صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ
اور ہماری آپ کی تاریخ تو عروج سے زیادہ اور زوال سے کم آشنا ہے

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
کہتے ہیں کہ کچھ علاقوں سے تاریخ مٹادی گئی، اور نام نابود کردیا گیا۔۔ اور کچھ لوگوں نے اس تاریخ کا مطالعہ کرلیا ہے، اور اسے دوہرانے کے منصوبے بنے ہیں۔۔ اور۔۔ اب اسے لکھا اور بولا جارہا ہے، بتایا اور سمجھایا جارہا ہے۔۔
تو کیا تاریخ اس لئے ہوتی ہے کہ وہ چھپی اور دبی رہے؟ نہیں نا؟ ۔۔ وہ اسی لئے تو تاریخ ہے کہ لوگوں نے اسے پڑھا اور سمجھا، پڑھیں گے اور سمجھیں گے، اور پڑھتے سمجھتے رہیں گے۔۔
اور تاریخ ہی تو بتاتی ہے کہ کیا بویا اور کھویا تھا، اور کیا پایا اور پھل آیا تھا۔۔۔ تاریخ چھپائی نہیں جاسکتی، وہ نظروں سے ہٹائی اور پڑھنے سے دور بنائی جاسکتی ہے، تب بھی وہ تاریخ ہی رہتی ہے، اور محفوظ ہی رہتی ہے۔۔۔ تو پرانی تاریخ کو لوگوں نے پڑھا اور جانا کہ کسی قوم کو کیسے کمزور کیا جاتا ہے، پھر نابود بنادیا جاتا ہے۔۔۔
لیکن یہ باتیں تو سب نے جانی ہیں، انھوں نے بھی جو کمزور ہوئے اور مٹتے گئے، اور انھوں نے بھی جو یہ پڑھتے اور منصوبے بناتے گئے،۔۔۔ تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں،۔۔ سب اسے پڑھیں گے، اور سب اس سے سبق لیں گے،۔۔ پھر جہد وعمل کرنے والے ابھریں گے اور اٹھیں گے، اور نہ کرنے والے گریں گے اور مٹیں گے۔۔۔
تو ڈرنے اور سہمنے کےلئے تاریخ نہیں ہوتی ہے، سیکھنے اور عمل کرنے کےلئے ہوتی ہے۔۔ پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ کیا ہورہا ہے؟ ۔۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیوں ہورہا ہے؟؟ ۔۔ اور پھر تاریخ ہی یاد دلاتی ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟؟
یہ ہر قوم کے ساتھ ہوتا ہے، فتح وشکست تقدیر کا لکھا نہیں ہوتا ہے، اور عروج و زوال قسمت کا ستارہ نہیں کہلاتا ہے۔۔ یہ اصولوں اور محنتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اور وہی قانون قدرت کہلاتا ہے۔۔ یہ سب کے ساتھ ہوا ہے، ہوتا رہا ہے، اور ہوتا رہے گا،۔۔ زوال عروج میں بدل جاتا ہے، اور عروج زوال میں دب جاتا ہے۔۔۔
اور ہماری آپ کی تاریخ تو عروج سے زیادہ اور زوال سے کم آشنا ہے،۔۔ اٹھنے اور آگے بڑھنے کی بہت ہے، ٹوٹنے اور بکھرنے کی خال خال ہے،۔۔ ہاں۔۔ افراد بدلتے رہے، نسل اور خاندان تبدیل ہوتے رہے، لیکن عروج کی داستان رقم ہوتی رہی،۔۔۔ اور وہ اسی لئے کہ ترقی اور اٹھان اصولوں اور محنتوں سے ہوتی ہے۔۔۔
