غزہ کی 91 فیصد آبادی خوراک کے بحران کا شکار ہے

بصیرت نیوزڈیسک
غزہ کی پٹی میں وزارت صحت کے ڈائریکٹر جنرل منیر البرش نے اعلان کیا کہ 2 مارچ سے جاری اسرائیلی ناکہ بندی اور امداد اور خوراک کے داخلے کے لیے گذرگاہوں کی بندش کی وجہ سے پٹی کی 91 فیصد آبادی "خوراک کے بحران” کا شکار ہے۔
البرش نے اخباری بیانات میں کہاکہ”غزہ ایک ہولناک انسانی المیے کا سامنا کر رہا ہے جو کہ نسل کشی اور اسرائیلی محاصرے کے نتیجے میں بھوک، غربت اور بیماری کو ایک ساتھ مسلط کیے ہوئے ہے‘۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ "غزہ کی 65 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں ہے۔ تقریباً 92 فیصد بچے اور دودھ پلانے والی مائیں شدید غذائی قلت کا شکار ہیں، جس سے ان کی زندگی اور نشوونما کو براہ راست خطرہ لاحق ہے”۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ "غزہ کی پٹی تمام شعبوں میں بڑے پیمانے پر تباہی کا مشاہدہ کر رہی ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف سے بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا، بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے”۔
البرش نے اقوام متحدہ سے "غزہ کی پٹی میں قحط کا باضابطہ اعلامیہ جاری کرنے” کا مطالبہ کیا۔ "فیلڈ اشارے اور طبی اور انسانی اعداد و شمار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ اس کے لیے بین الاقوامی شرائط پوری ہو چکی ہیں”۔
انہوں نے عالمی برادری سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ "صحت اور خوراک کے شعبوں کی مدد کے لیے فوری اقدام کریں اور آبادی کو اس تباہی سے بچائیں جس کا وہ جاری نسل کشی اور محاصرے کے نتیجے میں سامنا کر رہے ہیں”۔
غزہ میں سرکاری میڈیا آفس نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اسرائیلی ناکہ بندی کی وجہ سے پٹی "قحط کے جدید مرحلے” میں داخل ہو گئی ہے۔
دفتر کے ڈائریکٹر جنرل اسماعیل الثوابطہ نے انادولو ایجنسی کو بتایاکہ "قابض اسرائیل نے دو ماہ سے زیادہ عرصے سے محاصرہ کر رکھا ہے اور کراسنگ کو مکمل طور پر بند کر رکھا ہے”۔
اسی تناظر میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس اذانوم گیبریئس نے کہا کہ غزہ کی پٹی کی صورتحال "تباہ کن” ہے اور وہاں کے 20 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں۔
انہون نے جنیوا میں ڈبلیو ایچ او کے ہیڈ کوارٹر میں صحافیوں کو بتایا کہ عالمی صحت کی فنڈنگ کو تاریخی چیلنجوں کا سامنا ہے کیونکہ عطیہ دہندگان اپنے تعاون کو کم کرتے ہیں۔
Comments are closed.