عید کس طرح منائیں!

مولانا ندیم الواجدی
شوال کے مہینے کی پہلی تاریخ کو عید الفطر کہتے ہیں، یہ لفظ ’’عود‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی ہیں لوٹنا، مفردات القرآن کے مصنف امام راغب الاصفہانی ؓنے لکھا ہے کہ عید وہ ہے جو بار بار عور کرے یعنی لوٹ کر آئے، عربوں نے اس لفظ کو خوشی اور مسرت کے دن کے لیے مخصوص کرلیا ہے، قرآن کریم میں اس معنی میں یہ لفظ حضرت عیسی علیہ السلام کی اس دُعا میں استعمال کیا گیا ہے اَللّٰہُمَّ رَبَّنَا اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَائِدَۃً مِنَ السَّمَائِ تَکُوْنُ لَنَا عِیْداً لِاَوَّلِنَا وَآخِرِنَا (المائدۃ: ۱۱۴) ’’اے اللہ ہم پر آسمان سے ایک دستر خوان نازل فرمادیجئے جو ہمارے اور ہماری آنے والی نسلوں کے لیے باعث مسرت ہو‘‘ شریعت کی اصطلاح میں یہ لفظ عید الفطر اور عید الاضحی کے لیے خاص ہے، اللہ نے یہ چار دن خوشی اور مسرت کے قرار دیئے ہیں اور انہیں حدیث شریف میں ایام اکل وشرب (کھانے پینے کے دن) کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے رمضان کا با برکت مہینہ ختم ہورہا ہے، اور اب عید الفطر کی آمد کا شور ہے، اللہ کے نیک بندوں نے حسب توفیق اس مہینے کی برکتیں سمیٹ لی ہیں، روزے، تراویح، اعتکاف اور تلاوت کلام پاک جیسی عبادتوں سے اپنے نامۂ اعمال کا بوجھ بڑھا لیا ہے ، عید ان نیک بندوں کے لیے انعام کا دن ہے، ایک حدیث میں ہے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب عید الفطر کا دن ہوتا ہے تو فرشتے راستوں کے کناروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکار پکار کر کہتے ہیںکہ اے مسلمانو !صبح سویرے اپنے رب کریم کی طرف چلو جو تم پر خیر وبرکت کے عظیم احسانات فرمائیں گے اور تمہیں لا محدود اور لا زو ال ثواب عطا کریں گے، تمہیں رات کے قیام کا حکم دیا گیا تم نے قیام کیا اور تراویح پڑھی، تمہیں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا تم نے روزہ رکھا اپنے رب کا حکم مانا اور اطاعت کی ، لہذا تم اپنے انعامات حاصل کرو، جب بندے عید کی نماز سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ نے تمہاری مغفرت کردی ہے، اب تم اپنے گھروں کو ہدایت یاب ہوکر جاؤ، آج انعام کا دن ہے اور اس دن کا نام آسمان میں یوم الجائزہ (انعام کا دن) رکھا جاتا ہے (مجمع الزوائد: ۳/رقم الحدیث: ۳۲۲۵، المعجم الکبیر: ۱/۲۲۶، رقم الحدیث: ۶۱۷) اس حدیث کو ایک دوسری حدیث کی روشنی میں دیکھئے فرمایا: کُلُّ عمل ابن آدم یضاعفُ الحسنۃ عشرۃ امثالہا إلی سبع مائۃ ضعف قال اللّٰہ عزوجل: إلا الصوم فإنہ لی وانا أجزی بہ۔ (مسلم :۲/۸۰۶، رقم الحدیث: ۱۱۵۱) ’’آدمی کے ہر عمل کا ثواب دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ (کے ثواب کی نوعیت یہ نہیں ہے) روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا‘‘ ہر نیکی کا اجر اللہ ہی عطا کرنے والا ہے مگر روزے کو بہ طور خاص اپنے لیے مخصوص کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا اجربہت ہی خاص ہے، اب اگر عید کے دن ملنے والے انعامات کو اس حدیث کی روشنی میں دیکھیں تو جو کچھ روزہ داروں کو اس روز بہ طور انعام ملنے والا ہے اس کی قدر وقیمت کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا اور نہ اس اجر کو کسی خاص عدد تک محدود کیا جاسکتا ہے۔
ہر قوم کے کچھ خاص دن ہوتے ہیں جن میں اس قوم کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور رسم ورواج کے مطابق جشن مناتے ہیں، اچھا لباس پہنتے ہیں، اچھا کھانا کھاتے ہیں اور مل جل کر خوشی کا کچھ وقت گزارتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہ دیکھا کہ مدینے کے لوگ دو تہوار مناتے ہیں اور ان دونوں میں کھیل تماشے کیا کرتے ہیں،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ یہ دو دن کیسے ہیں، کہنے لگے کہ ہم جاہلیت کے زمانے میں ان دو دنوں کو کھیل کود کے دن کے طور پر منایا کرتے تھے، سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے تمہارے ان دو تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن تمہارے لیے مقرر کردیئے ہیں (ایک) عید الاضحی کا اور (دوسرا) عید الفطر کا دن (ابوداؤد: ۱/۳۶۴، رقم الحدیث: ۱۱۳۴) اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اسلام انسانی فطرت کے تقاضوں کی نفی نہیں کرتا بلکہ و ہ ان کی تکمیل کرتا ہے، خوشی اور مسرت کا اظہار انسانی فطرت