Baseerat Online News Portal

عیدالفطر اجتماعی عبادت وشادمانی اور خدا کی رضاوخوشنودی کادن ہے

مولانا انیس الرحمن قاسمی
چیرمین ابوالکلام ریسرچ فاؤنڈیشن،قومی نائب صدر آل انڈیا ملی کونسل
عیدکادن خوشی کادن ہے اوریہ اللہ کے احسان کویادکرکے اس کاشکراداکرنے کادن ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایاہے:(اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرناچاہتاہے، سختی کرنانہیں چاہتا؛اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایاجارہاہے؛تاکہ تم روزوں کی تعدادپوری کرسکواورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے،اس پراللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو اور شکر کرو)(سورۃالبقرۃ:185)
عید کا دن اجتماعی عبادت وشادمانی اور خدا کی رضاوخوشنودی کادن ہے۔انسانی فطرت ہے کہ قوم کے سارے افراد بڑے اور چھوٹے،جب کسی خاص مقصد کے لیے اپنے اپنے گھروں سے نکل کر بڑی جگہ جمع ہوتے ہیں تو فطری طورپر ان کے اندر مسرت وشادمانی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ دن ان کے لیے زندگی سے بھرپور دن بن جاتاہے،اس دن ان کی افرادی شان وشوکت کااظہار ہوتاہے،عید کا دن بھی امت محمدیہ کے لیے ایسا ہی دن ہے،جس میں ان کی خوشی وشادمانی کاظہور ہوتا ہے اور ایک خاص مقصد سے جمع ہونے پر ان کی روح میں بالیدگی اورعظمت وجلالت میں اضافہ ہوتاہے، مگر افسوس ہے کہ عہد رسالت پر جیسے جیسے زمانہ طویل گذرتاگیا اور نور نبوت لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا،عید کا مقصد اور خطبہ عید کا حقیقی پیغام بھی فوت ہوتاگیا اور عید کی روح وحقیقت پرتوجہ کے بجائے رسوم وعادات اور ظاہری صورت وشکل کی نگہداشت پرقوت صرف ہونے لگی؛اس لیے آج اس کی ضرورت ہے کہ عید کی اصل حقیقت وروح کوعام کیاجائے اور بتایا جائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کی عید کیسی ہواکرتی تھی۔
جوچیزانسان کی روحانی زندگی کے لیے سمِّ قاتل اور روح کو اس کے اصل منبع وسرچشمہ (ذات الٰہی) سے پھیرنے والی ہے،وہ ہے خواہشات نفس کی پیروی،جس کے تحت انسان اندھاہو کر معدہ کی پیروی شروع کردیتا ہے اورہرجائزوناجائز حلال وحرام سے اس جہنم کو بھرنے میں لگ جاتا ہے،نتیجہ کے طورپرانسان کی ساری زندگی معدہ کے نظام کے گرد گردش کرنے لگتی ہے،روزہ اسی لذت پسندی وخواہشات نفس کی پیروی پر روک لگاتا ہے اور رمضان کے پورے مہینہ میں جب کوئی شخص صبح صادق سے غروب آفتاب تک معدہ کے نظام پر بھوکا پیاسا رہ کر قابو پالیتا ہے اور حقیقی روزہ اسے نصیب ہوتاہے تو اس کو تقویٰ کامنصب عطا ہوتا ہے اوروہ اللہ کے نزدیک متقین میں شمار ہوتاہے اور مہینہ ختم ہونے پرجس شام چاند نظر آتا ہے تواس کی بلندروحانی زندگی کی تکمیل ہوجاتی ہے اوراس رات اللہ کی طرف سے انعام واکرام کی بارش ہوتی ہے؛اسی لیے ایمان والوں کو ہلال عید کاانتظار ہوتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے:”چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار(عیدالفطر) کرو اوراگر چاند نظر نہ آئے تو پھر تیس دن کی گنتی پوری کرو“۔(صحیح البخاری،باب قول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم إذا رأیتم الہلال فصوموا،رقم الحدیث:1900)
