Baseerat Online News Portal

۔۔۔ورنہ نسلیں تباہ ہو جائیں گی

کامران غنی صبا،

مدیر اعزازی اردو نیٹ جاپان
رابطہ:9835450662

افشاں غنی ہماری چھوٹی بہن ہے۔ اس نے پٹنہ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے اور ابھی پٹنہ ویمنس کالج سے بی ایڈ کر رہی ہے۔ اللہ نے اسے ذہانت سے نوازا ہے۔ طبیعتاً خوش مزاج اور دوسروں کے کام آنے والی ہے اس لیے اساتذہ اور سہیلیوں میں ہر دل عزیز بھی ہے۔ وہ جب تک شعبۂ انگریزی ، پٹنہ یونیورسٹی میں رہی بہت ہی اطمینان کے ساتھ اپنے پورے مذہبی تشخص کے ساتھ تمام تعلیمی سرگرمیاں انجام دیتی رہی لیکن جب سے اس نے بی ایڈ (پٹنہ ویمنس کالج) میں داخلہ لیا ہے تب سے اسے سخت چیلنجز کا سامنا ہے۔ اسے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کی مذہبی شناخت مسئلہ بن رہی ہے۔ افشاں بتاتی ہے کہ کالج میں داخلہ کے بعد پہلی تعارفی کلاس میں طالبات سے ان کی کوئی ایک انفرادی شناخت پوچھی گئی تھی۔ سبھی طالبات نے اپنی اپنی شناخت بتانے کی کوشش کی۔ افشاں نے کہا کہ ’’پردہ‘‘ میری شناخت ہے۔ بس کیا تھا، صدر شعبہ کو یہ جواب پسند نہیں آیا۔ انہوں نے سب کے سامنے ہی جواب پر اعتراض کر دیا اور یہاں تک کہہ دیا کہ یہ کون سی شناخت ہوئی، یہ تو دقیانیوسیت کی علامت ہے۔ وہ بضد ہو گئیں کہ افشاں اپنا جواب تبدیل کر دے لیکن افشاں اپنے مؤقف پر قائم رہی۔ اس طرح شعبہ میں پہلے دن سے ہی’پردہ‘ اس کی شناخت بن گیا۔
افشاں کو کالج میں مجبور کیا گیا کہ وہ کالج آنے کے بعد اپنا حجاب اتار دیا کرے۔ افشاں کے پراعتماد انکار کے بعد صدر شعبہ نے یہ لاجک دینے کی کوشش کی کہ شعبہ میں زیادہ تر تو خواتین اور طالبات ہیں۔ اس لیے حجاب اتارنے میں کوئی مضائقہ نہیں، کچھ مرداساتذہ ہیں بھی تو وہ استاد ہیں اور استاد تو باپ کے برابر ہوتا ہے، اس لیے ان کے سامنے بھی حجاب ہٹانے میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ افشاں نے یہاں بھی مزاحمت کی اور کسی طرح صدر شعبہ کو راضی کر لیا کہ اسے حجاب میں رہتے ہوئے کلاس کرنے کی اجازت دی جائے۔
دو روز قبل افشاں کالج سے گھر آئی تو اس کا چہرااترا ہوا تھا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ آج پھر اسے کالج میں کافی مزاحمت کا سامانا کرنا پڑا ہے۔ اس نے بتایا کہ دو روز سے اسپورٹس ڈے کی تیاری چل رہی ہے۔ لڑکیوں کو دو گروپ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک گروپ کی لڑکیوں کو ’یوگا‘ کرنا ہے، دوسرے گروپ کی لڑکیاں ’سن فلاور ڈرل‘ میں حصہ لے رہی ہیں ۔ افشاں سے اس کی مرضی پوچھے بغیر ’یوگا‘ والے گروپ میں ڈال دیا گیا۔ افشاں کو احساس ہوا کہ ’یوگا‘ میں بہت سارے افعال تو بالکل شرکیہ ہیں۔دوسرے دن اس نے اپنی ٹیچر سے گزارش کہ مجھے یوگا والے گروپ سے ہٹا کر ’سن فلاور ڈرل‘ والے گروپ میں ڈال دیا جائے۔ ٹیچر نے وجہ جاننی چاہی تو افشاں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتا دیا کہ یوگا کے بہت سارے افعال ہمارے مذہبی نقطۂ نظر سے صحیح نہیں ہیں۔ ٹیچر کو یہ جواب شاید پسند نہیں آیا۔ انہوں نے ناگواری کااظہار کیا، افشاں کو صدر شعبہ کے پاس لے گئیں اور اس سے کہا گیا کہ آپ اپنے دماغ کو ’براڈ‘ کیجیے۔ افشاں نے دلائل کے ساتھ جب یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ یوگا ہمارے لیے کیسے درست نہیں ہے، اور جب ٹیچروں کو کوئی جواب نہیں بن پڑا تو اس سے یہ کہا جانے لگا کہ آخر آپ کو ہی ہر بات پر اعتراض کیوں ہوتا ہے؟ آپ کے ساتھ کی دوسری مسلم لڑکیاں یوگا کر رہی ہیں، انہیں کوئی مسئلہ نہیں اور آپ کہتی ہیں کہ یہ درست نہیں۔۔۔۔
افشاں بتاتی ہے کہ اب تک اس نے کسی ایسے معاملہ میں سمجھوتا نہیں کیا ہے جس سے اس کی مذہبی شناخت مجروح ہوتی ہو لیکن اس کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ بار بار اس کے سامنے شعبہ کی دوسری مسلم لڑکیوں کی مثال پیش کر دی جاتی ہے۔ بات چاہے پردہ کی ہو، نماز چھوڑنے کی یا تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کے نام پر غیر شائستہ افعال میں ملوث ہونے کی۔ ٹیچروں کو لگتا ہے کہ جب ساری مسلم لڑکیاں یہ سب کچھ بااطمیان کر سکتی ہیں تو صرف ایک لڑکی کو اعتراض کیوں ہے؟
