ڈاکٹر الیاس الاعظمی کی شبلی شناسی پر ایک طائرانہ نظر  تحریر: نوراللہ فارانی

ڈاکٹر الیاس الاعظمی کی شبلی شناسی پر ایک طائرانہ نظر

 

تحریر: نوراللہ فارانی

 

 

جناب محمد الیاس اعظمی ہندوستان اور پاکستان کی علمی ادبی حلقوں میں ماہر شبلیات کے حوالے سے جاناپہچانا نام ہیں۔ باوجود یہ کہ شبلیات کے علاوہ بھی آپ کا قلم مختلف شخصیات اور موضوعات پر گہر باری کرتا رہتا ہے ۔لیکن اصل پہچان ان کی شبلیات کے حوالے سے منفرد کام اور علامہ شبلی کی تحریرات اور نایاب شہ پاروں کی دریافت اور اشاعت ٹہری ہے۔

ہندوستان کے کئی بڑے ایوارڈ اپنے علمی ادبی کارناموں کے سبب وصول کر چکے ہیں۔اور سب سے بڑا اعزاز تو دارالمصنفین شبلی اکیڈمی کی آنریری فیلو شپ ہے۔ جو منتخب لوگوں کو دی جاتی ہے۔ اس سے بھی نوازے جاچکے ہیں۔

ہندوپاک کے ایک درجن رسائل کی مجلس ادارت ومشاورت میں ان کا نام شامل ہیں۔ پاکستان کے مجلہ” فکر ونظر اسلام آباد” اور "جہات الاسلام لاہور” کی مجلس مشاورت میں بھی شامل ہیں۔

پاکستان کی علمی وادبی حلقوں میں بعض قلمکار ان کے نام گرامی سے پہلے "حضرت مولانا” کے الفاظ ان کے کام سے متاثر ہوکر لگاتے رہتے ہیں۔وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ اتنا معیاری اور مستند کام ایک منجھے ہوۓ عالم دین اور ایک بڑے مولانا کا ہوسکتا ہے۔خود میں نے بھی ان کی بعض تحریرات پڑھ کرآپ کو عالمِ تصور میں مولانا کی پگڑی پہنائی تھی۔اور حضرت مولانا” کا لفظ آپ کے نام سے پہلے لگانا لازمی سمجھ بیھٹا تھا۔اگر چہ بقول ان کے "میں نے عالمیت کے بعد جدید علوم کی تحصیل وتکمیل کی ہے”۔

اللہ بھلا کرے فیس بک کا جنہوں نے اعظمی صاحب کی شخصیت کی یہ تخیلاتی عمارت جو میرے ذہن کے ایک کنارے پر بڑی شان وشوکت سے کھڑی تھی۔ایک ہی گھڑی میں زمین بوس کرادی۔

پھران سے محبت وعقیدت کا رشتہ جڑا۔اور ان کی شخصیت کی وہ عمارت دل ودماغ میں وجود پذیر ہوئی جو کبھی مسمار نہ ہوگی کیونکہ اس عمارت میں محبت، عقیدت کردار اور عمدہ اخلاق، اعلی حوصلگی اور ذرہ نوازی کا وہ میٹریل شامل ہے جو کبھی ایکسپائر نہیں ہوتا۔

وہ عرصہ دو تین سال سے مجھے اپنے کالم اور مضامین جدید مواصلاتی نظام کے ذریعے بھیجتے رہتے ہیں۔جس سے میرے دل میں بنی ان کی شخصیت کی عمارت روز بروز حسین ہوتی جاتی ہے۔اور استفادہ بھی جاری رہتا ہے۔

علامہ شبلی نعمانی کے حوالے سے ان کے کام پر اگر نگاہ ڈالی جاۓ تو لامحالہ یہ کہنا پڑے گا کہ بے شک یہ آدمی شبلیات کے حوالے سے تن تنہا ایک اکیڈمی کا کام کر رہے ہیں۔شبلی نعمانی کے حوالے سے ان کام کام ہمہ جہت ہے۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ کےبعد شبلی شناسی میں آپ کا مقام مسلم ہے اور آپ کو بجا طور پر ماہرِ شبلیات کے نام سے یاد کیا جاسکتا ہے۔علامہ شبلی نعمانیؒ کے بارے میں آپ کی متعدد کتابیں چھپ کر اہل علم سے داد وتحسین وصول کر چکی ہیں اور کر رہی ہیں۔

اس حوالے سے ان کی کتابوں کا مختصر تعارف نذرِ قارئین ہے:

نوادرات شبلی:علامہ شبلی کی نودریافت تحریروں کا مجموعہ،جو پہلے کسی مجموعہ میں شامل نہیں ہیں۔علامہ شبلی کے چار مضامین،سات خطبات،سولہ دیباچے اور تقریظات،چھبیس خطوط اور دومراسلات اور اعظمی صاحب کے حواشی وتعلیقات تشریحی وتوضیحی نوٹس شامل ہیں۔

 

مکتوبات شبلی:علامہ شبلی کے ان خطوط کا مجموعہ جو مکاتیبِ شبلی اور خطوطِ شبلی میں شامل نہیں۔

