مولاناامین عثمانی :حالات وافکاراورخدمات کا مختصرجائزہ                       ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

مولاناامین عثمانی :حالات وافکاراورخدمات کا مختصرجائزہ

ڈاکٹرمحمدغطریف شہبازندوی

حالیہ دنوں میں علماءحق اٹھتے جاتے ہیں اوران کا کوئی متبادل بھی نظرنہیں آتا – ۔دو ستمبر2020کواسلامی فقہ اکیڈمی انڈیاکے سیکریٹری جنرل مولاناامین عثمانی بھی اس دارفانی کوخیربادکہ گئے ۔ذیل کی سطورمیں مختصراًان کے حالات زندگی اورخدمات کا ایک جائزہ پیش کیاجارہا ہے۔

مولاناامین عثمانی، اس عثمانی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جوپانی پت(ہریانہ ) میں آبادتھا۔ان کے اجدادتصوف کے چشتی سلسلہ سے وابستہ تھے اوربہارکے مشہورصوفی شیخ شرف الدین یحیٰ منیری کی شہرت سن کران سے استفادہ کے لیےبہارچلے گئے تھے۔ان کے خاندان میں ڈاکٹرمحسن عثمانی کے علاوہ طیب عثمانی ،شاہ رشادعثمانی وغیرہ اردوزبان وادب کے معروف مصنف و ادیب ہیں۔مولاناعثمانی کے والدشاہ عیسیٰ عثمانی فردوسی بھی ایک معروف عالم اورشیخ تھے۔انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی میں بھی تعلیم حاصل کی اوربانی جامعہ ملیہ اورصدرجمہوریہ ہندڈاکٹرذاکرحسین کے شاگردتھے بلکہ استادکے بلانے پر جامعہ میں تدریسی خدمات بھی انجام دیں۔انہوں نے دوکتابیں بھی لکھیں۔ان کا انتقال 1972میں تہجد کی نمازکے لیے وضوکرتے ہوئے ہواتھا۔مولاناامین عثمانی نے مقامی مکاتب ومدارس میں پڑھنے کے بعد ندوةالعلماءلکھنوسے عا لمیت وفضیلت کی ۔بعدازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات میں ایم اے بھی کیا۔اوران کا تقرربحیثیت اسسٹنٹ پروفیسراسی شعبہ میں ہوگیاتھا۔ لیکن انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹواسٹڈیزکے بانی ڈاکٹرمحمدمنظورعالم اورقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ کی دعوت پروہ اپنی اس بهترين

اورمحفوظ جاب کوچھوڑکرملی کاموں کے لیے ان کے ساتھ آگئے ۔کم ازکم راقم کی معلومات کی حد تک یہ واحدایسی مثال ہے کہ کوئی یونیورسٹی کی ملازمت چھوڑکرملی کاموںکی طرف آیاہو،اس کا برعکس توبہت ہوتاہے۔ان کی ملی خدمت کے جذبہ کا عکس ان کے بچوں میں بھی بدرجہ اتم موجودہے چنانچہ صاحبزادہ ابان عثمانی بھی ملی کاموں میں سرگرم ہیں اوربیٹی ایمان عثمانی جوجامعہ ملیہ اسلامیہ میں انگریزی کی طالبہ ہیں نے بھی چندماہ قبل سی اے این آرسی کے خلاف جامعہ کے طلبہ کی مہم میں جوش وخروش سے حصہ لیااورپولیس کی لاٹھیاں کھائیں۔

اپنی خاندانی روایات کے برعکس شیخ امین عثمانی کی فکری وابستگی تصوف کی بجائے اخوان المسلمون اورجماعت اسلامی سے ہوئی ،جن سے وہ زمانہ طالب علمی میں متاثرہوگئے تھے۔ چنانچہ وفات تک وہ جماعت اسلامی ہندکے رکن رہے اورجماعت کے تحقیقی ادارہ ،ادارہ تحقیق وتصنیف علی گڑھ کے ممبر بھی رہے۔وہ اردوعربی اورانگریزی تینوں زبانوں پر یکساں لکھنے اور بولنے کی قدرت رکھتے تھے۔مشہوراخوانی داعیة مرحومہ زینب الغزالی الجبیلی کی جیل کی رددادکا ترجمہ :”زندان کے شب وروز“کے نام سے کیاتھاجو1982میں ہندوستان پبلکیشنزسے شائع ہواتھااورعالمی طلبائی تنظیم افسونے بھی ا سکوتقسیم کیاتھا۔اسی کتاب کا نسبتازیادہ مشہورترجمہ خلیل حامدی صاحب کا کیاہوابھی ہے ۔یوں تو وہ جماعت اسلامی کے رکن اوراخوان المسلمون سے فکری مناسبت رکھتے تھے تاہم ان کی یہ وابستگی بندبند نہ تھی- مختلف ملکوں،تنظیموں اوراداروں میں ہورہے مختلف تجربا ت پر نظررکھتے ۔عملی طورپرہندوستان کے آئی اوایس اورفکراسلامی

کے بین الاقوامی مرکز

واشنگٹن )سے بہت قربت تھی اوران میں عملافکری شمولیت رکھتے تھے۔

مولاناامین عثمانی ایک بہترین مربی ،فکری رہنمااورنوجوان علماکی رہنمائی کرنے والے انسان تھے ۔وہ نئے نئے مضامین اورموضوعات پر ہمیشہ سوچاکرتے اوراپنے حلقہ فکرکے مختلف نوجوانوں کوان موضوعات پر پڑھنے اوران پر لکھنے کےلیے آمادہ کرتے ۔اوراس سلسلہ میں برابرایس ایم ایس پیغام ،ای میل اورٹیلی فون اورخطوط سے رابطہ کرکے توجہ دلاتے رہتے ۔کچھ کومسلم ممالک میں ہونے والے علمی مذاکرات وسیمیناروں کی طرف متوجہ کرتے ان کے لیے پیپرلکھواتے اوربعض کوان میں بھیجنے کی بھی کوشش کرتے ۔یہی نہیں بلکہ اکیڈمی کے بعض علماءکرام کی شہرت ومقبولیت بھی تمام ترامین صاحب کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔

وہ طویل عرصہ سے اسلامی فقہ اکیڈمی انڈیا(قیام 1988)کے روح روا ںتھے۔مولاناقاضی مجاہدالاسلام قاسمیؓ (بانی فقہ اکیڈمی)کے کئی دہائیوں تک ساتھ رہے اورفقہ اکیڈمی کوالمعہدالعلمی جیسے ایک چھوٹے سے منصوبہ سے لیکرایک بڑے اوراہم علمی وفکری ،شرعی اورفقہی تحقیقی ادارہ کے طورپر دنیابھرمیں متعارف کرانے کا سہراانہیں کے سرجاتاہے۔دوسرے علمی اداروں سے روابط اوراکیڈمی کومالیات فراہم کرانے میں بھی ان کا بڑاکرداررہا۔ہندوستان میں بنیادی طورپر فقہ حنفی کوفولوکیاجاتاہے ۔اسلامی فقہ اکیڈمی اوردیوبند کے مکاتب فکربھی اس کی ترجمانی کرتے ہیں۔تاہم مولاناامین عثمانی کا فقہی تصورکاسموپولیٹن فقہ کا تھا۔یعنی فقہ کے چاروںمکاتب فکرسے استفادہ بلکہ ضرورت پڑنے پر ان سے باہرجاکرقرآن وسنت کے نصوص سے آزادانہ استفادہ کرنے اورنئے مسائل کوحل کرنے کا وہ رجحان رکھتے تھے-

