Baseerat Online News Portal

جمہوریت اپنے اصل معنی سے کوسوں دور 

 

 

نور اللہ نور

 

امریکہ میں خود کو مہذب کہنے والوں نے جو نازیبا اور غیر اخلاقی کارنامہ انجام دیا ہے اس سے ان کے جعلی و مصنوعی تہذیب کا پردہ فاش ہوگیا ہے اور جو ڈیمو کریسی ، جمہوریت کا خود کو پا بند باور کراتے تھے ان کی جمہوریت کی حقیات آشکارا ہوگئی ہے.

آج دنیا کا ہر متمدن اور ترقی یافتہ ملک اپنے آپ کو جمہوری اور انسانی حقوق کی بازیابی کا علمبر دار دکھاتا ہے جمہوریت کی دہائی دے کر اپنے مفاد نکالتا ہے اور پھر اسی کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے.

یہاں ہر ایک جمہوری ہونے کا مدعی ہے مگر دائرہ عمل میں جمہوریت کی پر چھائی تک نظر نہیں آتی جمہوری نظام میں اس کی بو باس بھی نہیں ملتی، حقیقت سے اس کا کوئی ربط بھی دکھائی نہیں دیتا.

اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہے یا تو جمہوریت کی حد و تعریف سے نا آشنائی ہو، یا پھر جان کر بھی کج روی پر مصر ہوں، پہلی صورت تو ممکن نہیں کیونکہ ایک متمدن ، تعیلم یافتہ ، ترقی پذیر ملک کے لئے یہ بات مناسب نہیں دوسری شق درست معلوم ہوتی ہے کہ اس کی حد و تعریف سے شناسائی کے باوجود لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں اور پوری انسانیت کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں.

 

جمہوریت کی تعریف کچھ یوں گئی ہے کہ ” جمہوریت حکومت کی ایک ایسی حالت ہے جس میں عوام کا منتخب شدہ نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے ” اور یونانی مفکر ” ہیرو ڈوٹس ” نے جمہوریت کا مفہوم کچھ یوں بیان کیا ہے کہ ” جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں ریاست کے حاکمانہ اختیارات قانونی طور پر پورے معاشرے کو حاصل ہوتے ہیں”

اب ذرا ان تعریفات کو مد نظر رکھیں! تو کوئ بھی ملک اپنے آپ کو جمہوری ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا خواہ وہ تمدنی اور ثقافتی اعتبار سے کتنا بھی مضبوط و مستحکم ہو کیونکہ وہ اس تعریف پر کھڑا اترتا نہیں دکھائی دیتا ہے.

چاہے وہ یورپ ممالک ہو یا پھر بر صغیر، ہر جگہ نسلی امتیاز ، رنگ و نسل کے بنیاد پر یورش و یلغار رہتی ہے جمہوری نظام جسے امن و شانتی کا نظام سمجھا جاتا ہے اس میں بھی انسان غیر محفوظ ہے.

اگر ایک جائزہ لیا جائے تو جمہوریت تو کجا جمہوریت کی پرچھائیں بھی نہ دکھائی دے جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے کہ مسند نشین رعایا کی امن و سکون کا ضامن ہو! اور مسند کا اہل وہی ہو جسے عوام منتخب کرے گی.

مگر یہاں معاملہ بر عکس ہے اگر عوام نے منتخب کیا تو ان کا خیال رکھنے کے بجائے ان کا استعمال و استحصال شروع ہوجاتا ہے اور اگر منتخب نہ کیا جائے اخلاق و اقدار کی ساری حدیں پھلانگ جاتے ہیں اور جبر و تشد د ، انانیت و آمریت کا لبادہ اوڑھ لیتے ہیں.

ہندوستان جسے اپنی جمہوریت پر ناز ہے جس کا ڈیمو کریٹک نظام باعث شہرت ہے وہ اس کے حقیقت سے نابلد و نا آشنا ہے اب دیکھیں! کہ دوہزار انیس کے انتخابات میں موجودہ حکومت کی وکٹ گرنے والی تھی اگزٹ پول اور معتبر ذرائع سے ان کو اپنی شکشت نظر آنے لگی تھی تو انہوں نے فوراً ووٹنگ مشین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کر کے جمہوری نظام کی ساری بنیادوں کو متزلزل اور مخدوش کر دیا اور حق رائے دہی جو کسی بھی جمہوری حکومت کے لئے کلیدی رول ادا کرتی ہے اس کو بونا اور عبث ثابت کردیا.

اور اب ہندوستان کی راہ پر چلتے ہوئے امریکہ نے بھی ڈیمو کریسی اور جمہوریت کا مذاق بنادیا ہے اور وائٹ ہاؤس میں جو گزشتہ کل ننگا ناچ ہوا ہے اس نے امریکی تہذیب کو برہنہ کردیا ہے.

اب دیکھیں! کہ عوام کو جب ٹرمپ کا کام پسند نہیں آیا اور کوئ خاطر خواہ اس نے کارنامہ انجام نہیں دیا تو عوام نے اسے بر طرف کرنے کا ارادہ کر لیا.

اب یہاں پر کیا ہونا چاہیے تھا کہ اگر ٹرمپ اپنے مفوضہ فرائض کو انجام نہیں دے پا رہے ہیں تو ان کو اپنی خامی قبول کرنی چاہیے تھی اور دوسرے کو موقع دینا چاہیے تھا اور عوام کے فیصلے کا احترام کرنا چاہیے تھا.

مگر اس کے بجائے انہوں نے الزام تراشی کرنا شروع کردیا اور دوبارہ انتخاب کی مانگ کر بیٹھے مگر ان کی ایک نہ سنی گئی.

اب جب کہ مکمل طور پر وائٹ ہاؤس کی زمہ داری جو بائیڈن کو دی جارہی ہے تو ان کے حامی مخالف پارٹی کے لوگوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور جبر و اکراہ کی راہ سے کرسی حاصل کرنا چاہتے ہیں.

اور ایسا ہی کچھ حال گزشتہ چند سالوں سے مادر وطن کا بھی ہے یہاں لب کھولنا بھی جرم ہے.

کیا ایک جمہوری ملک میں ان سب کی گنجائش ہے ؟ کیا اسے جمہوری ملک ہونے دعویٰ کرنا درست ہوگا.

ایسے حالات اور ایسی مسموم فضا دیکھ کر بلا تردد یہ رائے رکھی جاسکتی ہے کہ جمہوریت اپنی اصل معنی سے کوسوں دور ہے اور اپنی روح سے عاری اور خالی ہے اور جمہوریت جمہوریت کا راگ الاپنا محض ایک ڈھونگ اور عوام کی آنکھ میں دھول جھونکنا ہے.

Comments are closed.