کا تقاضا ہے اور اس مقصد کے لیے دور جاہلیت میں اہل مدینہ دو دن خاص رکھتے تھے، اسلام نے ان دو دنوں کو اظہار مسرت کے دن کے ساتھ ساتھ عبادت کا رنگ بھی دے دیا، دونوں دنوں میں مسلمان عید گاہ جاتے ہیں اور دوگانہ نماز ادا کرتے ہیں، یہ دونوں تہوار اسلام کے توحیدی مزاج اور اس کی صاف ستھری تعلیمات کے عین مطابق ہیں، کیوں کہ عید الفطر مسلمانوں کا قومی وملی تہوار بھی ہے اور عبادت بھی ہے ، اسی لیے فقہاء نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی روشنی میں ان کے احکام بھی مرتب کرکے امت کے سامنے رکھ دیئے ہیں، عید تو ہم منائیں گے ہی اگر اس دن کو شر یعت کے حکم کے مطابق اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کی روشنی میں منائیں تو یہ ہمارے لیے زیادہ بہتر ہوگا اس طرح ہم اس دن کے ہر لمحے کو عبادت بھی بنا سکتے ہیں اور دنیاوی لطف ومسرت کے ساتھ اخروی اجر وثواب کے بھی مستحق ہوسکتے ہیں۔
اسلام خشک مذہب نہیں ہے، نہ وہ جسمانی اور ذہنی تفریحات کے خلاف ہے بلکہ آپ جائز حدود میں رہ کر ہر وہ کام کرسکتے ہیں جس سے آپ کے قلب وروح کو بھی تسکین ملے اور جسم کو بھی طمانینت کا احساس ہو، عید الفطر کا دن ہماری زندگی میں ایک سال میں ایک بار آتا ہے، آپ شریعت کے احکام کی پابندی کرتے ہوئے اس دن کو یاد گار بنا سکتے ہیں، خوشی اور مسرت کا پورا پورا مظاہرہ کریں، اچھا پہنیں، اچھا کھائیں تفریحی مشاغل اختیار کریں، عزیز واقارب اور دوست واحباب سے ملیں جلیں، اس دن روزہ رکھنے سے اسی لیے منع کیا گیا ہے کہ بہ قدر وسعت وصحت خوب کھایا پیا جائے، اگر آج کے دن بھی روزہ رکھنے کا حکم ہوتا تو عید کی خوشی آدھی رہ جاتی، بغیر کھائے پیئے کسی تفریح کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کے ساتھ ہی یہ حکم بھی ہے کہ اس دن نہائیں، دھوئیں، جو کپڑے سب سے اچھے ہوں وہ پہنیں، خوشبو لگائیں حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ عید کے دن ہمارے گھر کچھ بچیاں بیٹھی تھیں اور جنگ بعاث سے متعلق کچھ اشعار گار رہی تھیں اسی دوران حضرت ابوبکر ؓ تشریف لائے اور کہنے لگے کہ اللہ کے رسول کے گھر میں یہ کیا گایا جارہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اس وقت ہماری طرف سے کروٹ لئے لیٹے ہوئے تھے (حضرت ابوبکرؓ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا) اے ابوبکر انہیں گانے دو، ہر قوم کے لیے تیوہار کا ایک دن ہوتا ہے آج ہماری عید کا دن ہے (بخاری: ۱/۳۲۴، رقم الحدیث: ۹۰۹، مسلم؛ ۲/۶۰۷ رقم الحدیث: ۸۹۲) اسی طرح روایات میں ہے کہ عید کے دن کچھ حبشی بازی گر کرتب دکھلا رہے تھے، آپ نے خود بھی وہ کرتب دیکھے اور حضرت عائشہؓ کو بھی اپنی آڑ میں کھڑا کرکے دکھلائے، جب حضرت عائشہؓ یہ تماشہ دیکھتے دیکھتے تھک گئیں تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اچھا اب چلو (مسلم: ۲/۶۰۷، رقم الحدیث: ۸۹۲) آج ہم عید کو آزادی کا دن سمجھ کر ہرطرح کی خرافات میں مبتلا ہوجاتے ہیں، عید کے چاند کا اعلان ہوتے ہی واقعۃً ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیطان کُھل چکا ہے، جشن عید کے نام پر ہر وہ کام کیا جاتا ہے جس کی عام دنوں میں بھی اجازت نہیں ہے چہ جائیکہ وہ کام عید کی رات یا عید کے دن کئے جائیں۔
یہ کوئی معمولی رات نہیں ہے، اگرچہ رمضان ختم ہوچکا ہے مگر یہ مہینہ بھی کچھ کم خیر وبرکت کا نہیں ہے، یہ اس مہینے کی پہلی شب ہے، اس شب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اسے لیلۃ العید(چاند رات یا عید کی رات) کہتے ہیں ،حضرت ابوامامہؓ نے اس رات کے سلسلے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس شخص نے عیدین کی راتوں میں خاص اجر وثواب کی امید پر عبادت کی اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل (آخرت کے خوف سے) مردہ ہوچکے ہوں گے (ابن ماجہ: ۱/۵۶۷، رقم الحدیث: ۱۷۸۲)اس کا مطلب یہ ہے کہ عیدین کی راتوں میں عبادت کرنے والے کا دل قیامت کے دن ہر طرح سے پرسکون ہوگا حالاں کہ وہ دن بڑا سخت ہوگا اور اس کی دہشت سے گنہ گاروں کے دل کانپ رہے ہوں گے، بعض علماء نے اس حدیث کی تشریح میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس شخص کا دل دنیا کی محبت میں دیوانہ نہ ہوگا اور یہ شخص بری موت سے محفوظ رہے گا، اسی لیے علماء نے لکھا ہے کہ اس رات کو عبادت میں گزارنا افضل ہے ۔ (فتاوی محمودیہ: ۲/۳۳۵ ، طبع قدیم)
[email protected]
Comments are closed.