*کیا مدارس بند کردیئےجائیں؟ ایک گمراہ کن نظریے کی تردید* *خلیل الرحمن قاسمی برنی*

باسمہ سبحانہ تعالی
*کیا مدارس بند کردیئےجائیں؟ ایک گمراہ کن نظریے کی تردید*
*خلیل الرحمن قاسمی برنی* 9611021347
آج کل بعض نام نہاد مفکرین اور اپنے آپ کو دانشور سمجھنے والےکئ متجددین بہت زور و شور سے اس پروپیگنڈے میں لگے ہوئے ہیں کہ ملک میں مسلمانوں کی موجودہ پستی اور تعلیمی انحطاط کے ذمہ دار مدارس اور اہل مدارس ہیں. اس لئے مدارس کی تجدید ہونی چاہیے. ان کے بقول مدارس میں جاری نظام تعلیم اور نصاب تعلیم دونوں ہی فرسودہ ہو چکے ہیں. ارباب مدارس کو چاہیے کہ وہ علوم اسلامیہ کے ساتھ تعلیم کا غالب عنصر علوم عصریہ کو رکھیں. یہ راگ وہ رات دن الاپتے رہتےہیں اور تھکتے نہیں ہیں. ان میں سے کچھ تو اس حد تک نکل گئے کہ انھوں نے علوم اسلامیہ ودینیہ کی افادیت ہی سے انکار کر دیا. ان کے خیال کے مطابق امت کو علماء حفاظ اور قراء کی ضرورت نہیں ہے. بلکہ ڈاکٹروں انجینیروں اور وکلاء کی زیادہ ضرورت ہے. جس کے لئے وہ کہتے ہیں کہ مکاتب و مدارس کو اسکولوں اور کالجوں میں بدلد ینے میں ہی امت کی عافیت ہے.
یہ حقیقت اور سو فیصد صحیح ہے کہ ملت میں بڑی تعداد میں وکلاء ، ڈاکٹرز ،اور انجینئرز کی ضرورت ہے اس سے کسی کو انکار نہیں .یہ امت کےلئے ناگزیر ہے. مگر اس کے لئے مدارس و مکاتب کو مورد الزام ٹھہرانااور مدارس کو بدلنے کی بات کرنا بالکل غلط اورناقابل فہم ہے.
قوم وملت کی خدمات کے حوالے سے مدارس وارباب مدارس کا شاندار ماضی رہا ہے اور آج بھی ان کی افادیت مسلم ہے جس سے ان کے روشن مستقبل کی گواہی دینے میں کوئ صاحب عقل تردد نہیں کرسکے گا-البتہ اس کمزوری کو دور کرنے کے لئے مسلمانوں کے زیرانتظام چلنے والے ہزاروں عصری اداروں اور اسکولوںو کالجوں کے معیار کو درست کرنے پر زور دینے کی سخت ضرورت واحتیاج ہے.مدارس میں چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے -کیوں کہ ملک میں اسکولوں اور کالجوں کے مقابلہ میں مدرسوں کی تعداد ویسے ہی ضرورت سے بہت کم ہے . سچرکمیٹی کی رپورٹ کے مطابق پوری مسلم آبادی میں سے صرف تین چارفیصدی بچے مدرسوں یا مکاتب میں پڑھتے ہیں بقیہ چھیانوے فیصدی اسکولوں میں جاتے ہیں .توچھیانوے فیصدی سے امید رکھنے کے بجائے صرف چارفیصدی کونشانہ بنا کر اس طرح گفتگو کرنا کہ ملت میں وکیل اور ڈاکٹر حسب ضرورت نہ نکلنا یہ مدارس کی کثرت کی وجہ سے ہے سراسر دھوکہ فریب اورتلبیس ہے.یہ لوگ عام طور پر اس طرح کی باتیں اپنی کوتاہیوں اورناکردگیوں کوچھپانے کے لئے کرتے ہیں -اس کے پیچھے ان کا مقصداپنے عیوب کی پردہ پوشی اور اپنی تقصیرات کا اخفاء ہے جو یقیناً دجل و فریب اور دھوکہ ہے –
استاذمحترم حضرت مولانا سید سلمان صاحب منصور پوری زید مجدہم نے ایسے حضرات کو بہت عمدہ مشورہ دیا ہے. جس پر عمل درآمد کرنے کی صورت میں ان کا اور پوری ملت کا فائدہ ہے. مولانا فرماتے ہیں:
ایسے لوگوں کو ہمارا مشورہ ہےکہ وہ مدرسوں کے متعلق تبصرے چھوڑکر عصری اداروں کے اخلاقی اور تعلیمی معیار کو بلند کرنے پر محنت کریں
یہ ملت کی بہت بڑی خدمت ہوگی ان شاءالله تعالی
البتہ ضرورت اور حالات کے اعتبار سے اہل مدارس جو تبدیلیاں مناسب سمجھیں گے وہ کریں گے اور پہلے بھی کرتے رہے ہیں.
یہ بات غور کرنے کی ہے کہ آج مسلمانوں کی عصری تعلیم گاہوں کا معیار دن بہ دن رو بہ زوال ہے. ان میں موجود اساتذہ وطلبہ کی ایک بڑی تعداد محدود فکر کی حامل ہے. جس کے سامنے بس اپنی خوش حال زندگی اوراپنی روزی روٹی کی فکر کے سوا دوسرا کچھ نہیں ہو ہے.ان کی یہ سوچ درست نہیں ہے. انھیں اپنے رویہ اور سوچ کو راستگی اور وسعت پے لانا ہوگا.
ایسے قیمتی لوگوں کی اگر اصلاح ہوجائے تو یہ ایسا وقیع کام ہوگاکہ جس کے اثرات اور نتائج بہت مثبت اور دور رس ہوں گے -مصلحین ومفکرین کے لئے کام کرنے کا یہ بھی ایک بڑا میدان ہے -خلیل الرحمن قاسمی برنی 9611021347
Comments are closed.