اسلامی سال نو: آغاز اورسبق_محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

اسلامی سال نو: آغاز اورسبق

 

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

 

اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کامظاہرہ کرنے کے لئے اس دنیامیں بے شمارچیزیں پیدا کی ہیں، جن کودیکھ کرایک عقل مند شخص اس بات کا قائل ہوجائے گاکہ کوئی ذات ایسی ضرورہے، جواس کائنات کو چلارہاہے، یہ کائنات خود بخود اتنے سسٹمیٹک انداز میں نہیں چل رہی ہے کہ اس کے چلنے کی ترتیب میں اپنے حساب سے سیکنڈوں کا بھی فرق نہ ہو، قدرت کے انھیں مظاہرمیں سے سے دن ورات کی گردش اوران کاآناجاناہے، جس کی وجہ سے ساعت، گھنٹہ، دن ورات، ہفتہ ، مہینہ اورسال میں تبدیلی آتی ہے، وقت بدلتاہے، موسم بدلتے ہیں اوراسی بدلاؤ کی وجہ سے آب وہوامیں فرق آتاہے، وقت کی تبدیلی اور دن ورات کے بدلاؤکی وجہ سے جوفرق ہوتاہے، ان کو جاننے اور شمار میں رکھنے کے لئے ان کے مختلف نام دئے گئے ہیں؛ چنانچہ اسی کے نتیجہ میں ہردن کا الگ اورہرمہینہ کاعلاحدہ نام ہے، پھریہ نام دنیا میں آباد مختلف قوموں نے اپنی اپنی سمجھ کے حساب سے رکھ چھوڑاہے۔

 

اسلام کی آمد سے پہلے دنیامیں تقریباً پندرہ کلینڈررائج تھے اورآج بھی بہت سارے کلینڈررائج ہیں، جن میں سب سے زیادہ مشہورعیسوی کلینڈرہے، ہندوستان میں سنسکرت کلینڈرماگھ، پھاگن اوربھادوں والاآج بھی باقی ہے اوربہت سارے؛ بل کہ دیہات کے لوگ اسی کے مطابق اپناکام کاج کرتے ہیں؛ لیکن اسلامی کلینڈرکی خصوصیت یہ ہے کہ اس کاتعلق کائنات کے پیداکرنے والے سے جڑاہواہے، جواس کے مکمل طورپردرست ہونے کی گواہی ہے، اللہ تعالیٰ خودفرماتاہے: ’’وہی تو ہے جس نے سورج کو روشن اور چاند کو منور بنایا اور چاند کی منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (کاموں کا) حساب معلوم کرو یہ (سب کچھ) اللہ نے تدبیر سے پیدا کیا ہے سمجھنے والوں کیلئے وہ اپنی آیتیں کھول کھول کربیان فرماتا ہے ‘‘(سورۂ یونس:۵)۔

 

پھریہ بات بھی یادرکھنے کی ہے زمانۂ جاہلیت میں لوگ اپنے مفاد کو سامنے رکھ کرمہینوں میں تبدیلی کرلیاکرتے تھے، جیسے: محرم کامہینہ ان کے یہاں بھی محترم سمجھا جاتاتھا، جس میں لڑائی جھگڑے کی ممانعت تھی، اب وہ لوگ اس مہینے میں لڑائی کرنے کے موڈ میں ہوتے تومحرم کو کھسکا کرآگے پیچھے کردیتے اورمیدان میں اتر پڑتے، اسلام نے آکراس کوختم کیااورواضح طورپرفرمایاکہ: ’’للہ کے نزدیک مہینے گنتی میں (بارہ ہیں یعنی) اس روز (سے) کہ اُس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، کتابِ الٰہی میں (برس کے) بارہ مہینے (لکھے ہوئے) ہیں اُن میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ یہی دین کا سیدھا رستہ ہے تو ان مہینوں میں (قتالِ ناحق سے) اپنے آپ پر ظلم نہ کرنا‘‘ (سورۂ توبہ: ۳۶)،اس آیت سے جہاں یہ بات معلوم ہوئی کہ سال کے بارہ مہینے ہوتے ہیں، اسی طرح یہ بات بھی مذکورہے کہ چارمہینے قابل احترام ہیں، پھران قابل احترام مہینوں میں اپنے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تبدیلی کونادرست قراردیاگیا اور فرمایاگیا کہ: ’’ امن کے کسی مہینے کو ہٹا کر آگے پیچھے کر دینا کفر میں اضافہ کرنا ہے اس سے کافرگمراہی میں پڑے رہتے ہیں، ایک سال توا س کو حلال سمجھ لیتے ہیں اور دوسرے سال حرام، تاکہ ادب کے مہینوں کی جو اللہ نے مقرر کئے ہیں گنتی پوری کر لیں اور جو اللہ نے منع کیا ہے اس کو جائز کر لیں۔ ان کے بُرے اعمال ان کو بھلے دکھائی دیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا ‘‘(سورۂ توبہ: ۳۷)۔

