Baseerat Online News Portal

26جنوری بھارت کا ایک یاد گار دن

مفتی محمد جمال الدین قاسمی
آل انڈیا ملی کونسل بہار،پھلواری شریف، پٹنہ
رابطہ نمبر:6201800479
آزاد ہندوستان کی تاریخ میں دو دن انتہائی اہمیت کے حامل ہیں،ایک15/اگست جس میں ملک انگریز کے چنگل سے آزاد ہوا،دوسرا 26/جنوری جس میں ملک جمہوری ہوا،یعنی اپنے ملک میں اپنے اوپر قانون لا گو اور نافذ ہوا۔
26 جنوری کی اہمیت یہ ہے کہ حکومت ہند ایکٹ جو 1935ء سے نافذ تھا،اس کو منسوخ کر کے آئین ہند کا نفاذ عمل میں آیا،دستور ساز اسمبلی نے آئین ہند کو 26نو مبر 1949ء کو اخذ کیا،اور 26 جنوری1950ء کو تنفیذ کی اجازت دے دی،آئین ہندکی تنفیذسے بھارت میں جمہوری طرز حکومت کا آغاز ہوا، آزاد ہندوستان کا اپنا دستور (قانون) بنانے کے لئے ڈاکٹربھیم راؤ امبیڈکر کی صدارت میں 29 اگست 1947ء کو سات رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی،جس کو ملک کا موجودہ دستور مرتب کرنے میں 2 سال 11ماہ اور 18دن لگے تھے،دستورساز اسمبلی کے مختلف اجلاس میں اس نئے دستور کی ہرایک شق پر کھلی بحث ہوئی،پھر 26 نومبر 1949ء کو اسے قبول کرلیاگیا، اور 24 جنوری 1950ء کوایک مختصراجلاس میں تمام ارکان نے نئے دستور پردستخط کردیا،البتہ مولانا حسرت موہانی نے مخالفت کرتے ہوئے دستورکے ڈرافٹ پر ایک نوٹ لکھا کہ یہ دستور برطانوی دستورکاہی اجراء اورتوسیع ہے،جس سے آزاد ہندوستانیوں اور آزا دہند کا مقصد پورا نہیں ہوتا ”بہرحال 26 جنوری 1950ء کو اس نئے قانون کولاگو کرکے ملک بھر میں پہلا ”یوم جمہوریہ” منایاگیا, اس طرح ہرسال 26 جنوری ” یوم جمہوریہ ” کے دن کے طور پر پورے ملک میں جوش وخروش کے ساتھ منایاجاتاہے،اور 15 اگست 1947ء کی طرح یہ تاریخ بھی ملک کا قومی اور یادگاری دن بن گیا ہے،26 جنوری جشن کے طور پر کیوں مناتے ہیں، تو آئیے تاریخ کے اوراق کا مشاہدہ کرتے ہیں، جشن کایہ دن ہندوستانیوں کو یونہی نہیں ملا،اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانیاں دینی پڑی، لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے پڑی ہیں،تب جاکر 26 جنوری کو جشن منانے کا یہ زریں موقعہ ہم ہندوستانیوں کو نصیب ہواہے،انگریزوں کا پہلا قافلہ 1601ء میں دور جہانگیری میں ہی ہندوستان آیاتھا،اس حساب سے ہندوستان سے انگریزوں کا انخلاء 1947ء میں 346 سال بعد ہوا،اس دوران ظلم وبربریت کی ایک طویل داستان لکھی گئی تھی، جس کا ہرصفحہ ہندوستانیوں کے خون سے لالہ زار ہے، جذبہ آزادی سے سرشار اورسر پر کفن باندھ کر وطن عزیز اور اپنی تہذیب وتمدن کی بقاء کیلئے بے خطر آتش افرنگی میں کودنے والوں میں مسلمان پیش پیش تھے، جنگ آزادی میں مسلمانوں کی قربانیاں اگر الگ کردی جائیں، تو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ کبھی مکمل نہ ہوگی، آزادی ملنے کے بعد سب سے بڑا مسئلہ یہ اٹھا کہ ملک کا دستور کیسا ہو،مذہبی ہو یا لامذہبی، اقلیت و اکثریت کے درمیان حقوق کس طرح طے کئے جائیں، چنانچہ آئین ہند کے ابتداء حصے میں صاف صاف یہ لکھا گیا ہے کہ ہم ہندوستانی عوام یہ تجویز کرتے ہیں کہ ہندوستان کو ایک آزاد سماجوادی،جمہوری،ملک کی حیثیت سے وجود میں لایا جائے، جس میں تمام شہریوں کیلئے