خاص طورپر مقاصد شریعت پر انہوں نے فکراسلامی کے بین الاقوامی مرکز

(واشنگٹن )کی شائع کردہ عربی وانگریزی کتابوں کا اردوترجمہ شائع کراکرہندوستان کے چیدہ علما،طلبااورفقہ سے دل چسپی رکھنے والوں کوروانہ کیااوریہاں کے مدارس اورتحقیقی اداروں میں فقہ مقاصدی کا ایک طرح سے تعارف کرایا۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کومستثنی کردیںتوبرصغیرمیں فقہ مقاصدی یامقاصدشریعت کے مطالعہ کا کوئی رواج نہیں ہے ،اس کی طرح یہاں فقہ اکیڈمی نے ڈالی ہے ۔ان کے ان نئے اورنامانوس کاموں کی روایتی علماکی طرف سے خاصی مزاحمت بھی ہوئی ،کہاگیاکہ فقہ اکیڈمی” فقہ حنفی کا جنازہ“ نکال رہی ہے ۔مگرامین عثمانی صاحب(اورقاضی صاحب مرحوم بھی) جس چیز کوصحیح سمجھتے تھے اس کے باے میں کسی لومة لائم کی پروانہیں کرتے تھے۔

یہاں یہ ذکرکرنامناسب ہوگاکہ طلاق ثلاثہ پرہندوستان کی سپریم کورٹ نے پابندی عائدکردی ہے۔حکمراں فسطائی جماعت نے اِس کا بڑاپروپیگنڈا کیاتھاکہ وہ تین طلاق سے مسلمان خواتین پر ہونے والے ظلم کوروکے گی ۔جب یہ مسئلہ کورٹ میں زیربحث تھااُس وقت ملک کے بعض علماودانشوروں نے یہ رائے اختیارکی تھی کہ مسلم فریق (آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ )کواپنے فقہ حنفی پر مبنی موقف پر نظرثانی کرنی چاہیے اورخودآگے بڑھ کراس مسئلہ میں ابن تیمیہ اورجماعت اہل حدیث کی رائے اختیارکرلینی چاہیے ۔یہی رائے شیخ امین عثمانی کی تھی ۔انہوں نے اس سلسلہ میں علامہ یوسف القرضاوی اورترکی کے صدرمفتی کا فتوی بھی منگایاتھااورراقم کی گزارش پر اس کوبھی بھیجا تھا۔یہ دونوں حضرات بھی فقہ حنفی کوہی فالو ہیں مگرحالات زمانہ کی رعایت سے انہوں نے اس مسئلہ میں دوسراآپشن اختیارکیاہے۔تاہم علماکی اکثریت نے اِس کوتسلیم نہیں کیااورنہ اپنے موقف میں کوئی لچک پیداکی اوراِس کا جونتیجہ ہواوہ سب کے سامنے ہے۔

مولاناامین عثمانی صاحب ہندوستان کی موجودہ صورت حال ،ہندتوکی قوتوں کے غلبہ اورمسلمانوں کی ہمہ جہت زبوں حالی کے بارے میں فکرمندرہتے تھے ۔اس سلسلہ میں وہ سنی سنائی نہیں بلکہ فرسٹ ہینڈمعلومات رکھتے مسلم نوجوانوں،فارغین مدارس اورملی کارکنوں کواس کے لیے تیاری کرنے کے طرف متوجہ کرتے رہتے ۔اس موضوع پر اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے متعددورکشاپ اورلیکچربھی انہوں نے کرائے۔کچھ عرصہ پہلے مدارس کے ارباب اہتمام کواس جانب متوجہ کرنے کے لیے انہوں نے اہم اوربڑے مدارس کوخط بھی لکھااوران کواس با ت پر ابھاراکہ یہ مدار س اپنے نصابوں میں ہندوستانی مذاہب ،ہندی تہذیب وکلچرکے بارے میں کوئی ایک پیریڈ مختص کریں یاکم ازکم ان موضوعات پر توسیعی لیکچرہی کروائیں۔راقم کوبھی انہوںنے ایک کاپی اس خط کی بھیج دی تھی۔