رمضان کے آخری دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں اعتکاف کرتے تھے اور آخری دن صحابہ کرام چاند دیکھنے کااہتمام کرتے تھے اور چاند نظرآجاتا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبتادیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی چانددیکھنے کااہتمام کرتے تھے اور جب چاند نظر آجاتا تو اپنے رب کا شکرادا کرتے ہوئے یوں گویا ہوتے:”اے اللہ!اس چاندکوہمارے لیے امن وایمان اورسلامتی واسلام کا چاند بناکر نکال، اے چاند!میرا اورتمہارا رب اللہ ہی ہے“۔(سنن الترمذی،باب مایقول عند رویۃ الہلال،رقم الحدیث:3451)
ایمان سے بھرپور وذکرالٰہی سے ترزبان کے اوپرجاری یہ دعائیہ الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ مومن کی توجہ ہرلمحہ اللہ کی طرف ہونی چاہئے، عید گرچہ چاند کی رونمائی پرمعلق ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ چاند بے تأثیر ہے،وہ تو علامت ہے حکم رب کی اور رب ایک ہی ہے،جوہماری اور ساری کائنات اور نظام شمسی کی پرورش کرتا ہے اور وہ اللہ ہے۔
ہلال عید کے طلوع کے ساتھ اعتکاف ختم ہوجاتا ہے اور شب عید شروع ہوجاتی ہے، یہ شب ایسی ہے،جوانعام واکرام کے لیے خاص ہے؛اس لیے ایمان والے بندے اس شب کو گپ وشپ کی محفلوں،یا بازاروں ودکانوں میں نہیں گزارتے؛بلکہ اللہ جل شانہ کے اکرام وانعام کے انتظار میں اس کی عبادت میں مشغول ہوجاتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ اس رات میں خاص عبادت کی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:”اوراس دن کو آسمانوں پریوم الجائزۃ؛یعنی انعام کے دن سے لیا جاتا ہے“۔(المعجم الکبیرللطبرانی،باب فیمااعداللہ عزوجل للمؤمنین:1/226)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
”پانچوں راتوں کی دعائیں نہیں لوٹائی جاتی،یعنی قبول ہوتی ہیں:جمعہ کی رات،یکم رجب کی رات، شب برأت یعنی پندرہ شعبان کی رات اورعیدالفطر وعید الاضحی کی رات“۔(مصنف عبدالرزاق،باب النصف من شعبان،رقم الحدیث:7927)
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:”جو شخص عیدین کی رات کا قیام کیاتو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن سارے قلوب مردہ ہوجائیں گے“۔(السنن الکبریٰ للبیھقی،باب عبادۃلیلۃالعیدین،رقم الحدیث:6293)
اسی لیے فقہانے بھی عیدین کی رات میں جاگنااورعبادت کرنامستحب لکھاہے،امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ خبرپہونچی ہے کہ پانچ راتیں دعاکی قبولیت کی ہیں:
”جمعہ کی رات، عیدین کی راتیں، رجب کے مہینہ کی پہلی رات اور نصف شعبان کی رات“۔(ابن عساکر فی تاریخ دمشق:10/408،السنن الکبریٰ للبیھقی:3/445)
آپ غورکیجیے کہ شب عید ختم ہوتے ہی جب مشرق سے سورج کی پہلی شعاع فضاء بسیط پرپڑنے لگتی ہے اور صبح صادق طلوع ہوتی ہے توفرشتے زمین پرقطارلگاکر کھڑے ہوجاتے ہیں؛تاکہ ایمان والوں کاعیدگاہ کے راستہ میں استقبال کریں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ہیں اور عید کی شروعات بھی مدینہ کی آمد سے فرضیت صیام رمضان کے بعد ہوئی ہے،یہ سن:۲ھ کا سال ہے،گرمی کا موسم ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نمازادا کرتے ہیں،اس کے بعدصلوٰۃ العید کی تیاری فرماتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کو خاص طورپرغسل فرمایا،غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت شریفہ تھی کہ اپنے بالوں میں کنگھاکرتے،آنکھوں میں سرمہ لگاتے،خوشبو بدن پرملتے،اگرناخن بڑھے ہوئے ہوتے توان کوتراشتے اوربدن کے زائد بالوں کو اتارتے۔