Baseerat Online News Portal

لاك ڈاؤن كی جہ سے مساجد اور گھروں میں نماز عید الفطر

 

ڈاكٹر مفتی محمد مصطفی عبد القدوس ندوی

(عمید كلیۃ البحث والتحقیق جامعۃ العلوم ،گڑہا   – گجرات)

 سب  پہلے  اللہ  كے حضور میں دعا گو ہوں كہ اللہ   تعالی عید الفطر  كی آمد  سے پہلے  كورونا وائرس  وبا كو دور  فرما  دے اور لاك ڈاؤن  كو ختم كردے اور  اسلام اور مسلمانوں كے  حق  میں ہندوستان  اور  ہندوستان سے باہر پوری دنیا میں حالات كو  ساز گار بنا دے  (آمین)۔ اگر ایسا نہیں ہوسكا ، یعنی لاك ڈاؤن ختم نہیں ہوسكا  تو  ہم مسلمان كوچا ہئیے كہ اپنے اپنے علاقوں میں حكومت انتظامیہ سے عید الفطر كی نماز عید گاہوں اور مساجد  میں  پڑھنے كی اجازت حاصل كرنے كی كوشش كریں ،  اگر حاصل ہو جائے تو سماجی دوری  ، صفائی ستھرائی  اور  دیگر احتیاطی تدابیر  كی رعایت  كے ساتھ مساجد اور عیدگاہوں میں نماز عید الفطر  ادا كریں  ۔ اگر اجازت نہ مل سكے  یا جن ممالك  یا جن  شہروں میں عید الفطر كے دن لاك ڈاؤن نافذ ہو  تو سوال پیدا ہوگا كہ جب ہم  پچھلے سالوں  كی طرح آزادی كے ساتھ مساجد اور عید گاہوں  میں نماز عید الفطر ادا نہیں كرسكتے ہیں تو آیا ہم  مختصر جماعت كے ساتھ  گھروں میں نماز عید الفطر ادا كرسكتے ہیں ؟ اس سلسلہ   میں مختلف علماء اور مفتیان كرام  نے الگ بیان اور فتوی دئیے ہیں ؛   تاہم  معاصرین  علماء اور حضرات مفتیان كرام كا ایك بڑا طبقہ  بلكہ صحیح  معنوں میں  جمہور علماء  گھروں میں نماز عید الفطر  كے قیام كی صحت وجواز  كے قائل ہیں ۔  دلائل كی روشنی میں   یہی رائے درست  اور قوی معلوم ہوتی ہے ، یہاں چند دلائل  پیش خدمت ہیں ، ملاحظہ ہو :

۱ –  اپنے اصل كے اعتبار  سے  نمازعید الفطر   مسجد سے  باہر مشروع ہے (دیكھئے : بخاری از حضرت سعید خدری ؓ، باب الخروج إلى المصلى:1/13)، اہل علم سے مخفی نہیں  ہے كہ آنحضرت ﷺ اور حضرات صحابہ كرام ؓ  سے مسجد سے باہر  نماز عید الفطر پڑھنا بذریعہ عملی تواتر ثابت ہے ، اس بنیاد پر مسجد سے باہر جملہ شرائظ كی  ساتھ كہیں بھی نماز عید الفطر قائم ہوسكتی ہے ، خواہ عید گاہ میں ہو، یا كسی میدان میں ، یا شادی خانہ میں  ہو ، یا فنكشن ہال میں ، یہاں تك گھروں میں  بھی قائم ہوسكتی ہے ۔ –– عيد كی نماز ایك شرعی حكم ہے، شرعی حكم پر عمل  میں ممكن حدتك عمل كا انسان مكلف ہے (دیكھئے : بقرہ:286 ، تغابن:416، اعراف:42) ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: “ جب میں تم لوگوں  كو كسی   شی كا  حكم دوں تو  تم لوگ   جس حدتك اس پر عمل كرسكتے ہو ، عمل كرو۔” (بخاری،الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ ، حدیث:7288، مسلم ، الفضائل، حديث:130 –  1337)۔ یہاں  جن گھروں میں كم از كم   امام  كے علاوہ تین بالغ عاقل بالغ مرد ہوں، وہاں عید كی نمازكا قیام ممكن ہے ؛  ایسے گھر والوں پر  عید كی نماز پڑھنی واجب ہے ، نہ پڑھنے پر گنہگار ہونگے ۔

۲ –   امام   بخاریؒ نے  ،“بَابٌ: إِذَا فَاتَهُ العِيدُ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ”كے تحت حضرت انس ؓ كا اثر  “وَأَمَرَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ مَوْلاَهُمْ ابْنَ أَبِي عُتْبَةَ بِالزَّاوِيَةِ فَجَمَعَ أَهْلَهُ وَبَنِيهِ، وَصَلَّى كَصَلاَةِ أَهْلِ المِصْرِ وَتَكْبِيرِهِمْ” تعلیقًا نقل كیا ہے، اس اثر سے استشہاد اس حدتك ہے كہ حضرت انس ؓ نے اپنے گھر  میں نماز عیدجماعت كے ساتھ  ادا فرمائی ہے ۔

