے گا اور یہ سمجھا جائے گا کہ اس فرد کے اندر نیک و بد اور خیر و شر کا امتیاز صلاح و فساد کا فرق ختم ہوگیا ہے اور شب و روز کی درمیانی لکیر مٹ گئ ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ انسان ہمہ وقت اس احساس کو بہر حال جگائے رکھے ۔
انسان سے ہی غلطی ہوتی ہے ،بھول چوک یہ انسان کی فطرت ہے ،گناہ اور غلطی یہ انسان کی خمیر میں داخل ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل بنی آدم خطاء خیر الخطائین التوابون تمام اولاد آدم خطاء کار ہے ان سے بھول اور خطا کا قوی امکان ہے لیکن بہترین خطا کار وہ ہے جو گناہ کے بعد رجوع اور توبہ کرلے ۔ جانکنی سے پہلے پہلے اللہ تعالی بندے کے توبہ کو قبول کرتے ہیں اس کے بعد توبہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے ۔ ارشاد نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے : ان اللہ تعالی یقبل توبة العبد مالم یغرغر بیشک اللہ تعالی جانکنی سے پہلے پہلے تک بندہ کے توبہ کو قبول کرتے ہیں ۔
توبہ کا دروازہ ایمان والوں کے لئے ہمیشہ کھلا ہے ۔ ارشاد باری تعالٰی ہے : افلا یتوبوا الی اللہ و یستغفرونہ و اللہ غفور رحیم (سورہ مائدہ ۷۴)
سو یہ لوگ اللہ کے سامنے توبہ کیوں نہیں کرتے اور اس سے معافی نہیں چاہتے درآںحالانکہ اللہ بڑا مغفرت والا ،بڑا رحم والا ہے ۔
عربی لغت میں توبہ کے معنی ہیں رجوع کرنا ،لوٹنا اور دوری سے قریب کی طرف آنا ۔ یہ لفظ قرآن مجید نے بندے کے لئے بھی استعمال کیا ہے اور اللہ تعالی کے لئے بھی بندے کی توبہ یہ ہے کہ وہ ندامت کے ساتھ اپنے رب کی طرف رجوع کرے اور اللہ تعالی کی توبہ یہ ہے کہ وہ رحمت کے ساتھ اپنے بندے کی شرم ساری کو قبول فرمائے ۔ مفسرین نے مذکورہ آیت کی تفسیر میں یہ تفصیل بھی لکھی ہے کہ دنیا میں جتنے مذاہب ہیں ان میں انسان کو پیدائشی گنہگار ٹھہرایا گیا ہے ۔ ان کے نزدیک یہ بات بالکل اٹل ہے کہ انسان کو اس کے ہر گناہ کی سزا دی جائے ۔ یہی نظریہ کہیں کفارہ بن جاتا ہے تو کہیں عقیدئہ تناسخ ۔ مگر اسلام وہ دین کامل ہے جس نے زندگی کے کسی مرحلہ میں بھی انسان کو مایوس نہیں ہونے دیا ۔ اور یہ بتایا کہ اگر وہ موت کے آثار ظاہر ہونے سے پہلے پہلے صدق دل سے توبہ کرے تو اللہ تعالی اس کے گناہوں کو معاف فرماتا ہے،اور قیامت کے روز اسے اپنے سائیہ رحمت میں جگہ دیتا ہے ۔ یہی نہیں وہ توبہ کو اللہ تعالی کے ہاں اتنا پسندیدہ عمل قرار دیتا ہے کہ اسے عبادت شمار کرتا ہے ۔ اور یہ یقین دلاتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ توبہ سے تمہارے گناہ معاف ہوں گے بلکہ تمہارے نامئہ اعمال میں نیکیاں بھی لکھی جائیں گی کہ تم نے اپنے رب کے سامنے اپنے گناہوں اور خطاوں پر اظہار تاسف و ندامت کیا ہے ۔ بعض لوگ توبہ کو بڑھاپے کے لئے اٹھا رکھتے ہیں وہ سوچتے ہیں کہ جوانی کی عمر عیش پرستی میں گزارنے کے بعد عالم پیری میں پارسا بن جائیں گے مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں گناہوں کو فطرت ثانیہ بنا لینے کے بعد بڑھاپے میں بھی توبہ کی توفیق نہیں ملتی ۔ ۔سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کا کہنا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب آدمی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑ جاتا ہے ،اگر وہ توبہ کرلے تو سیاہی دھل جاتی ہے، ورنہ بار بار کے ارتکاب گناہ کے بعد یہ سیاہی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ پورا دل سیاہ ہوجاتا ہے، اور انسان سے توبہ کی توفیق بھی سلب کر لی جاتی ہے ۔ ( مستفاد منصف مینارئہ نور جمعہ ایڈیشن یکم مارچ۲۰۱۹ ء ۲۳/ جمادی الثانی ۴۰ھ)
ہمارے ایک قریبی عزیز مولانا شمس پرویز مظاہری مجلس۔۔۔۔ کالم کے تحت وقفہ وقفہ سے اصلاحی تحریر حالات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں۔ آج کی ان مجلس توبہ کے حوالہ سے ہے عزیزم نے دل نکال کر رکھ دیا ہے۔ موضوع کی مناسبت سے اسے بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
جہاں کوششیں تھک کر چور ہو جاتی ہیں۔وہیں سے دعاؤں کے تازہ دم قافلے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔بارگاہ حق میں خود سپردگی کا نذرانہ پیش کرنے والے قیل و قال اور سوال و جواب کی منزلوں سے کوسوں دور ، یقین کے مقام پر ، اقرار کی چھاؤں میں ، قلب و نگاہ کی ٹھنڈک محسوس کرتے ہیں۔۔وہ تو بس راہ وفا کے ایسے عجیب مسافر ہیں جنہیں صرف مٹنے ہی میں مزہ آتا ہے۔۔ان کی روحوں کے دروازے ایمان کی دستک پر کھلتے ہیں اور یہ صرف انہیں سے ملتے ہیں جو بن دیکھے ، بن جانے اور بن سمجھے بس ایمان لاتے ہیں۔۔
آج ہمیں اس صبح بے نور اور شب دیجور کے موقع پر اہسی ہی دیوانگی کی ضرورت ہے۔ممکن ہے کہ عقل روکے ، ہر قدم پر بار بار ٹوکے۔ ہو سکتا ہے کہ اسباب پر توجہ دلائے ۔اور بھی خوفناک و ہولناک حالات سامنے لائے اور بدترین امکانات و نتائج دکھا کر خوب ڈرائے۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ حالات بد سے بدتر ہیں۔ہم مردم خور وائرس کے خونی چنگل میں جکڑے ہوئے ہیں۔۔حیات انسانی کا کارواں تھم چکا ہے۔زندگی محبوس و مقید ہو کر رہ گئی ہے۔قافلوں کے نشانات قدم مٹتے جا رہے ہیں۔عقول انسانی متحیر و سرگرداں ہیں۔دماغوں کی ساری نسیں شل ہو چکی ہیں۔دنیا کی سپر پاور طاقتیں دم بخود اور سر بسجود ہیں۔سائنس، ٹکنالوجی، ایجادات، انکشافات جیسے الفاظ مہمل ہو چکے ہیں۔۔جسموں سے سانسوں کا ربط ٹوٹتا جا رہا ہے اور زندگی کا روح سے دامن چھوٹتا جا رہا ہے۔۔روزانہ سیکڑوں انسان لقمہ اجل بنتے جا رہے ہیں۔۔
ابھی کل ہی کی تو بات ہے کہ انسانی قافلہ رواں دواں تھا۔پرعزم و پرجواں تھا۔جوانی کی امنگیں تھیں اور طاقت و قوت کا نشہ تھا۔زمین و آسمان کے قلابے ملا دینے کے دعوے تھے۔،پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں سمو لینے کا غرور تھا۔ظلم و ستم عروج پر تھا۔۔قتل و غارت گری کا بازار گرم تھا۔حکمراں اپنی طاقت کے نشہ میں سرشار تھے اور امراء اپنی دولت کی سرمستی میں چور تھے۔فرعون کی فرعونیت بھی شباب پر تھی اور ابلیس کا تلبیس بھی عروج پر تھا۔سرشام کی رنگینیاں اور سیاہ رات کی بدکاریاں،کلبوں اور پارکوں کی آوارگی اور ساحل سمندر کی فحاشیاں سب کچھ تو اپنی انتہاء کو پہونچی ہوئی تھیں۔۔۔
