مشرف شمسی
ایران نے سپر پاور امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مزاحمت کی اہلیت دکھا کر مشرقی وسطیٰ کا نقشہ بہت حد تک بدلنے میں کامیاب ہو گیا ہے ۔ایران پر دوسری بار حملھ کرنا امریکہ اور اسرائیل کے لئے مشکل ہی نہیں ہوگا بلکہ دنیا تیسری جنگ عظیم میں داخل ہو جائے گی ۔دراصل امریکہ اور ناٹو اب ایران کو گرانے سے پہلے روس کو گھٹنے پر لانا چاہتے ہیں ۔اسلئے یوکرین کو یورپ اور امریکہ پہلے کی طرح پھر سے بھر پور مدد شروع کر دیا ہے ۔جب غزہ میں جنگ شروع ہوئی تھی تو مغربی ممالک کو یہ لگ رہا تھا کہ یہ جنگ کچھ دنوں اور مہینوں میں ختم ہو جائے گی ۔اس وقت بھی میں لکھ رہا تھا اس جنگ کا اصل ہدف غزہ یا لبنان نہیں بلکہ اصل ہدف ایران ہے۔کیونکہ غزہ کی جنگ شروع کرنے کا ایک اہم مقصد روس – یوکرین فرنٹ پر روس سے دباؤ ہٹانا ہے۔7 اکتوبر 2023 کا حملھ ایک بہت بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں صرف ایران ہی شامل نہیں تھا بلکہ روس اور چین بھی اس منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ تھے اسرائیل اور غزہ کا جنگ شروع ہو جانے سے یقیناً روس پر دباؤ کم ہوا اور یوکرین میں روس کی افواج مسلسل آگے بڑھتی جا رہی ہے ۔یوکرین کے کمزور ہونے سے یوروپین ممالک روس کے ساتھ سیدھے جنگ میں آنا چاہ رہے ہیں لیکِن جرمنی ،انگلینڈ ،فرانس اور دوسرے یوروپین ممالک کو معلوم ہے کہ روس سے مقابلے میں اُنکی جیت ہوگی یہ یقینی نہیں ہے لیکِن روس کے ساتھ پورے یورپ کی تباہی ہوگی اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے ۔اس لیے یورپی ممالک یوکرین کو آگے رکھ کر پراکسی جنگ لڑتے رہیں گے ۔یوکرین تباہ ہونے کے باوجود زیلینسکی امریکہ اور یورپ کے دباؤ میں روس کے ساتھ کوئی امن معاہدہ کے موڈ میں نہیں ہے ۔روس اپنی جگہ ثابت قدمی سے کھڑا ہے اسلئے ایران اور اسرائیل کی جنگ میں کوئی بھی یورپی ممالک اسرائیل کا ساتھ دینے نہیں آیا۔بھلے اسرائیل کو گولہ بارود کئی یوروپی ممالک اسرائیل کو دینا جاری رکھے ہیں۔
مشرقی وسطیٰ میں ایران کی مزاحمت کی طاقت دیکھ کر اب عرب ممالک کے تیور بھی تھوڑے سخت ہو رہے ہیں ۔قطر میں جو امریکی اڈّے ہیں اُسکی لیز اس سال ختم ہو رہی ہے ۔قطر اس لیز کو آگے نہیں بڑھانا چاہتا ہے ۔دوسری طرف ایران جنگ کی ساری جانکاری سعودی عرب اور قطر سے شیئر کر رہا ہے ۔تاکہ سعودی عرب سمیت خلیجی ممالک کا اعتماد اور بھروسہ ایران پر بڑھے ۔سعودی عرب نے بھی امریکی فوجیوں کو سعودی عرب میں کم کرنے کہا ہے ۔ایک دلچسپ تصویر اسرائیل سے آئی ہے ۔تل ابیب کے سڑک کے کنارے ایک بڑی تصویر لگی ہے جس میں ٹرمپ اور نیتن یاھو درمیان میں ہیں اور عرب اور خلیجی ممالک کے سربراہان دونوں طرف کھڑے ہیں ۔اس بڑے کٹ آؤٹ کا عنوان ہے ابراہم ایکارڈ ۔ایران کی اتنی بڑی جنگی جیت کے بعد بھی تنگ نظر مسلکی دانشوروں کو لگتا ہے کہ ایران کو امریکہ اور اسرائیل عراق کی طرح برباد کر دیگا۔