سماجی،معاشی، سیاسی، انصاف، آزادء خیال،آزادی اظہار راے،آزادء عقیدہ ومذہب وعبادات،انفرادی تشخص، اوراحترام کو یقینی بنایا جائے گا،اور ملک کی سالمیت و یکجہتی کو قائم ودائم رکہا جائیگا،آزادی کے بعد ملک میں سیکولر جمہوری نظام نافذ کرانے میں جمعیت علماء ہند کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے، جمعیت علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بحیثیت رکن دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کو مراعات دلانے میں اہم کردار ادا کیاہے،1971ء میں اندراگاندہی نے دستور کے اسی ابتدائیہ میں لفظ،،سیکولر،، کااضافہ کیاتھا،ہندوستانی جمہوری نظام ایک بہترین نظام ہے،اس میں مختلف افکار وخیالات، اورتہذیب وتمدن کے لوگ بستے ہیں، اور یہی مختلف رنگارنگی تہذیب یہاں کی پہچان ہے، 26 جنوری کو اسی مساوی دستور وآئین کی تائید میں اور کثیر المذاہب ملک ہونے کے باوجود باہمی یکجہتی اور میل جول کے اس عظیم ملک ہندوستان کی جمہوریت پرناز کرنے کیلئے 26جنوری کو،،جشن جمہوریت،، مناکر شہیدان ملک اور آئین کے بانیین ومرتبین اور ملک کی آزادی میں اپنی جانوں کانذرانہ پیش کرنے والے مجاہدین آزادی کو بہترین خراج عقیدت پیش کی جاتی ہے، انگریزوں نے،،ایسٹ انڈیا کمپنی،، کے ساتھ 1601ء میں تجارت کی غرض سے ہندوستان آیا، اس وقت ہندوستان میں جہانگیر بادشاہ کی حکومت تھی (یہ اکبر بادشاہ کا لڑکا تھا،اس کا اصل نام سلیم نورالدین اور لقب جہانگیرتھا) انگریزوں کو باقاعدہ تجارت کی اجازت جہانگیر کے دوسرے لڑکے شاہ خرم (شاہجہاں) نے دی تھی، رفتہ رفتہ اس کمپنی نے تجارت کی آڑ میں اپنی فوجی طاقتوں میں اضافہ کرنا شروع کردیاتھا (یعنی مال کی جگہ ہتھیار اور ملازم کی آڑمیں فوجیوں کو انگلستان سے بلاناشروع کردیاتھا)مگردہلی میں مغلیہ سلطنت اس قدر مضبوط تھے کہ انگریزوں کو خاطرخواہ کامیابی نہیں ملی,شاہجہاں کے دوسرے لڑکے اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے بعد مغلیہ سلطنت کمزور ہونے لگی، اٹھارہویں صدی میں مغلیہ سلطنت کی عظمت کا سکہ کمزور ہوتے ہی انگریزوں کے عروج کادور شروع ہوگیا،عیار اورشاطرانگریزوں نے پورے ملک پر قبضے کا پلان بنالیا،ہندوستا نیوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کامنصوبہ طے کرلیا، ان کے خطرناک عزائم اور منصوبے کو بھانپ کر سب سے پہلے میدان پلاسی میں جس مرد مجاہد نے انگریزوں سے مقابلہ کیا، اور 1757ء میں جام شہادت نوش کیا، وہ شیر بنگال نواب سراج الدولہ تھا، پھر 1799ء میں سرنگاپٹنم میں انگریزوں کامردانہ وارمقابلہ کرتے ہوئے شیر میسورٹیپو سلطان نے ملک پرجان نچھاور کردی،جس کی شہادت پرانگریز فاتح لارڈہارس نے فخر ومسرت کے ساتھ یہ اعلان کیا تھا کہ،، آج سے ہندوستان ہماراہے،،1803ء میں انگریزی فوج دہلی میں فاتحانہ انداز میں داخل ہوا،اور بادشاہ وقت،،شاہ عالم ثانی،،سے جبراً ایک معاہدہ لکھوایا کہ خلق خداکی،ملک بادشاہ سلامت کا،اورحکم کمپنی بہادر کا،یہ بات اس قدرعام ہوگئے کہ لوگ کہنے لگے،،حکومت شاہ عالم ازدہلی تاپالم،،یہ معاہدہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ ہندوستان سے اب اسلامی اقتدار ختم ہوچکاہے،وحشت و بربریت،ظلم