Baseerat Online News Portal

قرض ادا نہ کرنے کی سنگینی قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

قرض ادا نہ کرنے کی سنگینی

قول سدید : مفتی احمد نادر القاسمی

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا

 

آج معاشرہ میں اکثر یہ شکایت سن کو ملتی رہتی ہے۔کہ لوگ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لٸے۔دوسروں سے قرض لے لیتے ہیں ۔اور وقت پر واپس ۔نہیں کرتے۔ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں۔اپنی ضروریات پوری کرتےرہتے ہیں ۔اورقرض دینےوالے کی نہ یہ کہ ضرورت کا خیال نہیں کرتے ۔بلکہ ۔ان کو اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔۔یہ شریعت کی نظر میں بھی مذموم ہے ۔آخرت میں خسارے کابھی باعث ہے۔اوردنیا میں ۔بےبرکتی اس کامقدر بن جاتی ہے۔ قرض دہندہ کی نظر میں خودکو کمتر تصور کرتارہتاہے جب تک اس سے نجات حاصل نہ کرلے۔اور کبھی کبھی تو قرض اور لین دین کی وجہ سے برسوں پرانے تعلقات تک خراب ہوجاتے ہیں۔اور آدمی اپنی نظریں چھپاتا اور قرض دہندہ کے خوف سے راستے تبدیل کرتاپھرتاہے۔اللہ تعالی ہر شخص کو۔قرض کے بوجھ۔اس کی ذلت اوراس کی سنگین سے۔ محفوظ ومامون رکھے فرماۓ ۔

قرض لے کر ادانہ کرنا کتنا سنگین ہے آپ اس کا انداز اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ۔جہاد فی سبیل اللہ کتنا مقدس عمل ہے کہ شہید کا خون زمین پر گرنے سے پہلے عنداللہ مقبول اور اس کی روح جنت میں پہونچ جاتی ہے۔مگر کوٸی شخص جو دوسرے کے قرض لٸے ہوۓ ہو اورمیدان کارزار میں شہید بھی ہوجاۓ تو اس کی روح کو جنت میں جگہ نہیں ملتی۔ بلکہ قرض اداہونے تک جنت کے دروازے پر محبوس رہتی ہے ۔اسے جنت میں داخل نہیں ہونے دیاجاتا ۔ایک حدیث میں ہے:”عن سعد بن الاطول أن أخاہ مات وترک ثلاث مأة درھم۔وترک عیالا قال:فأردت أن أنفقھا علی عیالہ۔قال:فقال النبیﷺ”إن أخاک محبوس بدینہ۔فاذھب۔فاقض دینہ۔فذھبت فقضیت عنہ۔۔۔“۔وفیہ عبدالملک ابوجعفر ذکرہ ابن حبان فی” الثقات“وباقی رجال الإسناد علی شرط الشیخین۔وصحح اسنادہ البوصیری۔فی ”الزواٸد۔ورقة ١٥٦۔أخرجہ البیہق (جلد ١٠۔ص ١٤٣)۔اورمسند احمد کی روایت میں ہے:”قال روسول اللہ ﷺ۔:رأیت صاحبکم محبوسا علی باب الجنة“(احمد۔جلد۔٤۔ص۔١٣٦۔ابن۔ماجہ۔رقم الحدیث۔٢٤٣٣۔ابن سعد ج۔٧۔ص۔٥٧)۔

قرض لینے کاجواز یقینا ہے۔اور انسان کو ضرورتیں بھی پیش آتی ہیں۔جوبسااوقات ناگزیرہوتی ہیں۔اور انسان اپنی اورگھروالوں کی معاشی یامعالجاتی مجبوری میں تلملا اٹھتاہے۔اورقرض نہ لے افراد خانہ کی جان تک پہ بن آتی ہے۔۔اسی لٸےشریعت نے ایسے ضرورت مندوں کو گھریلو یاکاروباری ضرورت میں سودی قرض تک لینے کی اجازت دی۔اگر قرض حسن نہ مل سکے۔”یجوزللمحتاج الاستقراض بالربح“۔”وقدفصل لکم ما حرم علیکم إلا مااضطررتم إلیہ “ [سورہانعام۔١١٩۔}(سے مستنبط بہت مشہوراصول ہے۔۔

اورقرض خواہ اگر قلاش اور مزید مفلس ہوجاۓ تو اس کے ساتھ ہمدردی۔کرنے ۔اورفارغ البال ہونے تک ۔اسے مہلت دیٸے جانے جیسی اخلاقی رواداری کی بھی تعلیم اسلام نے دی ہے۔”وإکان ذوعسرةفنظرة إلی میسرة۔ وأن تصدقوا خیرلکم إن کنتم تعلمون“(سورہ بقرہ۔١٨٠){اوراگرکوٸی تنگی والا ہوتو اسے آسانی میسرہونے تک مہلت دو اوراسے صدقہ کرکے چھوڑہی دو تمارے لٸے اس سے بتر بات اورکیاہوگی۔اگر تمہیں علم ہو}

مگربات اس وقت سنگینی کے داٸرے میں داخل ہوجاتی ہے۔جب قرض خواہ ۔دینے میں ٹال مٹول سے کام لیتاہے۔یا دینانہیں چاہتا۔اور قرض دہندہ کو اذیت دیتاہے۔اور اگر اسی درمیان انتقال کرگیا تو اس کابوجھ یاتو اپنے مفلس ورثہ پر چھوڑ جاتاہے جوذلت بھی اٹھاتے ہیں اورپریشان بھی ہوتے ہیں۔۔ یا پھر اپنےاوپربندہ حق کا لے کر دنیاسے جاتاہے۔جسے روزقیامت کماٸی ہوٸی نیکیوں سے۔ایک مفلس کی طرح چکاناہوگا جہاں خود ایک ایک نیکی کاانسان محتاج ہوگا۔

اورقرض چاہے شخصی ہو یاکسی ادارے اور بینک کا ہو اداٸگی کے حکم میں سب برابرہے اورحقوق العباد کے زمرے میں ہے ۔اللہ تعالی ہر مسلمان کو اپنے دین کی حقوق واخلاق پر مبنی تعلیمات کو اپنانے کی توفیق عطافرماۓ۔آمین

Comments are closed.