تو پرانی تاریخ سب پڑھ رہے ہیں، دنیا میں امن وانصاف اور خوشحالی و ترقی لانے کی تاریخ بھی پڑھ رہے ہیں، ایشیا ویورپ کے کچھ علاقوں سے نابود ہونے کی تاریخ بھی پڑھ رہے ہیں،۔۔۔ تاریخ تو آج بھی رقم ہورہی ہے، اسے بھی دیکھ اور برت رہے ہیں۔۔۔
تاریخ کا کام بننا اور ریکارڈ رکھنا ہے، ہمارا آپ کا کام اصولوں کو اپنانا اور جہد وعمل کرنا ہے۔۔۔ جہد وعمل علم اور مہارت کے ساتھ ہوگا، اور اتحاد وتعاون کے ساتھ ہوگا،۔۔ تو ہم اپنا کام کریں، اور پھر وہی تاریخ بننے لگے گی۔۔۔
دوسروں نے تاریخ پڑھی ہے اور اسے دوہرانے کی تیاری، منصوبے، محنت اور اتحاد کے اقدام کئے ہیں،۔۔ تو ہم آپ نے بھی تاریخ پڑھی ہے، اور اٹھنے اور گرنے کے اسباب، وجوہات اور نتائج جانے اور سمجھے ہیں۔۔۔ تو اب میدان عمل سامنے ہے، اور یہیں سے نتیجہ طے ہونا ہے۔۔، تاریخ میں کیا ہوا یہ اہم ہے، لیکن ہم آپ کیا کریں یہ زیادہ اہم ہے۔۔ اور یہی تاریخ کا سبق ہے، اور یہی عروج اور زوال کا کھیل ہے،۔۔۔ تو یہ میدان کھلا ہے، اور محنت اور عمل نتیجہ لارہے ہیں۔۔۔
خوشی ہے کہ قوم کے جیالوں نے تاریخ کو سمجھا ہے، اصولوں کو جانا ہے، شعور کو بالیدہ بنایا ہے، جرات کو جگایا ہے، حوصلہ و یقین کو اپنایا ہے،۔۔ اور ۔۔ دنیا کو دکھایا ہے کہ محنت اور حکمت رنگ لاتی ہے۔۔
آئیے۔۔ ماتم نہیں محنت اپنالیں، بکھراؤ کو جماؤ بنالیں، اور رب کی محبت اور رحمت مخلوق کو پہنچادیں
صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
کہتے ہیں کہ کچھ علاقوں سے تاریخ مٹادی گئی، اور نام نابود کردیا گیا۔۔ اور کچھ لوگوں نے اس تاریخ کا مطالعہ کرلیا ہے، اور اسے دوہرانے کے منصوبے بنے ہیں۔۔ اور۔۔ اب اسے لکھا اور بولا جارہا ہے، بتایا اور سمجھایا جارہا ہے۔۔
تو کیا تاریخ اس لئے ہوتی ہے کہ وہ چھپی اور دبی رہے؟ نہیں نا؟ ۔۔ وہ اسی لئے تو تاریخ ہے کہ لوگوں نے اسے پڑھا اور سمجھا، پڑھیں گے اور سمجھیں گے، اور پڑھتے سمجھتے رہیں گے۔۔
اور تاریخ ہی تو بتاتی ہے کہ کیا بویا اور کھویا تھا، اور کیا پایا اور پھل آیا تھا۔۔۔ تاریخ چھپائی نہیں جاسکتی، وہ نظروں سے ہٹائی اور پڑھنے سے دور بنائی جاسکتی ہے، تب بھی وہ تاریخ ہی رہتی ہے، اور محفوظ ہی رہتی ہے۔۔۔ تو پرانی تاریخ کو لوگوں نے پڑھا اور جانا کہ کسی قوم کو کیسے کمزور کیا جاتا ہے، پھر نابود بنادیا جاتا ہے۔۔۔
لیکن یہ باتیں تو سب نے جانی ہیں، انھوں نے بھی جو کمزور ہوئے اور مٹتے گئے، اور انھوں نے بھی جو یہ پڑھتے اور منصوبے بناتے گئے،۔۔۔ تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں،۔۔ سب اسے پڑھیں گے، اور سب اس سے سبق لیں گے،۔۔ پھر جہد وعمل کرنے والے ابھریں گے اور اٹھیں گے، اور نہ کرنے والے گریں گے اور مٹیں گے۔۔۔