 

سال کویادرکھنے کے لئے کسی خاص واقعہ کاذکرکیاکرتے تھے، جیسے پیغمبراسلام کی پیدائش کوعام الفیل(ہاتھی کاسال) سے یادرکھاگیا؛ کیوں کہ جس سال ان کی پیدائش ہوئی ، اسی سال آپ کی پیدائش سے 56دن پہلے ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ پرحملہ کیاتھا؛ لیکن اللہ نے اپنے گھرکی حفاظت خود کی اورایک معمولی پرندہ ابابیل کے ذریعہ سے پورے لشکرکوہلاک کروادیا، پھراسلام کے عام ہونے کے بعد اسلامی کسی واقعہ سے مسلمان سال کویادرکھنے لگے؛ چنانچہ آپ کے نبوت ملنے کے بعد نبوت سے سال کو یاد رکھتے تھے، بسااوقات دوسرے خاص واقعہ کے ذریعہ بھی سال کو یاد رکھا جاتا تھا، جیسے: صلح حدیبیہ کے بعد صلح سے، فتح مکہ کے بعد فتح سے، حجۃ الوداع کے بعد وداع سے اورسورۂ براء ت کے نزول کے براء ت وغیرہ سے بھی سال کویادرکھاگیا، خودآپ نے جب نجران کے عیسائیوں کوخط لکھا تواس میں حضرت علی سے یہ لکھوایا: أنه کتب لخمس من الهجرۃ (نظام الحکومة النبویة لمحمد عبدالحیّ للکتاني: ۱؍ ۱۷۲) ’’یہ خط پانچ ہجری کولکھاگیاہے‘‘۔

 

رقبہ سے اعتبارسے اسلامی سلطنت سب سے زیادہ حضرت عمرؓکے زمانہ میں پھیلی، عراق، مصر، لیبیا، شام، ایران، خراسان، مشرقی اناطولیہ، جنوبی آرمینیا اور سجستان وغیرہ کاعلاقہ فتح ہوکراسلامک اسٹیٹ میں شامل ہوئے،جس کے کل رقبہ کا اندازہ بائس لاکھ، اکاون ہزاراورتیس(22,51,030)مربع میل سے کیاگیا ہے، ظاہرہے کہ اتنے بڑے رقبہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لئے وقت بھی درکار ہوتا تھا اورخطوط کے پہنچنے میں تاخیربھی ہوجایاکرتی تھی، جس کی وجہ سے یہ سمجھ پانا مشکل ہوجا تا تھا کہ یہ خط کب کا تحریر کردہ ہے اورخط میں جوبات لکھی گئی ہے، اس کا تعلق کس وقت سے ہے؟ خود حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مالی معاملہ پیش آیا، جس کے دستاویز میں’’شعبان‘‘ لکھاتھا؛ لیکن سال کاذکرنہیں تھا، حضرت عمر نے سوال کیا: یہ کس سال کے شعبان کامعاملہ ہے؟ وہ شعبان، جوگزرچکا، یاوہ شعبان، جوآنے والاہے؟ اسی طرح ان کے گورنرابوموسی اشعریؓ نے ایک مرتبہ یہ لکھ بھیجاکہ : ’’ آپ کی طرف سے ہمارے پاس جوخطوط آتے ہیں، ان میں تاریخ نہیں ہوتی‘‘ (تویہ کیسے سمجھا جاسکے گاکہ یہ خط کب کاہے؟)، ایسی صورت میں حال میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ سال کی بھی تعیین ہوجانی چاہئے: تاکہ کسی قسم کا کوئی شبہ باقی نہ رہے۔

 