وستم کی گھنگھورگھٹائیں پوری فضاء کوگھیرچکی ہیں،وطنی آزادی اورمذہبی تشخص ان کے رحم وکرم پرہوگی،ایسے بھیانک ماحول اورپرفتن حالات میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بیٹے شاہ عبدالعزیزدہلوی نے پوری جرأت وبیباکی کیساتھ فتوی جاری کیاکہ،،ہندوستان دارالحرب ہے،،یعنی اب ملک غلام ہوچکا ہے،لہذا بلاتفریق مذہب وملت، ہر ہندوستانی پرانگریزی تسلط کے خلاف جہاد فرض ہے، ان کے فتوی کی روشنی میں علماء کھڑے ہوئے،سیداحمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید رحمہم اللہ آگے بڑھے،پورے ملک کادورہ کرکے قوم کوجگایا،اور ان میں حریت کاجذبہ پیدا کرکے آزادی کی آگ لگادی،اور 1831ء کو بالاکوٹ کی پہاڑی پر لڑکر جام شہادت نوش کیا،دھیرے دھیرے پورے ملک میں انگریزوں کے خلاف آزادی کی چنگاریاں سلگنے لگی، 1857ء میں علماء نے پھر جہاد کا فتوی دیا،جس کی وجہ سے انگیزوں کے خلاف معرکہ کارزار ایک بار پھرگرم ہوگیا،دوسری طرف انگریزی فوجیں پورے ملک میں پھیل چکی تھیں، اورہندوستان سے مذہبی بیداری و سرگرمی ختم کرنے کے لئے انگریزوں نے بیشمار عیساء مبلغین (پادری) کو بھی میدان میں اتاردیاتھا،جسے انگریزی فوج کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی، جو جگہ جگہ تقریریں کرتے اور عیسائیت کا پرچارکرتے، اسی دوران یہ خبر گشت کرنے لگی کہ انگریزی حکو مت نے ہندومسلم کا مذہب خراب کرنے کیلئے اور دونوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کیلئے آٹے میں گائے اورسور کی ہڈی کا برادہ ملادیا ہے، کنویں میں گائے اور سور کا گوشت ڈلوادیا ہے،ان واقعات نے ہندوستانیوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی ایک ایسی آگ لگادی،جس کی وجہ سے انگریزی فوج میں ملازمت کررہے ہندومسلم سب نے زبردست احتجاج کیا،کلکتہ سیاحتجاج کی جو چنگاریاں اٹھی تھی وہ دھیرے دھیرے پورے ملک میں شعلہ جوالہ بن گئیں،احتجاج کرنے والے سپاہیوں اور انکے ساتھیوں کو پھانسی دے دی گئی، اورجہاں جہاں احتجاج ہوا اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بجائے سخت سے سخت کاروائی کی گئیں، احتجاجیوں کی بندوقیں چھین لی گئیں،وردیاں پھاڑ دی گئیں،1857ء میں شاملی کے میدان میں مرشد العلماء حاجی امداد اللہ مہاجرمکی کی قیادت میں بانی دارالعلوم دیوبند مولانا محمد قاسم نانوتوی،مولانا رشید احمد گنگوہی،اور حافظ ضامن شہید رحمھم اللہ وغیرھم نے انگریزوں سے مردانہ وار مقابلہ کیا، بغاوت پھوٹنے کے بعد زیادہ تر آزادی کے دیوانوں نے دہلی کا رخ کیا، اور پورے عزم وحوصلہ کے ساتھ دہلی شہر اورمغلیہ حکومت کا دفاع کرتے رہے، مگر انگریزوں کی منظم فوج کے سامنے آزادی کی یہ جنگ ناکام ہوگئی،اور انگریزوں نے 20 ستمبر 1857ء کو لال قلعہ پر باقاعدہ قبضہ کرلیا، اورسلطنت مغلیہ کے آخری بادشاہ بہادرشاہ ظفر کو گرفتار کرکے رنگون (برما) جلاوطن کر دیاگیا1857ء کی جنگ،جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیاتھا،اس جنگ کے ناکام ہونے کے بعد انگریزوں نے ظلم وستم کی ایسی بجلیاں گرائیں کہ جس کے تصور سے ہی روح کانپ اٹھتی ہیں،جنگ آزادی میں سب سے پیش پیش مسلمان اور علماء تھے،اس لئے بدلہ بھی چن چن کر سب سے زیادہ انہیں سے لیا گیا، دہلی سے لاہور تک کوء درخت ایسا نہیں تھا جس پر علماء کی لاشیں لٹکی ہوئی نہیں تھی،40 ہزار سے زائد علماء کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیاتھا,30/ مئی 1866ء کو حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور انکے ساتھیوں نے دیوبند میں ایک مدرسہ کی بنیاد ڈالی جو آگے چل کر،، دارالعلوم دیوبند،، کے نام سے پورے عالم میں مشہور ہوا، 1878ء میں اسی درسگاہ کے ایک فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی جو آگے چل کر،،شیخ الہند،، کے لقب سے مشہورہوئے، تحریک ریشمی رومال یا تحریک شیخ الہند،، بزبان حکومت برٹش،، ریشمی خطوط سازش کیس،، انہیں کی پالیسی کاحصہ تھی،،ثمرۃ التربیت،، کے نام سے ایک انجمن قائم کی گئی جس کا مقصد انقلابی مجاہدین تیارکرنا تھا، اور1911ء میں مولانا ابوالکلام آزاد نے بھی کلکتہ سے،،الہلال اخبار،،کے ذریعہ آزادی کا صور پھونکا تھا،1915ء میں ریشمی رومال کی تحریک چلی، 1916ء میں ہندو مسلم اتحادکی تحریک چلی،1917ء میں مہاتماگاندھی جی نے چمپارن میں ڈانڈی مارچ اورنمک ستیہ آگرہ تحریک چلاء اور 1919ء میں،، جمعیۃالانصار،، کے نام سے ایک تنظیم قائم ہوئی، جس کے پہلے ناظم مولانا عبیداللہ سندھی منتخب ہوئے،وہیں 23/ نومبر 1919ء میں دہلی میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا اور اسی اجلاس میں باضابطہ،،جمعیت علماء ہند،، کی تشکیل ہوئی جس کے پہلے صدر مفتی محمد کفایت اللہ صاحب منتخب ہوئے1919ء میں ہی امرتسر کے جلیاں والا باغ کے ایک جلسہ میں انگریزوں کی فائرنگ سے بے شمار ہندوستانی شہید ہوئے،1920ء میں حضرت شیخ الہند نے ترک موالات کافتوی دیا جسے مولانا ابوالمحاسن سجاد بہاری نے مرتب کرکے جمعیت کی طرف سے شائع کیا،1921ء میں مولانا حسین احمد مدنی نے کرانچی میں پوری جرأت کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ،، گورنمنٹ برطانیہ کی اعانت اورملازمت حرام ہے،،1922ء میں ہندو مسلم اتحاد ختم کرنے کیلئے انگریزوں نے شدھی اور سنگھٹن تحریکیں شروع کیں،جس کی وجہ سے بڑے پیمانہ پرملک بھر میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے،1926ء میں کلکتہ میں جمعیت علماء ہند کے اجلاس میں جس کی صدارت مولانا سید سلیمان ندوی نے کی، مکمل آزادی کی قرارداد منظور ہوئی، 1935 ء میں حکومت ہند کا ایک دستور بنایاگیا، 1942ء میں انگریزوں ہندوستان چھوڑوں تحریک چلی،بالآخر برٹش حکومت گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوئی،اور 15/اگست 1947ء کو ملک آزاد ہوگیا۔
شروع کی جس نے آزادی کی لڑائی وہ مسلمان ہی تھا
دیا ہند کو تاج محل جس نے وہ شخص مسلمان ہی تھا
جہاں لہراتا ہے ترنگا آج بھی بڑی شان سے
کیاتعمیر جس نے لال قلعہ وہ شخص مسلمان ہی تھا۔
26جنوری یوم جمہوریہ کے جشن زریں کے موقع پر آئیے ہم سب ملکر آئین کے تحفظ اور جمہوری اقدار کی بقا کو مقدم رکھنے کا حلف لیں اور ’ یوم جمہوریہ ‘ کے معماروں کو سچی خراج عقیدت پیش کریں۔
اللہ تعالیٰ عظیم ہمارے اس ملک کو دشمنوں کے فتنہ شروفساد سے محفوظ رکھے،ہمارے وطن عزیز کو امن وآشتی کا گہوارہ بنائے،اور اسے مزید ترقیوں سے نوازے۔آمین

 

Comments are closed.