مرحوم عثمانی مسلم دنیاکے مسائل وایشوز سے قریبی واقفیت رکھتے خا ص کرفلسطین ،بیت المقدس اورشام(سیریا) کی موجودہ صورت حال سے ۔اس مسئلہ پر انہوں نے بہت سی کتابوں،کتابچوں اورمقالوں کے عربی سے اردومیں ترجمے کرواکرشائع کےے۔ماہنامہ افکارملی دہلی (جس سے راقم 15سال وابستہ رہا)نے فلسطین پر ایک خاص نمبرشائع کیا تواس میں موادکی فراہمی میں بڑاحصہ انہیں کارہا۔شام کے اوپر پروفیسرمحسن عثمانی صاحب کے تحریرکردہ کئی رسالے اورکتابچے شائع کرائے۔راقم سے بھی ایک کتابچہ ایک فلسطینی اسکالرمجاہدالقاسمی کالکھاہوا:فلسطین المضطہدة کا ترجمہ کرایا۔اسی طرح علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب :القدس قضیة کل مسلم کا ترجمہ راقم سے کروایا۔یہ دونوں شائع شدہ ہیں۔ابھی حال ہی میں ایک اخوانی عالم عبدالفتاح الخطیب کی کتاب قیم الاسلام الحضاریہ اردوترجمہ کرنے کے لیے مجھے دی تھی ،جس کااردو نام ہے :اسلام کی تہذیبی قدریں۔نئی اسلامی انسان پروری کے خدوخال ۔چنانچہ ابھی ایک عشرہ پہلے اسی کا مسودہ لے کرمیں ان کے مکان پر حاضرہواتھا۔ انہوںنے دیرتک مختلف موضوعات پر باتیں کیں۔اس کتاب پر ایک قیمتی اورجامع پیش لفظ لکھا۔پھرمیں علی گڑھ چلاآیا۔چند دن بعدہی سوشل میڈیاپر ان کی شدیدعلالت کی خبریں آئیں اورپھران کے انتقال پرملال کی ۔

مولاناامین عثمانی نے فقہ اکیڈمی کے آغازہی میں مدارس کے فارغین کے لیے تربیتی ورکشاپ اورجدید موضوعا ت پرتوسیعی لیکچروں کا سلسلہ شروع کردیاتھاان معلوماتی ومفید لیکچروں کوانہوں نے فقہ اکیڈمی سے شائع بھی کرایااوربڑے پیمانے پران کونوجوانوں اورفارغین مدارس میں تقسیم بھی کیاجن میں عالم اسلام کی اقتصادی صورت حال ،عالم اسلام کی سیاسی صورت حال اورعالم اسلام کی اخلاقی صورت حال(منصفہ جناب اسرارعالم ) وغیرہ ہیں۔راقم جب ندوہ العلماءمیں پڑھتاتھا توپہلے پہل یہی مقالے مولاناامین صاحب سے ملاقات کا باعث بنے اوراس بعدمیں انہوں نے خاکسارپر بڑی توجہ فرمائی اورتعلیمی وفکری رہنمائی بھی کی ۔لکھنویونیورسٹی سے اےم اے کرنے کے بعدکچھ دنوں میں نے لکھنوکے ایک فکری ادارے معہدالفکرالاسلامی (حال نالج اکیڈمی )میں کام کیاپھروہاںچھوڑکردہلی آیاتوتقریباچھ مہینے اسلامی فقہ اکیڈمی میں شیخ امین عثمانی کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملااوران کی وسعت علم کے ساتھ ان کی انتظامی صلاحیتوں خاص کرپلاننگ والے زرخیزذہن سے واقفیت ہوئی ۔ہندوستان کے معروف فقیہ وعالم مولانابدرالحسن قاسمی (مقیم کویت )نے ایک آن لائن تعزیتی نششت میں بتایاکہ شیخ امین عثمانی قاضی مجاہدالاسلام قاسمی صاحب کے دست وبازواس طرح بن گئے تھے کہ شیخ امین صاحب جلدی جلدی نئے نئے علمی وفکری منصوبے بناکران کودیتے اورقاضی اکثران سے اتفاق کرکے ان کونافذکردیتے چنانچہ فقہ اکیڈمی نے بہت جلدی ترقی کی اورملک وبیرون ملک میں اس کی ایک ساکھ قائم ہوئی ۔یادرہے کہ فقہ اکیڈمی نے اب تک تقریبا28فقہی سیمینارمختلف علمی وفقہی اورجدیدموضوعات پر کےے ہیں۔جن کے مقالات کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔اوران کا حوالہ دیاجاتاہے۔اسی طرح فقہ اکیڈمی نے کویت سے شائع ہوئے ہوئے موسوعة الفقہ الاسلامی کا اردومیں 45جلدوںمیںترجمہ کرایااوران کوشائع کرایا۔امین صاحب کوبڑے مواقع ملے کہ وہ دنیاکمائیں،شہرت حاصل کریں مگرانہوںنے ہمیشہ اپنے آپ کواسٹیج سے دوررکھا،زمینی سطح پر کام کیااورفقہ اکیڈمی کوعالمی ادارہ بنانے میں بنیاد کے پتھرکی طرح کام کیا۔اکیڈمی کی تاریخ ان کے ذکرجمیل کے بغیرادھوری رہے گی ۔