دوستو!!!کان قریب کرو تو ایک پتہ کی بات کہوں کہ انسان کے مردہ ضمیر اور ناپاک و پلید خمیر کے تعفن نے جرثومے کی شکل اختیار کر لی اور زہریلی وائرس بن کر انسانوں کو ان کے گناہوں اور بد اعمالیوں سمیت نگلنے لگی۔۔دنیا کی نگاہیں اسباب و وسائل کی طرف ہیں۔۔ویکسن اور دوائیں تلاش کی جا رہی ہیں۔لیبارٹریز میں روز نئے نئے تجربات ہو رہے ہیں۔ائی سو لیشن وارڈ اور کورنٹائن سینٹر تیار کئے جا رہے ہیں۔۔لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹینسنگ مینیج کرنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔۔لیکن واہ رے بدمستو اور عقل کے مارو!!!آخر تمہاری نگاہیں تمہارے بد اعمالیوں پر ، تمہارے ظلم و ستم پر ، تمہاری بے حیائی و آوارگی پر ، تمہاری دیدہ دلیری ، شقاوت قلبی اور تنگ نظری پر کیوں نہیں جاتی؟؟؟طرفہ تماشہ تو یہ کہ ایسے نازک اور سنگین موقع پر بھی ابلیسی کارواں اور شیطانی جماعتیں اپنے افعال بد اور اعمال سوء سے باز نہیں آ رہیں۔فرعون کے چیلوں کا ایک ٹولہ ہے کہ اسلام کی دشمنی جن کے منہ سے زہریلا جھاگ بن کر ابتک نکل رہا ہے۔
بہر کیف!اہل ایمان کے لئے وعدے بھی ہیں اور بشارتیں بھی۔وعیدیں بھی ہیں اور دھمکیاں بھی۔۔آزمائشیں بھی ہیں اور مشکلات بھی۔ثابت قدم رہنے کی تلقین بھی ہے اور اعمال کے محاسبہ کی ترغیب بھی۔اور ان تمام کے ساتھ ساتھ گناہوں کے میل کچیل کو صاف کرنے کے لئے توبہ جیسی طہارت بھی۔
بھائیو!!!جو توبہ کی ٹھان چکے ہیں وہ یہ بھی جان چکے ہیں کہ خطاؤں کے گھنگھور اندھیروں کی چادر کو صرف ندامت کے آنسوؤں کی روشنی ہی چیر سکتی ہے۔جفا کا لباس اتار کر وفا کی بساط بچھانے والے ہی جانتے ہیں کہ توبہ ایک آگ ہے جو دلوں میں بھڑکتی ہے۔ایک نہر ہے جو آنکھوں سے نکلتی ہے۔ایک دعا ہے جو زبان کی زمین پر چلتی ہے اور ایک امید ہے جو قلوب کے مخفی گوشوں میں بخشش کے لئے پلتی ہے۔
صاحبو!!کیا اس امر کا انکار کیا جا سکتا ہے کہ آج کے ان نازک ترین حالات میں توبہ ہی اس مرض خطیر اور وباء کبیر کا علاج بھی ہے اور دوا بھی؟؟۔اسلئے ہمیں یقین کے زینہ پر چڑھنا ہوگا۔۔اجتماعی اعتراف گناہ ہی مصیبتوں کو ٹال سکتا ہے۔۔آنکھوں کا خالق اپنی تخلیق کو آنسوؤں سے بھرا بہتا دیکھنا چاہتا ہے۔۔لہجوں کا مالک التجا اور تضرع کی سسکیوں میں معصیت کی آخری ہچکی سننا چاہتا ہے۔۔سماعتوں کا رب ہر ملتجی عبد کی عاجزانہ پکار کا منتظر ہے۔۔ساجدین کا مسجود اس بات کا طالب ہے کہ اسکے بندے اسکے حضور اپنی پیشانیاں رگڑیں۔۔مسلمانوں کا مطلوب چاہتا ہے کہ اس سے رحم کا سوال کیا جائے۔۔ایمان والوں کا مقصود رحمت کا در کھولے راہ تک رہا ہے کہ اسکا بندہ اسکی بارگاہ میں لوٹ آئے۔
ع؎ ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔
پھر اسکو پکارنے میں اتنی دیر کیوں؟؟؟ہم اب اور کس قیامت کی راہ دیکھ رہے ہیں؟؟آہستہ آہستہ سب کچھ ہی تو برباد ہو رہا ہے۔خاک اڑاتے اور خون اگلتے چمن میں کچلی کیاریوں ، مسلی کلیوں اور بکھری پتیوں کے سوا اب بچا ہی کیا ہے؟؟
تو پھر آئیے!!!،ایک بار سب مل کر توبہ کریں کہ رب کی رحمت تو اسکے غضب پر غالب ہے۔۔

Comments are closed.