جب منصف ہی آجائے کٹہرے میں نوراللہ نور

جب منصف ہی آجائے کٹہرے میں
نوراللہ نور
اگر اب بھی آپ اس خام خیالی میں جی رہے ہیں کہ آپ ایک آزاد جمہوری ہندوستان میں بود و باش رکھتے ہیں جہاں بولنے لکھنے کی آزادی ہے اور یہاں کی فضاء میں آپ اپنی مرضی سے سانس لے سکتے ہیں تو آپ غلط ہیں اور یوں سمجھ لیا جائے کہ یہ بس ایک خواب ہے
کیونکہ جب ایک انصاف پسند ؛ حق گو ؛ انسانیت نواز ؛ بے کسوں لاچاروں کی آواز ؛ حق کے علمبردار ؛ قانون کے علم کی دسترس رکھنے والے ؛ بڑی عدالت کے ایڈوکیٹ کو صرف ایک ٹویٹ کی وجہ سے جو حق پر مبنی تھا کٹہرے میں لا کھڑا کر دیا گیا ہے اور حق گوئی کو بزور قوت جرم ثابت کردیا گیا تو پھر آپ اور ہمارا کیا شمار ؟
جی ہاں ! پرشانت بھوشن ہندوستانی عدلیہ کے ایک قابل ؛ انصاف پسند وکیل ہیں جن کے پیش نظر ہمیشہ حق گوئی رہی ہے جنہوں نے ہمیشہ غلط رویوں پر آواز بلند کی خواہ وہ حکومت کے ذریعہ کیے گئے ہوں یا پھر کسی اور کے ذریعہ ایک ایسا وکیل جس نے منصفانہ جرات مندانہ وکالت سے جرائم پیشہ اور مافیاوں کی نیند حرام کردی ہوں جس نے مرکزی حکومت کے ذریعہ کیے گئے غیر ضروری اقدامات کو عدالت میں چیلنج کیا ہو چاہے وہ بابری کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ ہو یا پھر لاک ڈاؤن میں مزدوروں پر ہوے ظلم پر ہر ایک محاذ پر حکومت کی غلط پالیسی پر اس کو عدالت میں گھسیٹا ہے اور انصاف کا بول بالا کیا ہے ایسے شخص پر توہین عدالت کا مقدمہ درج ہوتا ہے اس ٹویٹ کی وجہ سے جو حق بجانب تھا
انہوں نے دو ٹویٹ کیے تھے ایک میں انہوں نے لکھا تھا کہ اگر مورخ تاریخ لکھے گا تو یہ ضرور رقم کرے گا کہ پچھلے چھ سال میں ایمر جنسی کی تنفیذ کے بغیر ملک کی جمہوریت کو کس طرح برباد کیا ہے اور اس بربادی میں کہیں نہ کہیں اس وقت کے چار جج بھی شامل ہیں
اور دوسرا ٹویٹ انہوں نے نو منتخب چیف جسٹس آف انڈیا بوبڑے صاحب کی اس تصویر پر کیا تھا جس میں وہ ایک پچاس لاکھ کی بایک پر سوار ہیں اس پر انہوں نے لکھا تھا کہ چیف جسٹس پچاس لاکھ کی سواری پر گھوم رہے ہیں عوام اور مزدور کو انصاف نہیں مل پارہا ہے اور لاک ڈاؤن میں مزدور پریشان ہے
بس یہی دو ٹویٹ جو بالکل درست اور موزوں تھا جج صاحبان کو غلط لگ گیا اور توہین عدالت ( اپنی توہین ) کا مقدمہ ٹھوک دیا اور نوٹس لیٹر وکیل صاحب کو سونپ دیا دونوں ٹویٹ کو دیکھا جائے تو توہین عدالت کا کہیں سے بھی اس میں شایبہ نظر ہی نہیں آتا ہے کیونکہ ان دونوں ٹویٹ میں ایسی کوئی بات کہی ہی نہیں گیی ہے بلکہ اس میں تو حکومت کی لاچاری اور ہٹ دھرمی کو بتایا گیا تھا کہ کس طرح یہ لوگ جمہوریت کا خون کر رہے ہیں اور کوی آواز بلند نہیں کررہا ہے اور نیز عدلیہ بھی ان کی اس روش پر قدغن نہیں لگاتی انہوں نے اس میں تو ملک میں ہونے والی نا انصافی کی طرف توجہ مبذول کرائی تھی اور چار جج کو مینشن کیا تو اس میں کہاں توہین عدالت ہے ؟ کیا حکومت کی خامیوں پر مطلع کرنا اور ملک کی خامیوں پر نشاندھی کرنا جرم ہے اور وہ بھی عدلیہ کی توہین ؟