مجلس مشاورت بلائی گئی اورغوروفکرہونے لگی، مجلس مشاورت کے سامنے کئی تاریخی واقعات تھے، جن سے سال کویارکھاجاسکتاتھا، نبوت کاسال، اسلام کی پہلی جنگ غزوۂ بدر، غزوۂ احد، جس میں سترمسلمان شہید ہوئے، جن میں سیدالشہداء حضرت حمزہؓ بھی تھے، صلح حدیبیہ، فتح مکہ، جس دن پورامکہ فتح ہوگیا، آپ کی وفات کاسال وغیرہ بہت سارے ایسے واقعات تھے، جن سے سال کی تعیین کی جاسکتی تھی؛ لیکن طے یہ ہواکہ اسلامی سال کی ابتدا’’ہجرت‘‘ سے کی جائے؛ کیوں کہ اس کے اندرایسی تاریخ پوشیدہ ہے، جس نے اسلام کوعزت بخشی، جس کی وجہ سے لوگ مصائب سے آزاد ہوئے، جس کی وجہ سے مسلمانوں نے مکہ کی گھٹن زدہ ماحول سے نکل کرمدینہ کی کھلی فضامیں سانس لینے کے قابل ہوئے، جس کی وجہ سے اسلام بے خوف وخطرہ وگیا، جواسلام کے پھیلنے کاپیش خیمہ ثابت ہوا، جس نے اسلام کونئی طاقت عطاکی، ایسی طاقت، جس کے نتیجہ میں اسلام ابھرتاہی چلاگیا؛ حتی کہ پوری دنیامیں چھاگیا، بس اسی دن سے ہجرت کی تاریخ سے اسلامی سال کویادرکھاجانے لگا۔

 

یہاں ایک سوال یہ پیداہوتاہے کہ ہجرت کاواقعہ توربیع الاول کے مہینے میں پیش آیا، پھراسلامی سال کی ابتداء محرم سے کیسے ہوتی ہے؟ اس کاجواب یہ ہے کہ واقعہ اگرچہ ربیع الاول میں پیش آیا؛ لیکن ہجرت کاعزم اورارادہ محرم کے مہینے میں ہی ہوگیا تھا، پھریہ کہ محرم کامہینہ اشہرحرم میں سے ہے اورمحرم سے پہلے والامہینہ ذی الحجہ بھی اشہرحرم میں ہے، توایک ہجرت کے عزم کی وجہ سے اوردوسرے اس کے اشہرحرم ہونے کی وجہ سے بھی اسلامی مہینے کاآغاز محرم سے ہوا؛ تاکہ اسلامی سال کاآغاز بھی محترم مہینہ سے ہو اور اس کااختام بھی محترم مہینے سے ہو، اسے نیک فال کے طورپربھی لیاجاسکتاہے۔

 

خلاصہ یہ کہ اسلامی سال نوکا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتاہے ، جس میں ہم قدم رکھ چکے ہیں اوراب سال بدل چکاہے، 1441سے اب 1442ہوچکاہے، سال نوکی تبدیلی سے ہمیں دوبنیادی اسباق بھی ملتے ہیں:ایک یہ کہ سال بدلا، ہم بھی بدل جائیں، اب تک ہماری حالت جوبھی رہی، ہم اس میں تبدیلی لے آئیں، یہ سال ہی نہیں بدلا ہے؛ بل کہ زندگی کاایک سال ہمارا کم بھی ہوگیاہے، لہٰذا اب تک جوزندگی گزری، سو گزری؛ لیکن اپنے اندرتبدیلی لائیں اوریہ تبدیلی مثبت تبدیلی ہونی چاہئے، منفی نہیں کہ عقل منداپنے اندرہمیشہ مثبت تبدیلی لاتاہے۔

 

دووسرے یہ کہ ہم اپناجائزہ لیں، اپنااحتساب کریں، یہ احتساب کی گھڑی ہے، اب تک ہم نے کیا کیا؟ کیا کھویا؟ کیاپا؟ تبدیلی کس طرح لے کرآنی ہے؟ ایک دوکان دار جب شام میں دوکان بند کرتاہے توپورے دن کاحساب لگاتاہے، فائدہ کتناہوا؟ نقصان کتناہوا؟ آئندہ کل کاٹارگیٹ کیا ہوگا؟ ہمارابھی ایک سال کا باب بند ہورہاہے، ہم بھی جائزہ لیں اور آنے والے سال کے لئے منصوبہ بنالیں؛ تاکہ ہمیں نقصان نہ اٹھاناپڑے، اللہ ہم تمام کے لئے اس سال کومبارک کرے اوراپنے ساتھ ڈھیروں خیرلے کر آئے، آمین!

Comments are closed.