جــداگانہ خــانــدانی نطام کا فــروغ وقت کی اہــم ضــرورت

? *جــداگانہ خــانــدانی نطام کا فــروغ وقت کی اہــم ضــرورت*?
ـ *محمد قمرالزماں ندوی*
*مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ* ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
*راقم* کی کتاب *مشترکہ خاندانی نظام غور و فکر کے چند پہلو* اگر حالات نارمل ہوگئے تو ان شاء اللہ جلد ہی منظر عام پر آجائے گی،۔ دعاء فرمائیں راہ کی رکاوٹیں دور ہوں اور اسباب و وسائل فراہم ہوں ۔ اس کتاب میں اسلام کے مطلوبہ خاندانی نظام پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے ۔ اور ہر دو نظام کی خوبیوں اور خامیوں کے ذکر کے بعد اسلام کے پسندیدہ خاندانی نظام کو عقلی اور نقلی دلائل سے ثابت کیا گیا جیسا کہ آپ لوگوں نے سلسلہ وار مضمون میں اس کا خلاصہ ملاحظہ فرمایا ۔ آخری باب میں مشہور اصحاب علم اور صاحب نظر علماء کے آراء کو بھی پیش کیا گیا ہے، جن میں چند نوجوان صاحب قلم بھی ہیں ۔ میرے عزیز اور ہونہار شاگرد *مولوی خالد ضیاء صدیقی ندوی* ( *رفیق علمی امام بخاری ریسرچ سینٹر علی گڑھ* ) نے بھی اسلام کے مطلوبہ خاندانی نظام کے سلسلہ میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جو کتاب میں شامل ہے ۔ افادئہ عام کے لئے آج ہم کتاب کے اس حصہ کو (مضمون کو) قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں، سلسلہ وار مضمون کی اکیسویں قسط کل ملاحظہ فرمائیں گے ۔ م ق ن
*ہمارے* مسلم سماج میں زندگی گزارنے کے دونظام رائج ہیں: *مشترکہ خاندانی نظام اور جداگانہ خاندانی نظام*؛لیکن جس نظام کے بوجھ تلے برصغیر کا اکثر مسلم خاندان دبا ہواہے وہ ہے مشترکہ خاندانی نظام ـ اس نظام کا جب باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے،اور اس کے عواقب و نتائج پر غور کیا جاتا ہے،تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے خاندانی نظا م کا جو تصور دیا ہے، یہ نظام اس سے بہت زیادہ میل نہیں کھاتا ہے، *اسے دین ومذہب کے بجائے کلچر کہنا زیادہ مناسب ہوگا* ـ
*اس نظام کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کی پابندی کی وجہ سے اسلام کی بخشی ہوئی آزادی(privacy) سلب ہو کررہ جاتی ہے،بیوی بچوں کے(بسا اوقات واجبی) حقوق بری طرح تلف ہو کر رہ جاتے ہیں، ایک آدمی کی محنت اور کمائی کئی افراد خاندان میں تقسیم ہوجاتی ہے، جس کے نتیجے میں رشتوں میں دراڑ اورخاندان میں دوریاں پیدا ہونے لگتی ہیں ۔ آپسی اتحادواتفاق اورباہمی الفت و احترام کی جگہ ،باہمی نزاع ومخاصمت اور داخلی انتشار وخلفشارلے لیتا ہے ۔*