لیکِن ایرانی قیادت عراقی قیادت نہیں ہے ۔ایران اپنے ساتھ سیکیورٹی کونسل کے دو مستقل اراکین چین اور روس کو ساتھ لیکر چلتا ہے ۔تاکہ امریکہ اقوام متحدہ کے سیکیورٹی کونسل سے ایران کے خلاف کوئی قرار داد پاس نہیں کرا سکے۔ایرانی قیادت پڑوسی ممالک سے ہر طرح سے رابطے میں ہیں جبکہ صدام حسین امریکی اشارے پر پہلے ایران سے آٹھ سالہ جنگ لڑا پھر کویت پر چڑھ دوڑا ۔کویت پر حملے سے عراق کے خلاف سیکیورٹی کونسل میں قرار داد پاس ہو گیا ۔ساتھ ہی عراق کا ایران سمیت تقریباً سبھی ہمسایہ سے دشمنی کے رشتے تھے۔طاقت کے نشے میں چور ایک ڈکٹیٹر صدام کو پتہ ہی نہیں چلا کہ اسرائیل نے سازش کر اسے ختم کرنے کا پورا منصوبہ بنا لیا ہے ۔بے عقل صدام حسین پوری دنیا سے لڑنے چلا تھا اور اپنی نادانی سے بے موت مارا گیا ۔
ایران اب تک جیسے کو تیسا جواب دے رہا ہے ۔ایسی کوئی غلطی نہیں کر رہا ہے جس سے دنیا اُسکے خلاف ہو جائے۔حالانکہ وہ سب کچھ کر رہا ہے لیکِن قانون کے دائرے میں رہ کر ۔ایران ہر وہ چال چل رہا ہے جو امریکہ اور یورپ چلتا ہے ۔اس لیے ایران کو نرغے میں لینا آسان نہیں ہے۔چین اور روس جانتا ہے کہ ایران اگر گر گیا تو امریکہ اور یورپ اُنہیں بھی ختم کر دیگا ۔اسلیے چین اور روس ایران کو گرنے دیگا یہ ممکن نہیں لگتا ہے ۔
سامراجیت کی ایک خوبی یا کمی سمجھیں اگر کوئی ملک جس کی وہ پشت پناہی کرتا ہے اگر وہ ذمےداری بننے لگتا ہے تو سامراجی طاقتیں اُسکے ہاتھ چھوڑ دیتا ہے۔اسرائیل کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے ۔مشرقی وسطیٰ کا چہرہ بدل رہا ہے اور یہ مزاحمتی طاقتوں کے لئے خوش آئند بات ہے اور ساتھ ہی امریکی سامراج کا سورج غروب ہوتا نظر آ رہا ہے ۔
[04/07, 9:46 am] Musharraf Shamshi: وقف قانون اور امارت شریعہ۔
مشرف شمسی
مسلمانوں کی مذہبی قیادت ہو یا سیاسی قیادت حالات سے کیسے فائدہ اٹھائے جاتے ہیں کوئی ان سے سیکھے ۔وقف قانون بن چکا ہے اور اس قانون میں ضروری ترمیم کے لئے مسلم قیادت سپریم کورٹ میں معاملہ لے کر گئے ہیں۔سپریم کورٹ سبھی شنوائی کرنے کے بعدوقف قانون فیصلے کے لئے محفوظ کر لیا ہے۔ اس جولائی میں ہی اس قانون پر فیصلہ آنا ہے۔مسلم فریق جب خود سپریم کورٹ وقف قانون کے خلاف گئے ہیں تو کم سے کم فیصلہ آنے تک کسی احتجاج سے اجتناب کرنی چاہئے ۔لیکِن مہاراشٹر اور بہار جیسے ریاستوں میں وقف قانون کے نام پر پروگرام رکھے جا رہے ہیں اور اس قانون پر لمبی چوڑی تقریریں کی جا رہی ہیں ۔لیکِن وقف قانون پر جہاں بھی پروگرام ہو رہے ہیں اس پروگرام میں تو مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کیا جاتا ہے کہ یہ قانون اگر پوری طرح نافذ کر دیا گیا تو مسلمانوں کی مساجد اور قبرستان محفوظ نہیں رھ سکیں گے ۔لیکِن اس وقف قانون پر تقریر کرتے ہوئے کوئی بھی مقرر پہلے وقف قانون کیا تھا اس قانون کے تحت کمیٹی کا انتخاب کیسے ہوتا تھا ۔