روزہ کی حکمت

محمد عبداللہ خان المدنی(اٹک)
رمضان المبارک کا مبارک مہینہ اپنے اختتام کے قریب ہے اس مہینہ میں مسلمان روزے کا اہتمام کرتے ہیں چاہے کوئی رمضان المبارک کے فضائل کو جانتا ہو یا نہ بہی جانتا ہو غرض یہ کہ ہر ایک مسلمان اس ماہ مقدس کا احترام کرتے ہوئے اس میں فرض کیے گئے روزے رکہتا ہے لیکن اس کو روزے کے فوائد معلوم نہیں ہوتے بلکہ وہ صرف اپنے اوپر عائد کیے گئے فرض کو پورا کرتا ہے اسلئے آج روزہ کی حکمت اس نیت سے بیان کرینگے تاکہ مسلمان روزہ کے فوائد جان کر دل و جان سے روزہ رکہنے کے فرض کو ادا کریں۔قرآن کریمہ کی آیت ” یاایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام ” میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر حکم نازل فرما رہے ہیں کہ ” اے ایمان والوں تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں ” اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بہوکا پیاسا رکھ کر خوش ہورہیں ہے نہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم کر رہے ہیں تو پھر یہ حکم اس لئے دے رہے ہیں کہ تم پرہیزگار بن جاو۔(لعلکم تتقون)
روزے کی حکمت ہی یہی ہے کہ انسان متقی و پرہیزگار بن جائے اور اصل میں تقوی ہے کیا چیز؟انسان ایسی زندگی گزارے کہ اس کا دامن گناہوں سے بچا رہے اسی کو تقوی و پرہیزگاری کہتے ہیں
روزہ صرف بھوک پیاس کا نام نہیں بلکہ روزہ انسان کے تمام اعضاء کا ہوتا ہے زبان کابھی روزہ کہ انسان اس کے ذریعے کسی دوسرے مسلمان بہائی کی غیبت نہ کرے اس کی چغلی نہ کرے آنکھ کابھی روزہ ہوتا ہے کہ آنکھ سے بد نظری نہ کرے ان چیزوں کو نہ دیکھے جن کو دیکھنے سے شریعت نے منع کیا ہو کانوں کا بھی روزہ ہوتا ہے انسان کانوں سے ایسی چیزوں کو نہ سنے جن سے دین اسلام کے احکامات منع کرتے ہوں ہاتھ کا بھی روزہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے ہاتھوں کو کسی گناہ والے کام میں ملوث نہ کرے پاوں کا بھی روزہ ہوتا ہے کہ انسان ان جگہوں کی طرف نہ چلے جہاں اسے گناہ میں پڑنے کا اندیشہ کو دماغ کا بھی روزہ ہوتا ہے کہ انسان ایسے خیالات ہی دماغ میں نہ لائے کہ دل کسی گناہ کی طرف مائل ہو حقیقی روزہ دار تو وہی ہوتا ہے جو سر سے لے کر پاوں تک روزہ دار ہوتا ہے۔روزہ کا لطف ہی تب حاصل ہوتا ہے جب انسان کے مکمل اعضاء روزہ دار ہوں ۔حدیث پاک میں آتا ہے کہ کچھ روزہ دار ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں بھوکا پیاسا رہنے کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا یعنی کہ وہ روزہ تو رکہتے ہیںبھوک پیاس برداشت کرتے ہیں لیکن انہیں روزہ کا ثواب نہیں مل رہا ہوتا ہے اسلئے کہ وہ صرف بھوک پیاس کو ہی روزہ سمجھتے ہیں اور ان کے باقی تمام اعضاء رب تعالیٰ کی نافرمانی میں لگے ہوتے ہیں۔روزہ بھی رکھا ہوتا ہے لیکن دماغ سے برا سوچتے ہیں ۔روزہ رکہا ہوتا ہے لیکن دل میں گناہ کے کاموں پر عزم پختہ کرتے ہیں۔ روزہ رکہا ہوتا ہے لیکن آنکھوں سے بد نظری کرتا ہے۔روزہ رکہا ہوتا ہے لیکن شریعت کے احکامات کو روندتے ہوئے گناہ کرنے کے مقام کی طرف چلتا ہے۔ روزہ رکھا ہوتا ہے لیکن ہاتھ شریعت کی منع کردہ کاموں میں ملوث ہوتے ہیں ۔روزہ بھی رکھا ہے لیکن دوسروں کا حق چہینتے ہیں اسی لئے حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ انہیںبھوک پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو۔
روزہ کے آداب میں سے ہے کہ جیسے ہم روزہ رکھ کر بھوک پیاس برداشت کرتے ہیں اسی طرح ہمیں گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے اور عام طور پر دیکھا بھی گیا ہے کہ جو پرہیزگاری کے ساتھ روزہ رکہتے ہیں، گناہوں سے خود کو بچاتے ہیں، تو انہیں بھوک پیاس محسوس ہی نہیں ہوتی ہے اور جو روزے کے آداب کو ملحوظ خاطر نہیں رکھتے اور دیگر گناہوں میں ملوث ہوتے ہیں تو انہیں بھوک پیاس بھی زیادہ لگتی ہے۔ڈاکٹروں کی ایک تحقیق کے مطابق رمضان المبارک کے ایک مہینہ روزہ رکہنے کئی بیماریاں خود بخود ختم ہوجاتی ہے رمضان المبارک کا جسمانی طور پر بھی اور روحانی طور پربھی بہت فائدہ ہے جسمانی فائدہ تو یہ ہوا کہ روزے رکھنے سے کئی بیماریاں ختم ہوجاتی ہے روحانی فائدہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے سے مسلمان کے اندر احساس ہوتا ہے کہ بھوک اور پیاس ایک ناقابل برداشت چیز ہے جس کو ہمارے آس پڑوس کے غریب غرباء سال کے تین سو پینسٹھ دن برداشت کرتے ہیں اگر کچھ کھانے کو ملا تو رب کا شکر ادا کرتے ہیں نہیں تو صبر کر کہ پوری پوری رات اس بھوک کو برداشت کرتے ہیں تو ایسے مسلمان جن کو اللہ تعالیٰ نے دولت کی نعمت سے نوازا ہو ان کے اندر اپنے آس پاس کے غریبوں کا احساس پیدا ہوگا اور وہ ان کے اوپر خرچ کر کہ روزہ کے ثواب کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے غریب بندوں پر خرچ کرنے کا ثواب بھی پائے گا.
روزہ رکھنے سے تقوی و پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے اور رزق کی قدر معلوم ہوتی ہے۔روٹی کئی مراحل سے گزر کر اس قابل بنتی ہے کہ ہم اسے کھائیں،زمین، پانی، ہوا، اور سورج کی دھوپ استعمال ہوئی تو تب گندم تیار ہوتی ہے پھر انسان اس کو کاٹ کہ صاف کرتے ہیں، پھر آگ پر پکاتے ہیں تب جا کر روٹی ہمارے سامنے آتی ہے، اسلئے زمین میں گندم کے دانے کے اگنے سے لے کر پکنے تک کے مراحل کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں مزید پختہ ہوجاتی ہے۔
Comments are closed.