غسل کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے روز اپنے موجود کپڑوں میں جوعمدہ کپڑا ہوتا اسے زیب تن فرماتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمنی حلہ تھا،جس کی دھاریاں سرخ تھیں،عام طورپر اس حلہ کوپہنتے اورلوگوں کو آپ جمعہ اور عیدین کے لیے عمدہ کپڑا پہننے کے لیے فرماتے؛کیونکہ اس جیسے اجتماع کے موقع پر عمدہ کپڑا حسب استطاعت پہننا اللہ تعالیٰ کو پسند ہے،یہ قطعاً مناسب نہیں کہ عید کے لیے لازمی طورپرغیر ضروری اخراجات کرکے نئے اور بیش قیمت کپڑے بنائے جائیں،اس زمانہ میں نئے کپڑوں کی خریداری اورعید کے لیے اس کو جزو لازم کے طورپر اختیار کرنے کا مزاج پیدا ہوگیاہے،اس میں اسراف وفضول خرچی عام ہے، اس سے بچناچاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ جانے سے پہلے صدقۃ الفطر کی ادائیگی کاحکم فرماتے تھے؛تاکہ مسرت کے اس دن میں صدقہئ فطرکے ذریعہ محتاجوں ومسکینوں کی بھی شکم سیری وآسودگی کاانتظام ہوجائے اور اللہ کے حضور عیدگاہ اس حال میں جائیں کہ اگر ان کی زبان کی بے احتیاطوں و بے باکیوں سے روزے پر جو برے اثرات پڑے ہوں،یہ صدقہئ فطر ان کا کفارہ بھی ہوجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانقل فرماتے ہیں:”آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزوں کو فضول ولایعنی اور فحش باتوں کے اثرات سے پاک وصاف کرنے کے لیے اورمسکینوں ومحتاجوں کے کھانے کے بندوبست کے لیے صدقہ فطر کو واجب قراردیا“۔(سنن أبی داؤد،باب زکوٰۃ الفطر،رقم الحدیث:1609)
صدقہئ فطر کی مزید تفصیل،ادائیگی کا وقت اور مقدار کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماکی روایت سے وضاحت ملتی ہے،فرماتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں میں سے ہرغلام وآزاد پراور ہر مرد وعورت پر اور ہر بڑے اور چھوٹے پرصدقہئ فطر لازم کیا ہے اور یہ صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو ہے اور حکم دیا ہے کہ یہ صدقہ فطر نماز عید کے لیے جانے سے پہلے ادا کردیا جائے“۔(صحیح البخاری،باب فرض صدقۃ الفطر،رقم الحدیث:1503)
یہ صدقہ غریبوں ومسکینوں پرواجب نہیں ہے؛بلکہ ایسے مالدار وغنی شخص پرواجب ہے،جوعید کے دن ساڑھے باون تولہ چاندی،یاساڑھے سات تولہ سونا،یا اس کے بقدر روپیہ کا مالک ہو،ایسا شخص خود اپنی طرف سے اوراپنے نابالغ بچوں کی طرف سے بھی ادا کرے گا،یہ توواجب ہے،مگر بہتر یہ ہے کہ جو شخص اتنی مالیت نہ رکھتا ہو،وہ بھی صدقہئ فطر نکالے؛تاکہ فقرا ومساکین کے لیے اس دن تنگی نہ ہو اورخود اس کے روزہ کے برے اثرات زائل ہوجائیں، اگر صدقہئ فطررمضان میں ادا کیاجائے تو بھی صحیح ہے۔
ایک صاع کی مقدار ایک کیلوچھ سوبانوے گرام کے قریب ہے،اس زمانہ میں چھوٹے گھرانہ کی غذا کے لیے یہ مقدار کافی ہوتی تھی؛اس لیے اس حساب سے صدقہ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا،جس سے ایک گھرانہ کے ایک دن،یا ایک وقت کے کھانے کاخرچ چل سکے۔(صدقۃ الفطر کی مقدار نصف صاع گیہوں ہے،اس کا وزن تولہ کے حساب سے 135/تولہ ہے،بارہ ماشہ کا ایک تولہ،گیارہ (11)گرام چھ سو چونسٹھ(664)ملی گرام ہوتاہے،موجودہ دورمیں نصف صاع کا وزن ایک کیلو پانچ سو چوہتر(1574)گرام،چھ سو چالیس(640)ملی گرام ہوتاہے اوریہی صدقۃالفطر کی حقیقی مقدار ہے۔(ایضاح المسائل:۸۹)فتاویٰ دارالعلومدیوبند(۴/۳۶۳)میں ایک کیلو چھ سو تینتیس گرام(1633) گیہوں اورفتاویٰ امارت شرعیہ (3/138)میں ایک کیلو چھ سو بانوے گرام(1692)گیہوں کی صراحت درج ہے،مولانا عبدالصمد رحمانی رحمۃاللہ علیہ کتاب العشر والزکوٰۃ میں لکھتے ہیں کہ ہماری اورایک کثیر جماعت محققین کی تحقیق یہ ہے کہ ایک صاع تین کیلو تین سو چوراسی گرام ہے،پس واجب ہے کہ کم از کم اسی حساب سے فطرہ دیا جائے اوراحتیاط کی بناپر زیادہ جس قدر بھی دیا جائے،ثواب ہی ہوگا،گناہ تو ہوگا نہیں۔