مولانابدرالحسن صاحب نے امین صاحب کو”کئی دماغوں کا ایک انسان “کے معنی خیزنام سے یادکیاہے۔ان کا مضمون سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے ۔اس میں وہ لکھتے ہیں:”امین عثمانی اورفقہ اکیڈمی دونوںایک دوسرے کے لیے ایسے لازم وملزوم ہوگئے تھے کہ ایک کا تصوردوسرے کے بغیرذہن میں آتاہی نہیں ہے….کہ فقہ اکیڈمی ہی ان کی زندگی تھی وہی ان کے لیے زندگی کا سرمایہ تھی اوراسے انہوں نے اپنے خون سے سینچاتھااسی کے لےے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی۔……..ہرپروگرام کے لےے ان کے ذہن میں دسیوں تجاویز ہواکرتی تھیں ان کوسیمیناروں فقہی وفکری کانفرنسوں اورمختلف علمی موضوعات پر اجتماعی پروگرام منعقدکرنے کا خاص ملکہ تھا،بہت جلدوہ اس کا خاکہ بناتے ،اسباب وسائل فراہم کرنے کی کوشش کرتے مناسب شخصیات کا دنیاکے مختلف ملکوں سے انتخا ب کرتے اورپوری توجہ سے اس کی تنفیذمیں لگ جاتے تھے،۔انتظام کے بعدپھروہ خودعمومااسٹیج سے روپوش ہوجاتے تھے،اسٹیج پرآنے سے ان کوکوئی دل چسپی نہیں تھی لیکن پروگرام کی کامیابی کے لیے اپنی پوری طاقت لگادیتے تھے۔……..ان کے بنائے ہوئے خاکے اورمنصوبے اتنے زیادہ ہیںکہ ڈاکٹریٹ کا عنوان بن سکتے ہیں ان کے پیش کردہ مشروعات پر عربوں کوبھی حیرت ہوتی تھی جواسباب وسائل کی فراہمی میں معاون ہوتے تھے “۔

استاذمحترم اورمدرسہ ڈسکورسزکے بانی پروفیسرابراہیم موسی نے اس بات کا ذکرکئی موقعوں پر کیاکہ مدرسہ ڈسکورسزکے قیام کے لیے ان کوامین عثمانی صاحب نے خوب مہمیزکیااوراس سلسلہ میں ان کومتعددخطوط لکھے ۔مرحوم عثمانی کواس پروگرام سے خاصی دل چسپی تھی چنانچہ وہ میری معلومات کی حدتک اس کے تین پروگراموں میں شریک ہوئے۔اوراس فکری وعلمی پراجیکٹ کے حوصلہ افزا نتائج سے بڑے پرامید تھے۔

وہ قومی سطح پر آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کے رکن تھے توعالمی سطح پر علماکی عالمی انجمن (صدریوسف القرضاوی )کے رکن بھی تھے۔

ان کا یوںاچانک چلاجاناملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے ایک حادثہ سے کم نہیں ہے۔

آسمان ان کی لحدپر شبنم افشانی کرے سبزہ نورستہ اس گھرکی نگہ بانی کرے

٭رسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہندعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ


Muhammad Ghitreef

Comments are closed.