۳ –  چونكہ نماز عید الفطر كی بدل كوئی نماز  نہیں ہے  ، كہ  اس كے بدلہ  وہ نما ز پڑھی جاسكے  اور نماز عید الفطر كا ثواب حاصل ہو ،واضح رہے كہ نماز عید الفطر واجب ہے  سنت نہیں ، یہی احناف كا راجح مذہب ہے “هذا هُوَ الصَّحِيحُ مِنْ الْمَذْهَبِ”(كبیری ،ص:524)۔ وجوب كی دلیل  اللہ تعالی كا ارشاد ہے : {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ}[بقرہ:185]“اور اللہ نے جو تم كو ہدایت   عطا فرمائی ہے ، اس كے مطابق اللہ كی بڑائی بیان كرو اور اس كا شكر ادا كرو”۔ اس آیت كریمہ میں عید الفطر كے وجوب  كی طرف اشارہ ہے (كبیری ،ص:524)۔نیز تواتر سے یہ بات ثابت ہے كہ جب سے عید الفطر كی نماز مشروع ہوئی ہے اس كے بعد سے آپ ﷺ تادم حیات عید الفطر كی نماز  بغیر ترك كے پابندی سے پڑھتے رہے ہیں، اور یہ وجوب كی دلیل ہے  (كبیری ،ص:524)۔لہذا نماز عید الفطر كی بدل نماز استشراق یا نماز چاشت نہیں ہوسكتی ہے ؛ كیونكہ یہ  دونوں نمازیں سنت ہیں ، واجب نہیں ۔

 اگر كسی كی نماز عید الفطر فوت ہوجائے  یا  موجودہ حالات میں عید الفطر كی نماز كے انعقاد  كے لئے مطلوبہ تعداد  امام كے علاوہ تیں بالغ مردگھروں میں میسر نہ ہوں ، جس كی وجہ سے اگر كوئی چاشت كی نماز پڑھتا ہے تو وہ نماز عید الفطر كی بدل نہیں ہے ،  نہ ہی  عین عید كی نماز ہے اور نہ ہی اس كی قضا ہے (الدر المختار ورد المحتار:3/ 59) ؛ اس لئے  پڑھنے والے كو عید كی نماز كا ثواب نہیں ملے گا بلكہ چاشت كی نماز كا ثواب ملے گا ؛ كیونكہ وہ چاشت كی نماز چاشت كی نماز  كی نیت سے پڑھ رہا ہے  نہ كہ عید كی نیت سے ، اور عید كی نیت كربھی نہیں سكتا ؛  اس لئے كہ عید كی نماز دوركعت ہے  اور چاشت كی نماز چار ركعت ہے ، دوسر ی بات یہ ہے كہ عید كی نماز واجب ہے اور چاشت كی نماز سنت ہے ، اور نفل كی نیت سے واجب ادا نہیں ہو تا ہے ۔

 جہاں تك كہ حضرت عبدللہ  ابن مسعود ؓ كی  روایت “جس كی نماز عید فوت ہوجائے  اس كو چا ہئیے كہ چار ركعت نماز ادا كرلے”( مصنف ابن شسبة:3/ 4، حديث:5800، المعجم الكبير للطبراني:9/ 306، حديث:9532)كی بات ہے تو یقینا ان سے یہ اثر صحیح سند سے ثابت ہے (فتح الباری لابن رجب :۹/ ۷۷، فتح الباری لابن حجر:2/ 475) لیكن یہ عید كی نماز كے بدل كے طور پر نہیں ہے  ؛ بلكہ جو عید كی نماز  نہیں پڑھ سكا ، اس كو جو عید كی نماز چھوٹنے كا ملال ہوا ، وہ كم سے كم اپنی تسلی  كے  لئے  یاعید كی نماز فوت ہونے میں ا س كی طرف سے جو كوتاہی ہو ئی  اس كی تلافی كے لئے بطور كفارہ كے  پڑھنے كے لئے  فرمایا  ہے ۔

 اب جہاں تك مساجد میں  نماز عید الفطر كی  بات ہے تو بلا اختلاف مسجد وں میں  نماز عید الفطر درست ہے  بلكہ موجودہ حالات میں بھی  صحیح ہے ؛ كیونكہ جب  مختلف دلائل كی بناء پر نماز جمعہ مسجد میں درست ہے(جیسا كہ اس سے  پہلے مضمون  میں بیان كیا جاچكا ہے ) تو نماز عید الفطر بھی درست ہوگی  ، نیز حدیث شریف میں آیا ہے  كہ آپ ﷺ نے بارش كے عذر كی وجہ سے عید كی نماز مسجد  میں ادا فرمائی ہے(أبوداؤد، باب يصلي بالناس في المسجد إذا كان يوم الفطر:1/ 80، ابن ماجه, باب ماجاء في صلاة العيد في المسجد إذا كان مطرا:1/ 94)۔ اس وقت ہمار ے سامنے كورونا وائرس  كی وباء اور  اس كے باعث لاك ڈاؤن  نافذ ہے ،  یہ ایك عذر ہے ، جس كی وجہ سے عیدگاہوں میں نماز عید الفطر كی ادائیگی دشوار ہے ؛ لہذا مسجدوں میں اس كی ادائیگی  درست ہو گی ، گو مقتدیوں كی تعداد  محدود ہو،جس كی تفصیل اوبر گذ ر چكی ہے ۔

Comments are closed.