یہ مسئلہ کوئی عام مسئلہ نہیں ہے، جسے نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ ہماری نسلوں کی تباہی کا دیباچہ ہے۔اسکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کی مسلم طالبات کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کی دیدہ و دانستہ کوشش ہے تاکہ وہ اپنے دین و مذہب اور اپنی تہذیب سے برگشتہ ہو جائیں۔ ہمارے اسکول کی ہیڈ میڈم نے ایک دن بتایا کہ پانچویں جماعت میں پڑھنے والی ان کی بیٹی نے ایک روز ان سے کہا کہ ’’امی! مجھے اپنی کلاس میں بہت ’’آڈ ‘‘سا محسوس ہوتا ہے۔ سبھی لڑکیاں سر کھُلارکھتی ہیں، خوشبو لگا کر آتی ہیں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں اس کلاس میں سب سے الگ ہوں۔‘‘ آپ ذرا تصور کریں کہ پانچویں جماعت سے جب ایسی سوچ پروان چڑھ رہی ہے تو ذہن کی پختگی تک کیا کچھ ہونے والا ہے؟
ہمارے یہاں لڑکیوں کی تربیت کا کوئی نظم نہیں ہے۔ ہم صرف پردہ کر لینے اور گھر کی چہار دیواریوں میں مقید کر لینے کو نسوانیت کی معراج سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہاں عورتوں کا مذہبی و فقہی شعور صفر کے برابر ہے۔آپ عورتوں سے متعلق بالکل عام فہم سے چند فقہی سوالات تیار کر لیں اور اپنے گھر کی عورتوں کا ہی سروے کر کے دیکھ لیں کہ کتنی عورتیں بنیادی فقہی مسائل سے آشنا ہیں۔ آپ کو مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔علمی، ادبی، سماجی و سیاسی معاملات میں بھی ہماری عورتیں بہت پیچھے ہیں۔ یقینا اس کے ذمہ دار مرد حضرات بھی ہیں، خواہ وہ باپ کی شکل میں ہوں یا بھائی اور شوہر کی صورت میں۔ ہم اپنے آس پا س کے گھر کی ہی عورتوں خاص طور پر اسکول کالجز کی طالبات کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کریں، شاید ہزار میں کوئی ایک خاتون یا طالبہ آپ کو مذہبی، علمی، ادبی یا سیاسی و سماجی طور پر سرگرم نظر آئے گی۔ ہمارے یہاں طالبات کی دلچسپی کیا ہے؟ عام کھانوں سے مختلف کوئی ’ڈش‘ مل گئی تو ’’یمی‘‘ لکھ کر واٹس ایپ اسٹیٹس لگا لیا۔ بہت زیادہ ہوا تو ڈائری میں اپنی ’’داستانِ غم‘‘ رقم کر دی۔۔۔ اور بس۔۔
بچوں کی نشو و نما اور اس کی شخصیت سازی میں ماں کا سب سے اہم کردار ہوتا ہے۔ آپ تاریخ کی بڑی بڑی شخصیات کی زندگی کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ ان کی شخصیت سازی میں ان کی ماں کا بہت ہی اہم کردار تھا۔ آج ہمارے سماج میں جو اخلاقی زوال ہے اس کی ایک بڑی وجہ ہمارے گھر کی عورتوں اور بچیوںکی ذہنی پسماندگی ہے۔ وہ بظاہر پہلے کی عورتوں سے زیادہ تعلیم یافتہ ضرور ہیں لیکن ان کے پاس کوئی وژن نہیں ہے۔ کوئی مقصد زندگی نہیں ہے۔ ان کی زندگی میں کوئی جوش و جذبہ نہیں ہے۔ ان کی آئڈیل خواتین حضرت فاطمہؓ اور عائشہؓ نہیں ہیں بلکہ اسکرین پر نظر آنے والی وہ بھٹکی ہوئی روحیں ہیں جن کا نام لینا بھی قلم کی عظمت کی توہین ہے۔
حالات دن بہ دن بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ہم نے اپنے گھر کی بچیوں کی کم عمری سے ہی مضبوط ذہنی تربیت نہیں کی اور صرف زور زبردستی سے انہیں ’پابند شرع‘ کرنے کی کوشش کرتے رہے تو اسکول کالج پہنچتے ہی ہماری بچیاں ہم سے، اپنے دین و مذہب سے اور اپنی تہذیبی قدروں سے متنفر ہونا شروع ہو جائیں گی اور نسلوں کی تباہی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔ قبل اس کے کہ ہم اس وقت کے گواہ بنیں ہمیں منظم اور منصوبہ بند طریقے سے اپنے گھروں کا نصاب خود مرتب کرنا ہوگا۔ اپنی بچیوں کو اتنا مضبوط بنانا ہوگا کہ وقت کی آندھیاں ان کے ایمان و یقین کی دیوار کو متزلزل نہ کر سکیں اور بروزِ حشر ہمیں اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ذلیل و رسوا نہ ہونا پڑے۔

Comments are closed.