 

متعلقات شبلی:اعظمی صاحب کا علامہ شبلی سے متعلق پہلا مجموعہ مضامین ومقالات۔

 

آثار شبلی:علامہ شبلی کے علمی ادبی تعلیمی اورسیاسی کارناموں کا مفصل جائزہ۔

 

کتابیات شبلی: مولانا شبلی کی تصنیف وتالیف ان کے مضامین ومقالات اور ان کے حوالے سے لکھی گئ تمام ترتحریروں اور کتابوں کاتمام ممکنہ گوشوں کو محیط اشاریہ۔

 

شبلی اور جہان شبلی:مصنف نے اس کتاب میں علامہ شبلی سے متعلق دس اہم اور تحقیقی مضامین و مقالات یکجا کیے ہیں۔جن میں سے بعض تحریرات دریافت و بازیافت کا درجہ رکھتے ہیں۔

 

اقبال اور دبستانِ شبلی:اس کتاب میں دبستان شبلی سے تعلق رکھنے والی شخصیات،دارالمصنفین اور ماہنامہ معارف کا اقبال سے تعلق کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔

 

مراسلات شبلی:غالبا علامہ شبلی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے اخبارات میں مراسلے لکھنے کی طرح ڈالی۔اس کتاب میں علامہ شبلی کےاردو عربی مراسلات سو سال بعد قدیم رسائل وجرائد سے یکجا کرکے جدید انداز تحقیق وتدوین کے عین مطابق مرتب کرکے شائع کیا گیا ہے۔مراسلات کی تعداد چھبیس ہےاس میں بعض نو دریافت مراسلے بھی شامل ہیں اعظمی صاحب کے قیمتی حواشی وتعلیقات نے اس کتاب کی قیمت میں دوچند اضافہ کر دیا ہے۔

 

شذراتِ شبلی: علامہ شبلی نے ماہ نامہ "الندوہ”میں جو شذرات لکھے تھے ان کا مجموعہ ہے۔

 

شبلی شناسی کے سو سال:رسائل وجرائد کے خصوصی شماروں کا مطالعہ۔اس کتاب پر ڈاکٹر سفیر اخترصاحب کا مفصل تبصرہ پڑھنے سے تعلق رکھتاہے۔

 

علامہ شبلی کے نام اہلِ علم کے خطوط: اعظمی صاحب نے اِس کتاب میں علامہ شبلی نعمانی کے نام اہلِ علم کے خطوط جمع کیے ہیں ۔ جن میں سرسید احمد خان،نواب محسن الملک،الطاف حسین حالی،اکبرالہ آبادی،حمید الدین فراہی،علامہ اقبال،ابوالکلام آزاد،نواب سلیم اللہ خاں،عطیہ فیضی،وغیرہ شامل ہیں۔

 

شبلی سخنورں کی نظر میں:اساطین علم وادب کا علامہ شبلی نعمانی کے حضور نذرانہ عقیدت ومحبت اور اعترافِ عظمت کے بیان پر مشتمل دستاویز۔

 

علامہ شبلی کی تعزیتی تحریریں : موضوع نام سے ظاہر ہے محتاج بیان نہیں۔

 

شبلی خود نوشتوں میں:

کتاب کے نام ہی سے موضوع کا اندازہ ہوجاتاہے۔اعظمی صاحب کو خودنوشتوں کے مطالعہ سے خاص دلچسپی ہے،لہذا اپنی اس دلچسپی کے پیش نظر انہوں نے خودنوشتوں کے مطالعہ میں اپنی تحقیق کے محور شخصیت علامہ شبلی نعمانی کو ٹھرایا۔چنانچہ کم وبیش چوبیس خودنوشتوں سے علامہ شبلی نعمانی،ان کی تصنیفات اور ان کے ہمہ جہت کارناموں کا ذکر، ان کی زندگی کے بعض فراموش شدہ واقعات کو کشید کرکے اس کا عصارہ "شبلی خودنوشتوں میں” کی صورت میں پیش کر دیا۔

اعظمی صاحب کی نئی آنی والی کتاب بھی شبلی کے حوالے سے ہی ہے جو "نقوش شبلی” کے نام سے زیر طبع ہے۔جس میں علامہ شبلی نعمانی کی سیرت وشخصیت پر تحقیقی مقالات جمع کر دئیے گئے ہیں۔

علاوہ ازیں اعظمی صاحب کی تحقیق وتدوین کے ساتھ علامہ شبلی کی دو کتابیں "اورنگ زیب عالمگیر پر ایک نظر "اور "موازنہ انیس ودبیر” بھی چھپ کرمنظر عام پر آچکی ہیں۔

آپ کی شبلی شناسی کے تجزیہ وتعارف پر محترمہ شائستہ ریاض نے "ڈاکٹر الیاس الاعظمی بہ حیثیت شبلی شناس” کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی ہے۔غالباً یہ کتاب” ادبی دائرہ اعظم گڑھ” سے چھپ گئی ہے۔

Comments are closed.