زکاۃ : فضائل اور فوائد و ثمرات

از قلم: زبیر احمد پرلی
’’ زکاۃ‘‘ ایمان کی اساس اور دینِ متین کا رکنِ عظیم ہے، جس کی ادائیگی ہر صاحبِ نصاب مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے، اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ زکاۃ کی ادائیگی جہاں دنیاوی منافع کا باعث اور اخروی انعامات کا ذریعہ ہے تو وہیں اس کی عدمِ ادائیگی نقصان و خسران کا سبب اور وبالِ جان و مال ہے، اور اس کا منکر دائرہ اسلام سے خارج ہے؛ کیوں کہ اس کی فرضیت پر کتاب وسنت کی بےشمار نصوص شاہد ہے؛ لہذا اس پر ایمان رکھنا اور بر وقت اس کو ادا کرکے زبانِ حال سے کہہ دیں :
میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

ربِ ذوالجلال کا فضل و احسان اپنے بندوں پر
ذرا غور کریں کہ کتنی لطیف اور عجیب ہے کہ وہ ذات جو سب کچھ عطا کرنے والی ہے وہ اپنے بندے سے اس میں سے کچھ حصہ بطورِ قرض کے مانگتی ہے اس وعدے کے ساتھ کہ جو کچھ وہ میرے نام پر میری راہ میں خرچ کرے گا میرے پاس اس کے حساب میں جمع ہوتا رہے گا۔ اور یہ دستور مسلم ہے کہ ہر قرض خواہ کے ذمے قرض کا لوٹانا لازم ہوتا ہے۔ اور وہ کریم ذات جو اتنی جواد، سخی اور بن مانگے ہر ایک کو عطا کرنے والی ہے کیوں نہ بے اندازہ اور بہتر انداز سے قرض ادا کرے گی، یہ تو اس نے انسان کی عزت افزائی اور اکرام کے سامان پیدا کیے ہیں؛ ورنہ کون دینے والا ہے جو اپنے دیئے ہوئے میں سے قرض مانگیں۔

زکاۃ اور انفاقِ مال کی فرضیت کتاب وسنت کی روشنی میں
قرآن کریم کی بےشمار آیات زکاۃ کی فرضیت پر دال ہے، چنانچہ رب ذوالجلال کا ارشاد ہے :يا اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰـکُمْ(البقرہ، 2 : 254)’’اے ایمان والو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے خرچ کرو۔‘‘
اسی طرح دوسرے مقام پر رشد و ہدایت اور تقویٰ سے بہرہ یاب ایمانداروں کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا :هُدًی لِلْمُتَّقِيْنَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ( البقرہ:3)
’’(قرآن) متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے، نماز قائم کرتے اور ہم نے انہیں جو رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
اسی پیرایہ میں مزید تاکید کے ساتھ انفاق مال کی ضرورت پر ان الفاظ سے زور دیا گیا :وَاَنْفِقُوا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ يَّاتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ ( المنافقون:10)’’ہم نے تمہیں جو رزق عطا کیا اسے اس سے پہلے کہ تم پر موت آ جائے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرلو۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا ہے کہ قبل اس کے کہ تمہیں مرگ ناگہانی آ کر دبوچ لے اپنا پاک و طیب مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اپنا وطیرہ بنا لو۔ موت کے بعد جب ظاہری اسبابِ حیات منقطع ہوجائیں گے اور قیامت کے دن تم سے مواخذہ اور جواب طلبی ہوگی توسوائے پچھتاوے کے تمہارے پاس کچھ نہ ہو گا۔
اسی طرح بےشمار احادیث و روایات سے بھی زکاۃ کی فرضیت کا ثبوت ملتا ہے؛ چنانچہ رسولِ ﷺ کا فرمان ہے :
’’اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے، (انہی میں سے ایک) زکوۃ ادا کرنا،‘‘(بخاری شریف، کتاب الایمان،حدیث نمبر۸،ج۱،ص۱۴)
اسی طرح بروایتِ حضرت عبد اللہ ابن عمر ؓ رسول ﷺ کا ارشاد ہے :”مجھے اللہ پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں؛ جب تک وہ یہ گواہی نہ دیں کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ ) خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکاۃ دیں، پس اگر ایسا کرلیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہوجائیں گے ؛ سوائے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر لازم کردی ہو ۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان،حدیث نمبر ۲۵،ج۱،ص۲۰)
اور اسی طرح نبی ﷺ نے حضرت معاذؓ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا:’’ان کو بتاؤ کہ اللہ پاک نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے کہ مال داروں سے لے کر فقرا کو دی جائے ۔‘‘(سنن الترمذی، کتاب الزکاۃ، حدیث نمبر۶۲۵،ج۲،ص۱۲۶)
اور حضرت ابو ہریرہؓ فرماتے ہیں:جب رسول ﷺ کا وصال ہوگیا اور حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ بنے اور کچھ قبائلِ عرب مرتد ہوگئے (کہ زکاۃ کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمرؓ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ”مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں ۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کرلیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کرلیا؛ مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ پاک کے ذمے ہے۔“ (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا: ”اللہ کی قسم! مَیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکاۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکاۃ مال کا حق ہے بخدا اگر انھوں نے (واجب الاداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔” حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں :”واﷲ! میں نے دیکھا کہ اﷲ پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے ۔“(صحیح البخاری ،کتاب الزکاۃ،باب وجوب الزکوۃ،حدیث نمبر ۱۳۹۹،۱۴۰۰،ج۱،ص۴۷۲،۴۷۳)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کلمہ گوئی اِسلام کے لیے کافی نہیں؛ جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے۔ اورامیر المومنین فاروق اعظمؓ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں یہ خیال تھا کہ زکاۃ نہیں دیتے اس کی وجہ سے گنہ گار ہوئے، کافر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے؛ مگر جب حقیقت حال کا علم ہوا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ (بہارِ شریعت ،ج۱،حصہ ۵،ص ۸۷۰)

