مولانا محمد قاسم مظفر پوری       ایک مثالی شخصیت   ———- بدر الحسن القاسمی( کویت)

مولانا محمد قاسم مظفر پوری

ایک مثالی شخصیت

———-

بدر الحسن القاسمی( کویت)

محض معلومات کی کثرت انسان کو عالم نھیں بنا دیتی

اس وقت معلومات کی دنیا میں کمی نھیں ھے بلکہ معلو مات کی کثرت آج کی دنیا کیلئے ایک مستقل فتنہ ھے معلومات کی دنیا کا انقلاب سوشل میڈیا کی فتنہ سامانی اور غیرضروری وغیر مفیدمعلومات کی کثرت اور فراوانی نےلوگوں کا ذھنی سکون چھین لیا ھے اور اس لحاظ سے دیکھیں تو

یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا معجزہ اور زبان نبوت کا فیض ھے کہ آپنے نہ صرف یہ کہ علم نافع اور غیر نافع کے درمیان فرق کی نشاندھی کی ھے بلکہ علم غیر نافع سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی کی ھے جس طرح کہ مردہ اور خشوع سے عاری دل سے پناہ مانگی ھے

اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع

آپکی سکھلائی ھوئی اہم ترین دعاؤں میں سے ھے

علم کے میدان میں کمال کا دعویٰ کرنے والے اس وقت بھت ھیں جو میڈیا کے ذریعہ اپنے کو بڑے القاب سے متعارف کرانے میں مشغول ھیں لیکن حقیقی علماء کے اوصاف سے وہ کوسوں دور ھیں انکی وجہ سے دینی کاموں کا وقار بھی مجروح ھورھا ھےاور اصلاح کا عمل بے اثر ہوکر رہ گیا ھے

علمائے دین کی خاص شان ھےاور اللہ تعالی کے یہاں انکابہت بلند مقام ھے لیکن یہ مقام علمائے ربانیین کا ھے

ربانی وہ عالم کہلاتا جو علمی بصیرت کے ساتھ اخلاص کی دولت سے بہرہ ور اور فنی مہارت کے ساتھ حسن اخلاق کے جوہر سے آراستہ ھو

اس کا اٹھنا بیٹھنا اسکا چلنا پھرنا سب اللہ کی رضا کیلئے ھو

اسکا علمی مشغلہ محض ذہنی عیاشی اور لوگوں میں نام کمانے کیلیے نہ ھو

موجودہ ماحول میں مولانا

محمد قاسم مظفر پوری صاحب کی شخصیت امتیازی شان کی حامل تھی

انکا شمار علمائے ربانیین میں ھوتاتھا

– وہ زبردست عالم اور فقيہ تھے

-وہ شہرت پسندی سے بہت دور تھے

-وہ علم کے ساتھ عمل کے زیور سے آراستہ تھے

-ان کا عمل انکے علم پر غالب تھا

وہ نوجوان علماء کی شخصیت کی تعمیر کا بے پناہ جذبہ رکھتے تھے

– وہ تعلیم میں تدریج کے ساتھ شخصیت سازی پر زور دیتے تھے

عالم ربانی کی یھی خصوصیت بیان کی گئی ھےکہ

الربانی الذی یربی الناس بصغار العلم قبل کبارہ ( بخاری)

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ھیں کہ” کونوا ربانیین” کونوا حلماء فقھاء

مولانا محمد قاسم مظفر پوری صاحب نے اپنے زندگی کا بڑا حصہ درس تدریس قضاء اور اجتماعی مصالحت کے میدانوں میں گزارا ھے اور خاموشی کے ساتھ اس میدان میں اھم

خد مات انجام دی ھیں اورایک عالم باعمل کا مثالی کردار پیش کیا ھے مولانا قاضی محمد قاسم مظفرپوری صاحب کی پیدائشی ١٩٣٧کی تھی انھوں نے مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں تعلیم حاصل کی اور تکمیل دار العلوم دیوبند میں کی

انکے نامور اساتذہ میں مولانا عبد الر حیم صاحب مولانا عبد الحفیظ در بھنگوی مولانا ریاض احمد چمپارنی شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی علامہ ابراہیم بلیاوی مولانا مولانا اعزاز علی امروہوی شیخ الحدیث مولانا فخر الدین احمد مراد آبادی وغیرہ رھے ھیں

فراغت کے بعد تدریس قضاء اور عوامی اصلاح‌و دعوت کے کام کو انھوں نے اپنی زندگی کا مشن بنالیا اور پورے اخلاص کے ساتھ اسے انجام دیتے رھے اور امارت شرعیہ کی طرف سے قاضی کے منصب پر فائز رہے

انھوں نے متعدد کتابیں بھی تصنیف کی ھیں جن میں اھم ترین کتاب مولانا‌عبد‌اللہ بھلوی کی عربی کتاب( ادلة الحنفية) کی دوسری اور تیسری جلدوں کی تکمیل ھے

دوسری جلد پر میں نے مختصر عربی مقدمہ بھی لکھا تھا جس کے بارے میں مولانا نے خاص پسندیدگی کا اظہار فرمایاھے

پوری کتاب انکے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تحقیق وتعلیق کیساتھ بیروت سے چھپ چکی ھے

انکے اور بھی متعدد تعلیمی کتابچے واصلاحی رسائل ھیں جومقبول ومتداول ھیں اورجو اجتماعی اصلاح کے جذبہ سے لکھے گئےھیں

مولانا نے اپنے برادر زادہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی تعلیم وتربیت اور علمی ترقی پر اس طرح توجہ دی ھے کہ انکو بھی مولانا کی ایک تصنیف اور زندہ یادگار قرار دیا جا سکتا ھے

مولانا اپنی خاموش و کم آ میز طبیعت سادہ مزاجی اور شہرت وناموری سے بے نیاز وضع قطع اور لباس کے باوجود اپنا ایک خاص علمی وزن رکھتے تھے اور مولانا قاضی مجاھد الاسلام قاسمی صاحب کےبعد امارت شرعیہ فقہ اکیڈمی اور متعدد دوسرے دینی وعلمی اور اصلاحی اداروں کیلئے علمی وقار اور اعتماد کا نشان بن گئے تھے اور کسی اجلاس میں انکے صرف موجود ھونے اورخاموش بیٹھے رھنے کو بھی فائدہ مند اور برکت و روحانیت کا وسیلہ اور کامیابی کی علامت سمجھا جاتاتھا

دعا ھے کے اللہ تعالی انھیں فردوس بریں میں جگہ دے اور امت کو رشد وہدایت کے مینار علمائے ربانیین سے محروم نہ کرے

این دعاء ازمن واز جملہ جہاں آمین باد

بدر القاسمی. (کویت)

Comments are closed.