جولوگ اس نظام کو جھیل چکے ہیں یا جھیل رہے ہیں،انھیں اس بات کا اچھا تجربہ ہوگا کہ خاندان سے محبت واحترام کوختم کرنے اور آپسی تعلقات کے شیرزاے کو منتشر کرنے میں اس نظام کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ کیا یہ سچائی نہیں کہ اس نظام کی نحوست کی وجہ سے ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ قریبی رشتے دار (جیسے :بھائی ،بہن،باپ ،بیٹا وغیرہ بھی )دشمن بن جاتے ہیں ،اور معمولی معمولی باتوں پر بدگمانی،پھر بدزبانی،اور بسا اوقات قتل وخون ریزی تک کی نوبت آجاتی ہے ؟ *کیا آپ نے کبھی سنا یا کہیں دیکھا ہے کہ اسلامی خطوط سے انحراف کے بعد بھی انسان کو چین وسکون کی زندگی میسر آسکی ہو ؟ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے جداگانہ خاندانی نظام کا جو تصور دیا ہے ،اسی نظام کو اپنا کر ہم چین وسکون ،خوشی ومسرت اور الفت ومحبت کے ساتھ آپس میں رہ سکتے ہیں ،اور بہت سے ان گناہوں سے بھی بچ سکتے ہیں، جن کا ہم سے مشترکہ خاندانی نظام میں ارتکاب ہوتا رہتا ہے ۔*
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام کی وجہ سے آپس میں محبت کی فضا قائم رہتی ہے، ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کے حقوق کی ادائیگی پر انسان مجبور ہوتا ہے، ایک حد تک یہ بات تو ٹھیک ہوسکتی ہے،اور ہزاروں خاندانوں کے مقابلے میں چند خاندانوں میں یہ خوش گوار فضا کی خوشبو مل سکتی ہے ؛لیکن سچی بات یہ ہے کہ اکثر خاندانی جھگڑوں اور عائلی تنازعات کی بنیاد مشترکہ خاندانی نظام ہی ہوا کرتی ہے ۔ *راقم سطور کو خود اس کا ذاتی تجربہ ہے کہ جداگانہ خاندانی نظام میں جوبرکتیں ،محبتیں ،تعلقات کی استواری اور حقوق کی پاسداری ہے ، مشترکہ خاندانی نظام اس سے محروم ہے؛* لیکن جدا گانہ خاندانی نظام کو روبہ عمل لانے کے لیے اسلامی تقاضوں سے اغماض برتنا بھی درست رویہ نہ ہوگا،ہمارے سماج میں عام طور پر افراط وتفریط پائی جاتی ہے۔ ہم یہاں چند پہلوؤں کی نشاندہی کرتے ہیں جن کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے :
۱۔ جدا گانہ خاندانی نظام میں بسا اوقات ماں باپ مظلوم ہوجاتے ہیں، ان کے حقوق تلف ہوجاتے ہیں ،وہ اپنے بچوں سے بات کرنے کے لیے ترس جاتے ہیں ،خاص طور پر بڑھاپے میں جب کہ وہ خدمت کے سخت محتاج ہوتے ہیں ،کس مپرسی کے عالم میں اپنا وقت کاٹنے پر مجبور ہوتے ہیں، ظلم تو اس وقت سواہوجاتا ہے جب انھیں دوا دارواور سودا سلف لانے والا بھی کوئی میسر نہیں ہوتا ۔
۲۔ دادا دادی اپنے پوتوں کے ساتھ وقت گزارنا چاہتے ہیں ،جس کی صورت نکالنا ضروری ہے ۔
۳۔ پوتوں کو بھی دادا دادی کے ساتھ وقت گزارنے کے مواقع ملنے چاہئیں ؛تاکہ وہ خاندانی اقدار وروایات کے حامل ہوسکیں ۔
٤۔ جدا گانہ نظام میں ایک خرابی یہ نظر آتی ہے کہ بچے نانا نانی سے تو قریب ہوجاتے ہیں؛ کیوں کہ عورت میکے ضرور جاتی ہے ؛لیکن دادیہال اور دادا دادی سے دور ہوجاتے ہیں ۔
جداگانہ خاندانی نظام میں اگر ان پہلوؤں کی رعایت نہیں کی جاتی، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اعتدال کے بجائے دو انتہاؤں پر کھڑے ہیں جس کی ہمت افزائی نہیں کی جاسکتی، اس لیے اسلامی تقاضوں کی رعایت کرتے ہوئے حکمت وبصیرت کے ساتھ جداگانہ خاندانی نظام کو فروغ دینے اور اس کی اہمیت وافادیت کو ذہنوں میں بٹھانے کی ضرورت ہے۔
Comments are closed.