زکاۃ ادا کرنے کے فوائد و ثمرات
زکاۃ ادا کرنا صرف مالی حق ہی نہیں ہے؛ بلکہ اس کے بے شمار فضائل اور بے انتہاء فوائد بھی ہیں ذیل میں چند فضائل و فوائد ذکر کیے جاتے ہیں:
(1) تکمیلِ ایمان کا ذریعہ:
زکاۃ کی ادائیگی تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے؛ جیسا کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:” تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو۔“(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات،حدیث نمبر۱۲، ج۱،ص۳۰۱)
اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے ۔“ (المعجم الکبیر ،حدیث نمبر ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)

(2) رحمتِ الہٰی کی برسات:
زکاۃ دینے والے پر رحمتِ الہٰی کی برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ:’’میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے ؛ اس لئے میں ان لوگوں کے لئے رحمت کا فیصلہ کروں گا ، جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ‘‘ ۔(الاعراف:۱۵۶)

(3)تقویٰ وپرہیزگاری کا حصول:
زکاۃ دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے؛ چناں چہ ارشادِ باری ہے :وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ (البقرۃ:۳)’’ اورہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں خرچ کرتے ہیں”۔

(4) کام یابی کا راستہ: زکاۃ دینے والا کام یاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے؛ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح پانے والوں کی ایک نشانی زکاۃ کی ادائیگی بھی بتائی گئی ہے؛ چناں چہ ارشاد ہوتا ہے :قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ (۱) وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ(المؤمنون :۱ تا ۴)’’بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو کہ زکاۃ دینے کا کام کرتے ہیں”۔

(5) مال میں برکت:
زکاۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا؛ بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ (سبا:۳۹ )’’ اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔”
(6) اور زکاۃ اداکرنے والے قیامت کےدن ہر قسم کےغم اورخوف سےمحفوظ ہونگے۔(البقرہ 277)