(کتاب العشر والزکوٰۃ:315)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید گاہ جانے سے پہلے چند کھجوریں کھاتے تھے؛ تاکہ یہ دن جواللہ کی طرف سے ”فطر“یعنی روزہ نہ رکھنے اور کھانے کادن ہے،اس کااظہارہوسکے، رمضان کے مہینہ میں نہ کھانا اور نہ پینا ہی عبادت تھااور آج اللہ کی رضا وخوشنودی اس میں ہے کہ صبح صبح کچھ کھائے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن نمازعید کو تشریف لے جانے سے پہلے چند کھجوریں کھاتے تھے،جو طاق عدد میں ہوتے تھے؛یعنی:تین،پانچ،یا سات ہوتے تھے“۔(صحیح البخاری،باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج،رقم الحدیث:953)
جب روشنی پھیل جاتی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدگاہ کے لیے روانہ ہوتے،عام طورپر آپ کا معمول ہوتاکہ ایک راستہ سے گزرتے ہوئے عیدگاہ جاتے اور دوسرے راستہ سے نماز کے بعد واپس آتے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ کہتے ہیں:
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دن(عیدگاہ جانے اورآنے میں) راستہ بدل دیتے تھے“۔(صحیح البخاری باب من خالف الطریق اذا رجع یوم العید،رقم الحدیث:986)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں مدینہ طیبہ کی آبادی سے باہر وہ صحرائی میدان عیدگاہ کے لیے مخصوص تھا،جہاں حجاج آکر ٹھہرتے اور سامان اتارتے تھے،یہ مسجد نبوی سے تقریباً ایک ہزار قدم کی دوری پرمشرقی جانب میں تھا،اس کے ارد گرد کوئی چہار دیواری نہ تھی؛بلکہ ایک چٹیل صحرائی میدان تھا،جس میں آپ نماز عید ادا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام بالغ مردوں کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عورتیں اور بچے بھی عیدگاہ پہنچتے تھے اور مردوں سے الگ ایک جگہ عورتیں جمع ہوتی تھیں اور نماز پڑھتی تھیں،گرچہ ان پر یہ نماز واجب نہ تھی؛لیکن زمانہئ مابعدمیں جب مسلم معاشرہ میں فساد آگیااوران کے نکلنے اور عیدگاہ جانے میں فتنہ و شرکااندیشہ پیداہوگیاتوجس طرح فقہاء امت نے جمعہ اورنمازپنجگانہ کے لیے خواتین کامسجدوں میں آنا مناسب نہیں سمجھا،اسی طرح نماز عید کے لیے ان کاعیدگاہ جانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عیدگاہ پہنچتے توآفتاب افق سے تقریباً دونیزہ اوپر بلندی پرجاکر چمک رہا ہوتا،آپ کے پہنچنے کے بعد صفیں درست ہوجاتیں اورآپ نماز پڑھانے کے لیے آگے بڑھ جاتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے نیزہ گاڑدیاجاتاتھا، آپ نماز دورکعت پڑھاتے تھے اور اس میں قرآن مجید کی تلاوت قیام کی حالت میں بلند آواز سے کرتے تھے،کبھی سورہئ ق اور سورہئ قمر اور کبھی سورہ اعلیٰ اورسورہئ غاشیہ پڑھا کرتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نمازپڑھا کرفارغ ہوتے تولوگوں کی طرف رخ کرکے خطبہ کے لیے کھڑے ہوتے اور لوگ بدستور صفوں میں بیٹھے رہتے،پھرآپ ان کووعظ ونصیحت فرماتے اوراحکام دیتے،اگر آپ کاارادہ کوئی لشکر،یا دستہ تیار کرکے کسی طرف روانہ کرنے کا ہوتاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ کے بعد اس کو بھی روانہ کرتے،اسی طرح کسی دیگر اجتماعی وانفرادی امور سے متعلق آپ کو کوئی حکم دینا ہوتاتو اسی موقع پر وہ بھی دیتے تھے،کبھی ضرورت ہوئی توجہاں عورتیں جمع ہوتیں،وہاں جاکر ان کو وعظ ونصیحت کرتے، بالخصوص صدقہ وخیرات ادا کرنے کی ترغیب دیتے۔(صحیح البخاری،کتاب العیدین)