اب دوسرے ٹویٹ کو دیکھ لیں تو اس میں ایک فیصد بھی نقص کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ظاہر سی بات ہے عوام کو عدلیہ سے انصاف کی امید ہوتی ہے اور اس وقت کے مظلوم مزدوروں کو آپ کے عدل پر یقین تھا اور اپنے ساتھ ناروا سلوک کے لیے آپ کے انصاف کے متمنی تھے مگر چیف جسٹس صاحب پچاس لاکھ کی سواری سے لاک ڈاؤن کی حدود و قیود کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بغیر ماسک اور ہیلمیٹ کے لطف اندوز ہو رہے تھے تو ظاہر ہے کسی کو بھی طیش آے گا اور وہ آپ سے سوال کرے گا اس میں بھی توہین عدالت کہیں نظر نہیں آتا ہے کیونکہ وہ اس ٹویٹ میں ان کے فریضے کی یاد دہانی کرا رہے ہیں تو اس میں عدالت کی توہین کا مسلہ کہاں سے آگیا سیدھے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ جج صاحبان اپنی ذات پر انگشت نمائی کو عدالت کی توہین قرار دیتے ہیں یہ تو درست ہے مگر جب منصف بھی اس پر کھڑا اترے
جب یہ حق پر مبنی ٹویٹس عدلیہ کے توہین کرتے ہیں تو پھر انصاف پسند ؛ قابل جسٹس "لویا ” کی مشکوک موت اور اس کی تفتیش میں بے اعتنائی عدم توجہی اور قاتل کا سراغ نہ ملنا تو اس سے بڑی توہین ہے عدالت کی اس کی بھی تفتیش کر کے قاتل کو کیفر کردار تک پہنچا یا جاے تاکہ عدلیہ کا وقار بحال ہوسکے اور جب اس ٹویٹ کو عدلیہ کے وقار مجروح ہونے کا سبب کہا جائے تو وہ پھر اس سے قبل عدلیہ کی شبیہ خراب ہوی تھی جب چند سال قبل سپریم کورٹ کے ججوں نے پریس کانفرنس کے ذریعہ کہا تھا کہ ہندوستان کی عدلیہ خطرے میں ہے ہاتھ جوڑ کر تحفظ کی درخواست کی گئی تھی اب اس کو کیا کہا جائے ؟
آرٹیکل ١٩ کے تحت ہر فرد کو آزدی اظہار رائے کا حق ہے ہر شخص بول سکتا ہے لکھ سکتا ہے جب قانون اس کی اجازت دے رہا ہے تو پھر ایک وکیل کی حق گوئی پر توہین عدالت کا مقدمہ کیوں کر روا ہے ؟ اور جب ایک وکیل پر گرفت ہوسکتی ہے تو پھر عام آدمی کو لب پر بندش لگانی پڑے گی اور اس طرح خاموشی سے تو ملک پستی و انحطاط کی کھای میں گر پڑے گا اور ایک فکرو خیال کے فروغ کی راہیں ہموار ہو جائیں گی ؟
اب جب ایک منصف ایک وکیل ہی حق گوئی پر کٹہرے میں لا کھڑا دیا جائے تو سوچنے کا مقام ہے کہ عام آدمی کو لب کھولنے پر بھی آفت ہے در اصل عدالت کی توہین تو اس میں ہے کہ قانون کی پامالی ہو رہی ہے اور ملک واسیوں کو ان کے حق سے محروم کیا جارہا ہے
دراصل یہ عدالت کی توہین کا مقدمہ نہیں ہے ملکہ ججوں نے اپنی بے عزتی اور حکومت کی غلط روی کے افشاء کرنے کا مقدمہ درج کیا ہے اور وکیل پرشانت بھوشن کو صرف اس لیے ہدف بناگیا ہے کہ وہ حکومت کی غلط پالیسی اور جج صاحبان کی بے اعتنائی پر نشتر زنی کی تھی عدالت کے اس رویے سے یہ میسج دیا جارہا ہے کہ جب ہم ایک وکیل پر اپنی طاقت سے گرچہ غلط ہی سہی نکیل کس سکتے ہیں تو پھر ہمہ شما کی کیا بات ہے ؟ اس لیے ملک کے ہر باشندے کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ہر انصاف پسند متحرک افراد کو اس رویے پر آواز بلند کرنی چاہئے ورنہ آج پرشانت صاحب پر بندش لگای گیی ہے اور کل ہوکر کسی کو بولنے بھی نہ دیا جائے اس لیے یہ غور کرنے کا موقع ہے اور ایک لمحہ فکریہ ہے جس پر سبھی کو غور وخوض کرنا چاہیے ۔
Comments are closed.