زکاۃ ادا نہ کرنے پر وعید:
شریعت مطہرہ نے جہاں زکاۃ کی ادائیگی کو فوائد و برکات کا ذریعہ قرار دیا ہے تو وہیں زکاۃ ادا نہ کرنے والے کے لئے سخت عذاب کی وعید بھی سنائی ہے. مثلاً
1۔زکوٰۃکا انکار کرنے والا کافر ہے۔(حم السجدۃآیت نمبر 6-7)
2۔ زکاۃ ادا نہ کرنے والے کو قیامت کے دن سخت عذاب دیا جائےگا۔(التوبہ34-35)
3۔زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی قوم قحط سالی کا شکار ہوجاتی ہیں۔(طبرانی)
4۔زکوٰة كا منکر ‎جو زکاة ادانہیں کرتا تو اسکی نماز،روزہ،حج سب بیکار ہیں۔
زکاۃ کی عدمِ ادائیگی کے متعدد نقصانات بھی ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :
(1) ان فوائد سے محرومی جو اسے زکاۃ کی ادائیگی کی صورت میں مل سکتے تھے ۔
(2) بخل یعنی کنجوسی جیسی بُری صفت سے (اگر کوئی اس میں گرفتار ہوتو)چھٹکارا نہیں مل پائے گا۔ رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے :”سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جو سخی ہوا اس نے اس درخت کی شاخ پکڑ لی، وہ شاخ اسے نہ چھوڑے گی؛ یہاں تک کہ اسے جنت میں داخل کردے اور بخل آگ میں ایک درخت ہے ،جو بخیل ہوا ،اس نے اس کی شاخ پکڑی، وہ اسے نہ چھوڑے گی؛ یہاں تک کہ آگ میں داخل کر ے گی۔“(شعب الایمان ،باب فی الجود ِوالسخاء،حدیث نمبر،۱۰۸۷۷،ج۷،ص۴۳۵)
(3)مال کی بربادی کا سبب ہے؛ جیسا کہ رسول ﷺ فرماتے ہیں:”خشکی وتری میں جو مال ضائع ہوا ہے وہ زکاۃ نہ دینے کی وجہ سے تلف ہوا ہے ۔“(مجمع الزوائد،کتاب الزکوٰۃ،باب فرض الزکوٰۃ،حدیث نمبر۴۳۳۵،ج۳،ص۲۰۰)
(4) زکاۃ ادا نہ کرنے والی قوم کو اجتماعی نقصان کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جوقوم زکاۃ نہ دے گی اللہ پاک اسے قحط میں مبتلاء فرمائے گا ۔“(المعجم الاوسط ،حدیث نمبر۴۵۷۷،ج۳،ص۲۷۵)
(5) زکاۃ نہ دینے والے پر لعنت کی گئی ہے؛ جیسا کہ حضرت سیدنا عبداللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں:” زکاۃ نہ دینے والے پر رسول اللہ ﷺ نے لعنت فرمائی ہے ۔“(صَحِیْحُ ابْنِ خُزَیْمَۃ،کتاب الزکاۃ،باب جماع ابواب التغلیظ،ذکر لعن لاوی…الخ،حدیث نمبر ۲۲۵۰،ج۴،ص۸)
(6) عذابِ جہنم کا سبب: ”دوزخ میں سب سے پہلے تین شخص جائیں گے ان میں سے ایک وہ مال دار جو اپنے مال میں اللہ پاک کا حق ادا نہیں کرتا۔“(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الزکوٰۃ،باب لذکر ادخال مانع الزکات النار….الخ ،حدیث نمبر۲۲۴۹،ج۴،ص۸ ملخصاً)
زکاۃ کے اسرار و حِکم :
زکاۃ کی مشروعیت اسرار و حکم پر اور رموز و غوامض سے معمور ہے، قارئین کے فائدے کے لئے سطورِ ذیل میں جس کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے:زکاۃ مالداروں، امیروں اور صاحبِ ثروت کے نفوس کو بخل ولالچ اور حرص وطمع کی گندگی سے پاک کرتی ہے، ان کے دلوں کو انانیت، حد سے زیادہ مال کی چاہت اور مال پر ٹوٹ پڑنے اور سمیٹ سمیٹ کر رکھنے کے جذبے سے صاف کرتی ہے، مال ودولت کے حصول میں بے لگامی، خود غرضی اور بد ترین قسم کی لالچ سے دھوتی ہے، اسی طرح زکاۃ مالداروں کو گناہوں، لغزشوں، کوتاہیوں اور معصیتوں سے پاک کرتی اور ان برائیوں ومعصیتوں کا کفارہ بنتی ہے، جس کا ان سے ارتکاب ہوتا رہا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اگر تم اپنے صدقات ظاہر کرکے دو تو یہ بھی ایک اچھی بات ہے، اور اگر تم ان کو پوشیدہ رکھو اور محتاجوں کو دے دو، تو یہ تمہارے لئے اور بھی زیادہ اچھا ہے، اور (اس طرح ان صدقات و خیرات کی بنا پر) اللہ مٹا دے گا تم سے تمہارے کچھ گناہ، اور اللہ پوری طرح باخبر ہے تمہارے ان کاموں سے جو تم لوگ کرتے ہو۔(البقرہ271)
جس مال کی زکاۃ نکالی جاتی ہے، زکاۃ اس مال کو اللہ کے اور بندوں کے حقوق سے پاک کردیتی اور صاحبِ مال کے لئے اسے حلال وطیب اور عمدہ بنا دیتی ہے، ارشادِ نبوی ہے:اللہ نے زکاۃ اسی لئے فرض کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعہ تیرے بقیہ مال کو پاک کرکے عمدہ بنادے۔
زکاۃ اسلامی معاشرہ کو فقر وافلاس، بے کسی و بد حالی، ناداری ومحرومی اور دستِ سوال پھیلانے سے پاک کرتی اور ان ناداروں وبے کسوں کے دلوں سے بغض وعناد، نفرت وحسد اور کینہ وکدورت سے دور کرکے اسے صاف کرتی ہے، انہیں طبقاتی کشمکش اور علاقائی تعصب سے نکال کر اخوت ایمانی کے پر فضا مقام پر لاکھڑا کرتی ہے۔
خلاصۂ تحریر:
مال اللہ کی عظیم نعمت ہے، جس کے ایک مقررہ حصہ کا اللہ نے ہم سے مطالبہ کیا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بڑی خوش دلی اور پوری بشاشت سے ادا کرے؛ کیوں کہ قرض کو بوجھ محسوس کرنا اور دل تنگ کرلینا قیامت کی علامت ہے؛ جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے، اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہیےکہ وبائی حالات کا آنا اور اجتماعی آفات و مصائب کے نزول کا ایک سبب زکاۃ کی عدمِ ادائیگی بھی ہے، اس لیے ہر شخص اپنے طور پر اپنی کل مالیت کا اندازہ لگا کر اس کا ڈھائی فی صد حصہ بطورِ زکاۃ ادا کریں، پروردگارِ عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمارے زکاۃ و صدقات کو شرفِ قبولیت سے نوازے اور اور دنیا سے اس وباء کے خاتمے کے فیصلے فرمائیں آمین۔

Comments are closed.