تو ڈرنے اور سہمنے کےلئے تاریخ نہیں ہوتی ہے، سیکھنے اور عمل کرنے کےلئے ہوتی ہے۔۔ پھر سوال یہ نہیں رہتا کہ کیا ہورہا ہے؟ ۔۔ سوال یہ بنتا ہے کہ کیوں ہورہا ہے؟؟ ۔۔ اور پھر تاریخ ہی یاد دلاتی ہے کہ ایسا کیوں ہورہا ہے؟؟
یہ ہر قوم کے ساتھ ہوتا ہے، فتح وشکست تقدیر کا لکھا نہیں ہوتا ہے، اور عروج و زوال قسمت کا ستارہ نہیں کہلاتا ہے۔۔ یہ اصولوں اور محنتوں کا نتیجہ ہوتا ہے، اور وہی قانون قدرت کہلاتا ہے۔۔ یہ سب کے ساتھ ہوا ہے، ہوتا رہا ہے، اور ہوتا رہے گا،۔۔ زوال عروج میں بدل جاتا ہے، اور عروج زوال میں دب جاتا ہے۔۔۔
اور ہماری آپ کی تاریخ تو عروج سے زیادہ اور زوال سے کم آشنا ہے،۔۔ اٹھنے اور آگے بڑھنے کی بہت ہے، ٹوٹنے اور بکھرنے کی خال خال ہے،۔۔ ہاں۔۔ افراد بدلتے رہے، نسل اور خاندان تبدیل ہوتے رہے، لیکن عروج کی داستان رقم ہوتی رہی،۔۔۔ اور وہ اسی لئے کہ ترقی اور اٹھان اصولوں اور محنتوں سے ہوتی ہے۔۔۔
تو پرانی تاریخ سب پڑھ رہے ہیں، دنیا میں امن وانصاف اور خوشحالی و ترقی لانے کی تاریخ بھی پڑھ رہے ہیں، ایشیا ویورپ کے کچھ علاقوں سے نابود ہونے کی تاریخ بھی پڑھ رہے ہیں،۔۔۔ تاریخ تو آج بھی رقم ہورہی ہے، اسے بھی دیکھ اور برت رہے ہیں۔۔۔
تاریخ کا کام بننا اور ریکارڈ رکھنا ہے، ہمارا آپ کا کام اصولوں کو اپنانا اور جہد وعمل کرنا ہے۔۔۔ جہد وعمل علم اور مہارت کے ساتھ ہوگا، اور اتحاد وتعاون کے ساتھ ہوگا،۔۔ تو ہم اپنا کام کریں، اور پھر وہی تاریخ بننے لگے گی۔۔۔
دوسروں نے تاریخ پڑھی ہے اور اسے دوہرانے کی تیاری، منصوبے، محنت اور اتحاد کے اقدام کئے ہیں،۔۔ تو ہم آپ نے بھی تاریخ پڑھی ہے، اور اٹھنے اور گرنے کے اسباب، وجوہات اور نتائج جانے اور سمجھے ہیں۔۔۔ تو اب میدان عمل سامنے ہے، اور یہیں سے نتیجہ طے ہونا ہے۔۔، تاریخ میں کیا ہوا یہ اہم ہے، لیکن ہم آپ کیا کریں یہ زیادہ اہم ہے۔۔ اور یہی تاریخ کا سبق ہے، اور یہی عروج اور زوال کا کھیل ہے،۔۔۔ تو یہ میدان کھلا ہے، اور محنت اور عمل نتیجہ لارہے ہیں۔۔۔
خوشی ہے کہ قوم کے جیالوں نے تاریخ کو سمجھا ہے، اصولوں کو جانا ہے، شعور کو بالیدہ بنایا ہے، جرات کو جگایا ہے، حوصلہ و یقین کو اپنایا ہے،۔۔ اور ۔۔ دنیا کو دکھایا ہے کہ محنت اور حکمت رنگ لاتی ہے۔۔
آئیے۔۔ ماتم نہیں محنت اپنالیں، بکھراؤ کو جماؤ بنالیں، اور رب کی محبت اور رحمت مخلوق کو پہنچادیں۔۔ یہی ہمارا عروج ہوگا، انسانیت کا عروج ہوگا، اور دنیا کو پیغام ہوگا۔
خدا حافظ
20 اگست 2020
29 ذو الحجہ 1441
۔۔ یہی ہمارا عروج ہوگا، انسانیت کا عروج ہوگا، اور دنیا کو پیغام ہوگا۔
خدا حافظ
20 اگست 2020
29 ذو الحجہ 1441
Comments are closed.