Baseerat Online News Portal

زندگی میں اولادکے درمیان جائیدادکی تقسیم

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

کیافر ماتے ھیں علماء دین شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ:
زید کی عمر 80 سال کو پہنچ گئی ھے،
اھلیہ کا کچھ ماہ قبل انتقال ہوگیا ھے،زید کو 4 لڑکے اور 5 لڑکیاں ھیں۔
زید لڑکوں اور لڑکیوں میں اپنی جائیداد برابر برابر تقسیم کرکے ان کے نام رجسٹری کرکے انھیں علیحدہ علیحدہ جائیداد کا مالک بناکر قبضہ دینا چاہتا ھے۔
ایسا کرنے پراز روئے شرع دنیاوآخرت کے اعتبار سے زید کی کسی قسم کی گرفت تو نھیں ھوگی؟
بینوا توجروا
والسلام
المستفتی:
ابومریم ،
ملاڈ مشرق ممبئی 97

الجواب حامدا ومصلیا ومسلماامابعد
زید اپنی جائیداد کو اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو یہ تقسیم قانونِ وراثت یعنی للذکرمثل حظ الانثیین کے مطابق ہوگی۔ یعنی لڑکیوں کولڑکوں کے مقابل ایک تہائی ملے گا۔اور لڑکوں کو دوتہائی۔
زندگی میں ہی تقسیمِ جائیداد کے دوطریقے ہیں؛
(1) یہ تقسیم "ہبہ” (Gift) کے اصول سے کی جائے ۔
(2) اور دوسرا یہ کہ یہ تقسیم وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہو۔ کچھ بڑے علماء کا کہنا ہے کہ زندگی میں جائیداد تقسیم ہو یا زندگی کے بعد؛ دونوں صورتوں میں قانونِ وراثت کے اعتبار سے ہی تقسیم ہونی چاہیے۔(1)
اگر جائیداد (جوعموما زندگی گزارنے کا ذریعہ ہوتے ہیں) انکے علاوہ روزمرہ کی وقتی ضروریات کی اشیاء کی تقسیم کرنی ہو، تو اس میں ہبہ کے قانون کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔ اس طور پرکہ لڑکی و لڑکے میں کمی بیشی اور تفریق کے بغیر برابری ضروری ہوگی، یعنی لڑکاولڑکی ہر ایک کو برابر برابرحصے ملیں گے۔(2)
اور زندگی میں جائیداد (یعنی جواشیاء عموما انتقال کے بعد بطورمیراث تقسیم ہوتی ہیں ان)کی تقسیم وراثت کے قانون کے مطابق ہوگی۔ اس لیے قانونِ وراثت کے مطابق چاروں لڑکوں اور پانچوں لڑکیوں کے درمیان للذکر مثل حظ الانثیین کے اصول پر تقسیم کے لیے جائیداد کو 13 حصوں میں تقسیم کریں گے، دو دو حصے لڑکوں کو اور ایک ایک حصے لڑکیوں کوملیں گے۔ (3)
تقسیم کے بعد زمین پر لڑکوں ولڑکیوں کو قبضہ بھی دلادیا جائے۔ ورنہ زید کے انتقال کے بعد زید کی جملہ متروکہ جائیداد نئے سرے سے ورثاء کے درمیان تقسیم ہوگی۔ (4)

(1)قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ: قد ثبت بماذکرنا ان مذھب الجمھور فی التسویۃ بین الذکر والانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطر بالبال ان ھذا فیما قصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ، والا اذا ارادا الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ، لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ، فانہ وان کان ھبۃ، لکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث، (تکملۃ فتح الملھم: ج2/ ص75، المفتی محمد تقی العثمانی)۔
(2) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية …… قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»”.  (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
قال (النبی ﷺ) الک بنون سواہ؟ قال نعم، قال: فکلھم اعطیت مثل ھذا، قال:لا، قال: فلا اشھد علی جور. (صحیح مسلم: ج2؍ ص37، رقم الحدیث: 623)
قال فی الہندیة: لو وھب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس بہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ،سوی بینہم وھو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، لفلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: 4/ 391، کتاب الہبة، الباب السادس)
(3)للذكر مثل حظ الأنثيين. (الآية 11سورة النساء)
(4) عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر،(اعلاء السنن: ج16، ص71)
فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیرمشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
ومن وھب شقصا مشاعا فالھبۃ فاسدۃ، لما ذکرنا، فان قسمہ وسلمہ جاز، لان تمامہ بالقبض وعندہ لاشیوع۔(ھدایۃ آخرین:ص288)
فقط واللہ اعلم بالصواب

کتبہ:
*(مفتی) محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء:شہرمہدپور ضلع:اُجین (ایم۔پی)

16ربیع الاول 1443
مطابق23اکتوبر2021ء
[email protected]

تصدیق: مفتی محمد سلمان ناگوری

ترتیب: ڈاکٹر محمد اسرائیل قاسمی، آلوٹ، رتلام۔ ایم پی۔

Comments are closed.