عیدین کی نمازرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں عیدگاہ میں ہواکرتی تھی،البتہ ایک بار عید کے دن بارش ہوئی تھی،اس کی وجہ سے آپ صلی ا للہ علیہ وسلم نے ”مسجد“ میں عید کی نماز پڑھی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں:”ایک دفعہ عید کے دن بارش ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو عید کی نماز مسجد نبوی میں پڑھائی۔(سنن ابن ماجہ،باب ما جاء فی صلاۃ العید فی المسجد إذا کان مطر،رقم الحدیث:1313)
نیز وبائی امراض اورلاک ڈاؤن کے زمانہ میں اگر بڑی جماعتوں کے ساتھ نماز ادا کرنے میں دشواری ہوتو ایسی صورت میں مختصر جماعت کے ساتھ ہر جگہ عید الفطر کی نماز ادا کی جائے گی،چاہے گھروں کے دالان ہوں،بیٹھک ہوں،چھت ہوں،یا احاطے ہوں،بشرطیکہ دوسرے لوگ بھی شامل ہوسکتے ہوں،ایسی جگہوں پر عید کی نماز خطبہ کے ساتھ ادا کی جائے گی۔بخاری شریف میں ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے غلام ابن ابی عتبہ زاویہ نامی گاؤں میں رہتے تھے، انہیں آپ(رضی اللہ عنہ) نے حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں اور بچوں کو جمع کر کے شہر والوں کی طرح نماز عید پڑھیں اور تکبیر کہیں۔(صحیح البخاری،رقم:987)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کامعمول تھا کہ یکم شوال کو؛یعنی رمضان ختم ہونے کے دوسرے دن عیدالفطر کی نماز ادا کرتے،مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہواکہ رمضان کی ۹۲/تاریخ کو مدینہ میں عید کا چاند نظرنہیں آیا توقاعدہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے دن روزہ رکھا؛لیکن دن ہی میں کسی وقت باہر کا کوئی قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا اوران لوکوں نے گواہی دی کہ ہم نے کل شام چاند دیکھاتھاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گواہی قبول فرمالی اور لوگوں کو روزہ کھولنے کا حکم دیا اور چوں کہ نماز کا وقت نکل چکاتھا؛ اس لیے آپ نے فرمایا کہ عید کی نماز کل صبح پڑھی جائے گی،حضرت انس رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے حضرت ابوعمیررضی اللہ عنہ سے منقول ہے،وہ کہتے ہیں:”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک قافلہ دن کے آخری حصہ میں آیا اور ان لوگوں نے یہ شہادت دی کہ کل انہوں نے چاند دیکھا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ لوگ روزے کھول دیں اور کل جب صبح ہوتو نمازعید ادا کرنے کے لیے عیدگاہ پہنچیں“۔(سنن أبی داؤد،باب إذالم یخرج الإمام للعیدمن یومہ یخرج من الغد،رقم الحدیث:1157)
اس لیے چانددیکھنے کااہتمام کرنا چاہیے اورچاندنظرآنے پرعیدکرنی چاہیے اگرکسی وجہ سے مقامی طور پرچاند نظر نہ آئے اوردوسری جگہ سے چاندنظرآنے کی شہادت مل جائے،یا امیروقاضی یارویت ہلال کمیٹی کے ذمہ دارعالم کی طرف سے چانددیکھے جانے کااعلان ہوجائے تواس کے مطابق عمل کرنا چاہیے،جیسے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندکی شہادت دوسرے دن ملنے پرتاخیرکے باوجودروزہ کھولنے کاحکم دیااوروقت گذرجانے کی وجہ سے دوسرے دن عیدکی نماز پڑھائی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین عید کی خوشیاں مناتے تھے اور ایک دوسرے کو ملاقات کے وقت عید کی مبارکباد دیتے تھے او راس کے لیے دعائیہ کلمات کہتے تھے، جیسے:”اللہ ہمارے اورتمہارے اعمال کو قبول کرے“۔(الدعاء للطبرانی باب الدعاء فی العیدین،رقم الحدیث:۸۲۹)
بعض روایتوں میں عید کے دن فنون سپہ گری ونیزہ بازی وغیرہ کا مظاہرہ کرنے اور گھروں میں عید کی خوشی میں نظم واشعار گانے اور پڑھنے کا واقعہ بھی منقول ہواہے۔اللہ ہمیں عید کی اصل حقیقت وروح کوعام کرنے کی توفیق دے۔(آمین)

Comments are closed.