Baseerat Online News Portal

مقہور کیے جاتے ہیں ملت کے نگہبان

یاد رکھیے کہ قیادتیں آسمان سے نہیں اترتی بلکہ زمین پر بنائی اور سنواری جاتی ہیں

غلام مصطفی عدیل قاسمی
ایسوسی ایٹ ایڈیٹر بصیرت آن لائن

جس طرح قصائی کے سامنے بے زبان جانور کے تڑپنے اور درد سے کڑھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا اور آخر کار اسے کٹ جانا پڑتا ہے اسی طرح اگر ہمارے پاس مضبوط لیڈر شپ اور بے باک و جرات مند قیادت نہ رہی تو ہماری حالت بھی انہی جانوروں کی سی ہو کر رہ جائے گی۔!
سماج دشمن عناصر کی نظریں تو ہمارے وجود پر روز اول سے ٹکی ہوئی ہے لیکن اب جو حالات بن رہے ہیں یا بنائے جا رہے ہیں وہ نہایت خطرناک ہیں جس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔
ملک میں اتنی تیزی کے ساتھ مسلم قیادت و سیادت کچلی جا رہی ہے کہ اندیشہ ہونے لگا ہے کہ آنے والے چند برسوں میں ہمارے پاس زندگی کے کسی شعبہ میں شاید ہی ہمارے مخلص نمائندے نظر آئیں، سوچئے کتنی تیزی سے منظر نامہ بدل رہا ہے، کتنوں کو جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا جہاں سے لگتا ہے کہ صرف انکی لاشیں ہی آ سکتی ہیں اور درجنوں مسلم لیڈران کو منصوبہ بند طریقے پر انتخابات میں کنارے لگا دیا گیا۔! دوسری طرف تعلیمی میدان میں غور کیجیے کہ بیتے بیس پچیس دنوں میں صرف علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پندرہ سے زائد پروفیسرس مسافران آخرت میں شامل کیے جا چکے ہیں، وہیں دینی اداروں کی فضاء بھی مسلسل مغموم ہے،
ابھی ہم نے ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم کے ساتھ ہوئے سوتیلے رویوں کو دیکھا اور پڑھا ہے کہ کس طرح انکے وجود سے کھیلا گیا پہلے تو انہیں ہندو مسلمان بھائی چارے کے نام پر بہلایا پھسلایا اور جب کام نکل آیا تو ایسا پھنسایا کہ شہید کر کے بھی ان لوگوں کو سکون نہ ملا تو انکی مردہ لاش سے کھلواڑ کیا، انکی نعش دینے اور دلانے میں بند کمرہ مزہ لیتے رہے حد تو یہ ہے کہ لالو خاندان تیجسوی یادو اور میسا بھارتی کے ساتھ راجد کے کئی بڑے نیتا دہلی میں رہ کر بھی ہاسپٹل آنا گوارا نہیں کیا ۔۔!
اگر آپ کو لگتا ہے کہ اتنے بڑے دیس میں ایک دو واقعات ایسے ہو جاتے ہیں تو یہ یقینا آپ کی کج فہمی اور شتر مرغ کی طرح حقیقت سے منہ چھپانا ہے۔
جو کھیل ان لوگوں نے اندرون کمرہ مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ شروع کیا تھا وہ آج تک چل رہا ہے۔
زیادہ دور مت جائیے بلکہ موجودہ مسلم لیڈران کو کس طرح ٹارگٹ کر رہے ہیں آپ خود غور کر سکتے ہیں۔
تکلیف صرف اس بات کی نہیں ہے کہ لالو یادو اور اسکی پارٹی نے عین وقت پر ڈاکٹر شہاب الدین کا ساتھ نہیں دیا بلکہ مشکل حالات میں مسلمانوں کے ساتھ ملک کی سیکولر کہی جانے والی دیگر ہر بڑی پارٹیوں نے بھی کچھ کم ناروا سلوک نہیں اپنایا ہے۔
خواہ احسان جعفری شہید اور ذکیہ جعفری کے ساتھ کانگریس کا سوتیلا رویہ ہو یا سماج وادی پارٹی کا رویہ اعظم خان کے ساتھ ہو۔ اسی طرح بہوجن سماج وادی پارٹی سے مختار انصاری کو ہی لے لیجئے، عام آدمی پارٹی کا نفاق بھرا چہرہ دیکھنا ہو تو دلی فساد میں پھنسائے گئے طاہر حسین و دیگر کا مسئلہ سامنے کر لیجئے یا پھر کرونا کے نام پر تبلیغی جماعت کو بدنام کرنے والی سیاست یاد کیجیے۔
مختصر یہ کہ برے حالات میں سبھوں نے مسلمانوں کو صرف اکیلا نہیں چھوڑا بلکہ پیٹھ پیچھے چھرا گھونپنے کا کام بھی کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر ہم کب تک ان منافق جماعتوں اور لیڈروں کے حوالے اپنی ملت کو کریں گے؟
کب تک ان کی دریوزہ گری کو اپنا شیوہ بنائے رکھیں گے؟؟
کیا ہمارے پاس افراد کی کمی ہے؟
کیا لالو و نتیش کے بچوں کی طرح ہمارے نوجوان بچے دسویں اور بارہویں فیل ہیں؟
نہیں نا۔؟
الحمد للہ ہماری نوجوان نسل تعلیمی میدان میں یادؤوں اور سہنی برادری سے آگے ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ ان لوگوں نے تیجسوی یادو وتیج پرتاب یادو اور اکھلیش یادو کو پارٹی قائد و ذمہ دار بنانے کے لیے شہاب الدین سے لیکر اعظم خان تک کی بلی چڑھائے ہے۔
اس لیے وقت آ گیا ہے کہ دوسروں پر تکیہ کرنے کے بجائے ہم اپنا بیس مضبوط کریں، میں یہ نہیں کہتا کہ مسلم نام کی اک اور پارٹی وجود میں لائیے بلکہ میں ایسے منصوبوں کی وکالت کر رہا ہوں کہ جہاں پر ہر ذات اور برادری کے لوگ ہوں لیکن اندرون خانہ مسلمانوں کی حیثیت تھنک ٹینک اور رولز نافذ کروانے والے کی سی ہو۔ اس لیے خدارا دیر نہ کیجیے اور ایسے بے باک اور بے خوف ملت کی مسیحائی کرنے والے قائدین تلاش کیجئے ڈھونڈھیے اور انہیں تیار کیجیے اسی طرح جو پھنسائے گئے ہیں ان کی بحفاظت رہائی کی سعی تیز تر کیجیے کہیں ایسا نہ ہو کہ ڈاکٹر شہاب الدین مرحوم کی طرح انہیں بھی تر نوالہ نہ بنالیا جائے۔
یاد رکھیے کہ قیادتیں آسمان سے نہیں اترتی بلکہ زمین پر بنائی اور سنواری جاتی ہیں،
اگر ہم اب بھی ماضی کے واقعات سے درس لیکر مستقبل کے لیے مضبوط منصوبہ بندی کریں گے تو بعید نہیں کہ ملک میں ہماری پکڑ بھی قوی تر ہو جائے گی۔

Comments are closed.