وہ آدھی دنیا کا حکمراں تھا

وہ آدھی دنیا کا حکمراں تھا
نوراللہ نور
سال نو جب بھی اپنی پر امید کرنوں کے ساتھ نوید صبح دیتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اسلامی دنیا کے مطلع پر نور کے چھپنے اور بے مثل ضیاپاشی سے دنیائے اسلام کو منور کرنے والے سیارے کی رحلت کا زخم تازہ کردیتا ہے اور عدیم المثال حکمراں کی شہادت کا غم دوبالا کردیتا ہے
یکم محرم الحرام عظیم حکمراں اسلامی سپہ سالار ؛ اسلام کو کسمپرسی کے عالم میں تقویت بخشنے والا شیر دل اور اپنے عدل کی بے نظیر چھاپ دنیا میں نقش کرنے والے عمر بن خطاب کی یوم شہادت ہے عمر بظاھر ترش رو سخت مزاج اور اور طاقتور و قوی تھے مگر ان کا اندروں کا عمر بیرون کے عمر سے مختلف تھا خلیق و ملنسار ؛ اسلامی تعلیمات کا خوگر ؛ عشق نبی پر جاں وار دینے والا سچا عاشق اور انتہائی متواضع اور منکسر المزاج
خوش بختی ان کی تقدیر میں کاتب تقدیر نے پہلے ہی لکھ دی تھی کیونکہ ایک چرواہے کے بیٹے کے لیے کون و مکاں کی زینت ؛ خاتم الانبیاء رب کے حضور دست بدعا ہو اور اس کی معیت کے متمنی ہوں ایک چرواہے سے ملک رانی اور تنفیذ اسلام کا سپہ سالار بنایا دیا گیا ہو اور اسلام کی تقویت کے لیے انتخاب ہوا ہو اور اس پر وہ ثابت قدم بھی رہے
جب اسلام اور محمد مصطفیٰ اپنے چند ساتھیوں کے شمع ایمانی بقا کے لئے اور اس کی روشنی سے منور کرنے کے لئے جد و جہد کر رہے تھے اس کسمپرسی کے عالم میں خطاب کا یہ بیٹا قبول اسلام کے بعد اسلام و حامیان اسلام کا دست و بازو بن گیا اور اب تک جو چھپ کر اور ڈر کے ساے میں اسلام کی تشہیر ہو رہی تھی اسلام کو یک لخت قوت حاصل ہوئی اور اس مرد مجاہد نے کہا اب وہ دور گیا جب ہم چھپ کر عبادت کر رہے تھے اب جو بھی ہوگا علی الاعلان ہوگا اور کہا بلال کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذاں دو تاکہ باغیان خدا کو علم ہو جائے کہ عمر اب اپنے خدا اور نبی کے دین کو اختیار کر چکا ہے اور وہ اعلانیہ طور پر اس کا نفاذ بھی کرے گا جس کی ماں نے دودھ پلایا ہو اب وہ مجھے روک کر دکھائے اور دو دو ہاتھ کرلے
دعائے مصطفوی نے اپنا رنگ دکھایا تھا اسلام کو ایک سپہ سالار ملا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو صدیق اکبر عثمان و علی کے بعد ایک اور ایسا رفیق مل گیا تھا جو اپنا سب کچھ وار دینے کو تیار تھا اپنے نبی پر اور بکریوں کے ریوڑ کی نگرانی سے نکل کر اسلامی قیادت کی دست نبوت سے تربیت حاصل کر رہا تھا اور وہ دشمنان اسلام جو اسلام کے خلاف دریدہ دہنی اور بدتمیزیوں کا طوفان کھڑا کرتے تھے اس پر عمر نے قدغن لگادی تھی اور اسلام مخالف جو ہوایں چراغ توحید کو بجھانے کے در پے تھے ان کے لیے درد سر اور اسلام و مسلمان کے لیے ڈھال ثابت ہوے اور دنیا و آخرت میں سر خرو ہوے ۔
دعائے مصطفی کے بعد عمر کا مطلب اور عمر کی زندگی ہی بدل گئی چر واہے سے حکمراں بن گئے ترش روئی و تلخ مزاجی سے طاعت و بندگی اور خودسپردگی کے مجسمے بن گئے اب عمر کا مفہوم و معنی سب بدل گیا تھا عمر مطلب شجاعت ؛ عمر مطلب حکمراں ؛ عمر مطلب عدل ؛ عمر مطلب عاجزی تواضع و انکساری کا مجسمہ ایک انصاف پرور حاکم ۔
رفیقان عزیز و نبی محترم کی رحلت کے بعد اب ساری ذمہ داری عمر کے دوش پر آگئی تھی اور اسلام کے روشن چراغ کی حفظ و بقا ان کی ذمہ داری تھی مگر دست نبوت نے اس کے لیے ان کی تربیت پہلے ہی کردی تھی اور اپنے دینکی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھما دی تھی انہوں نے اس ذمہ داری کو اس قدر حسن خوبی کے ساتھ نبھایا کہ وہ رہتی دنیا تک کے حکمرانوں کے لیے مثال بن گئی اور قول و عمل سے یہ بتلا دیا کہ اگر تم حاکم ہو تو رعایا تمہاری امانت ہے اور اس کی ضروریات کا خیال تمہاری ذمہ داری اور تمہارا دینی فریضہ ہے اور اپنی دانشمندی زیرکی و جوانمردی سے آدھی دنیا کو اپنے تصرف میں کرلیا اور چہار دانگ عالم میں اسلام کے انمٹ نقوش ثبت کر دیے اور آدھی دنیا پر اسلامی حکومت قائم کی اور یہ باورا کرادیا کہ یہ زمین خدا کی ہے اور اس پر صرف اسی کی پرستش ہوگی غیروں کی پرستش کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی کوئی گنجائش ہے اور اگر وہ با حیات ہوتے تو روے زمین کا کوئی خطہ اسلامی روشنی سے محروم نہ رہتا
اس کا عدل اور حکمرانی کا طریق آج کے مسند نشینوں اور حکمرانوں کے لیے چراغ راہ ہیں اور نصف دنیا کے حاکم کا سر کے نیچے پتھر رکھ کر سو جانا ؛ بوڑھی عورت کا سامان اپنے پشت پر اس کے گھر پہونچانا یہ وہ واقعات ہیں جو حکمرانوں کے لیے ایک مشعل ہے کہ اگر حکومت کرنی ہے اور جہاں بانی کے متمنی ہو تو اس طرح سے حکمرانی کرو
Comments are closed.