ساتھ ہی پہلے کی کمیٹی میں غیر مسلم ہوا کرتے تھے یا نہیں اس پر بات نہیں کرتے ہیں ۔وقف قانون جو بی جے پی سرکار نے بنائی ہے اس قانون کے کچھ اہم نکات پر مسلمانوں کو شدید اعتراضات ہیں اور اسی اعتراضات کے حل کے لئے مسلم فریق سپریم کورٹ گئی ہے اور امید ہے کہ سپریم کورٹ اُن اعتراضات کو قانون سے حذف کر دیگی۔فیصلہ سے پہلے مسلم مذہبی اور سیاسی قیادتوں کا جگہ جگہ پروگرام یہ بتاتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ وقف قانون میں مسلم اعتراضات کو صحیح مان کر قانون سے حذف کر دیتی ہیں تو پروگرام کرنے والے مسلم فریق یہ کہہ کر سماج میں گھومیں گے کہ یہ سب کچھ اُنکی وجہ سے ہوا ہے۔
آزادی کے بعد سے مسلم سماج کا المیہ رہا ہے کہ مذہبی جذبات ابھار کر مسلمانوں کا استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔آج تک اس ملک کا مسلمان اپنے علاقے کی گندگی ،علاقے میں اسکول نہ ہونا اور سستا علاج کے لئے سڑکوں پر مسلم قیادت نے کبھی نہیں اتارا ہے اور نہ مسلمانوں کے اندر ان بنیادی سوالوں کو لیکر بیداری پھیلائی گئی ہے ۔اس ملک کے مسلمانوں نے وقف پر قانون سازی کے وقت پورے ملک کے حزب اختلاف کو یک جُٹ کرنے میں کامیاب ہو گئے اور یہ اس ملک کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کامیابی تھی۔یہ اور بات ہے کہ بی جے پی کے اتحادی نتیش کمار کی جنتا دل يو اور چندرابابو نائیڈو کی سیکولر پارٹیوں نے سرکار کا ساتھ دینے کی وجہ سے وقف بل قانون میں تبدیل ہو گیا ۔قانون بننے کے بعد مسلمانوں کے پاس کورٹ جانے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں بچا تھا۔مسلم فریق کورٹ گئے اور سپریم کورٹ میں مضبوطی کے ساتھ اپنی دلیل رکھے۔مسلم فریق کو کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ہی اگلی حکمت عملی طے کرنی چاہئے ۔
بہار چناؤ جو اس سال کے آخر میں ہونا ہے اور نتیش کمار کی سیاسی کیریر داؤں پر لگا ہے اُن کی پارٹی کو سبق سکھانے کے لئے ایک واضح حکمت عملی ضرور طے کی جانی چاہئے ۔پٹنہ کے گاندھی میدان میں مسلمانوں کو جمع کر یہ حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو سکتا ہے۔اگر گاندھی میدان میں جمع بھی ہوئے تو سیاسی جماعتوں کو اسٹیج پر نہیں بلانا چاہئے۔اسٹیج پر حزب اختلاف کے رہنماؤں کو بیٹھا کر آپ ایک سیاسی فریق بن گئے ہیں ۔اب مسلمانوں کی بھیڑ دیکھا کر بہار چناؤ میں ہندوؤں کو ایک جُٹ کیا جائیگا۔
امارت شریعہ میں تنازعہ کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔امارت شریعہ کا ایک بڑا طبقہ فیصل رحمانی کو اب بھی امیر نہیں مانتا ہے ۔امارت شریعہ دو دھڑوں میں تقسیم ہے صاف نظر آتا ہے ۔ایسے میں فیصل رحمانی نے وقف قانون کو سامنے رکھ کر گاندھی میدان میں بھیڑ جمع کیے تاکہ بہار ،اڑیسہ اور مغربی بنگال کے لوگوں کو یقین دلایا جائے کہ اصل میں امارت شریعہ کے امیر وہ ہی ہیں۔
میرا روڈ ،ممبئی
موبائیل 9322674787
Comments are closed.